حکومتی یقین دہانیوں کے باوجود جبری گمشدگیوں میں تیزی آئی: بلوچ سماجی کارکن

وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز نے کہا ہے کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرنے کے بعد الزامات کی صورت میں عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

10 دسمبر، 2022 کو کوئٹہ پریس کلب میں وائس آف میسنگ بلوچ پرسنز کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی (ہزار خان بلوچ)

بلوچستان میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں کرنے والے ماما قدیر بلوچ نے ہفتے کو دعویٰ کیا کہ لوگوں کو اٹھانے کے سلسلے میں تیزی آئی ہے اور ان کے پاس لاپتہ افراد کے رجسٹرڈ کیسز کی تعداد 55 سے 60 ہزار ہے۔

حکومت ماضی میں متعدد مرتبہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کروا چکی ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے خود اسلام آباد کورٹ میں معاملہ حل کرنے کا یقین دلایا تھا۔ 

تاہم وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے نائب چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ’اب بھی روزانہ چار سے پانچ طالب علم غائب ہو رہے ہیں، کسی کو گھر سے، کسی کو گاڑی سے اتار کر تو کسی کو بازار سے پکڑ کے لے جاتے ہیں۔ اس میں کمی نہیں آئی بلکہ تیزی آئی ہے۔‘

وہ کوئٹہ پریس کلب میں وائس آف میسنگ بلوچ پرسنز کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے عالمی دن کے حوالے سے منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب، جس میں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے اہل خانہ اور رشتہ داروں نے بھی شرکت کی، کے دوران ایک بچی شاکرہ روتے ہوئے بے ہوش ہو گئی۔

بے ہوش ہونے والی شاکرہ نے، جس کے والد شاہان بلوچ اس سال جنوری سے لاپتہ ہیں، اپنے والد کی گمشدگی کے بارے میں حاضرین کو بتاتے ہوئے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور گر کے بے ہوش ہو گئی۔

شاکرہ کے خاندان کا تعلق بلوچستان کے علاقے منگچر سے ہے اور لاپتہ شاہان بلوچ کنبے کے واحد کفیل تھے۔

اے پی سی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے علاوہ سماجی شخصیات اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ اور دوسرے رشتہ داروں نے شرکت کی۔ 

تقریب میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی، جماعت اسلامی کے مولانا عبدالحق ہاشمی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما ملک عبدالولی کاکڑ اور رکن بلوچستان اسمبلی احمد نواز، انسانی حقوق بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ موجود تھے۔ 

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ 14 سال سے وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کر رہے ہیں، اور بلوچستان، سندھ، اور خیبر پختوںخوا سے جبری لاپتہ ہونے والوں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کر رہے ہیں۔ 

انہوں نے حکام سے مطالبہ کیا کہ تمام لاپتہ افراد کو بازیاب، اور الزامات کی صورت میں عدالتوں میں پیش کیا جائے، اور اگر جرم ثابت ہونے پر انہیں سزائیں دی جائیں۔

 عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بعض قوتوں نے بڑی چالاکی سے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کو توڑا جس سے بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان مسائل پیدا ہوئے۔

جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالحق ہاشمی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جو جتنے اقدامات کیے گئے وہ محض ’نمائشی‘ تھے، جن کے نتیجے میں کوئی لاپتہ فرد بازیاب ہوکر گھر نہیں لوٹا۔

 

’کسی لاش کو مسخ کرکے پھینکنے والے ملزم کو آج تک سزا نہیں مل سکی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی ماہ رنگ بلوچ نے خطاب میں جبری لاپتہ افراد کے حوالے سے پاکستانی پارلیمان اور عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ملک کا دستور بنانے اور اسے ناٖفذ کرنے کے دعوے دار بلوچستان کے لاپتہ افراد کے مسئلے پر خاموش کیوں ہے؟

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں لاپتہ افراد کے مسئلے کو صرف سیاسی ایجنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو  نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقعے پرپیغام میں کہا کہ اس دن کا منایا جانا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے حکومت کے پختہ عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔  

وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کو ہر صورت یقینی بنائے گی۔

’ہم پرامن بقائے باہمی کا ایسا ماحول پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں جہاں تمام انسانوں کو برابر کا درجہ حاصل ہو۔‘

 انہوں نے کہا کہ انسانی وقار کی پاسداری، انسانی حقوق کا تحفظ، آزادی اظہار اور مساوات کو یقینی بنانا ہمارے مذہب اور آئین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔

’موجودہ حکومت انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے ضروری قانونی سازی کو یقینی بنائے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان