’شوہر مارتا ہے شکر کرو گھر سے تو نہیں نکالتا‘

عورت کو زدوکوب کرنے کی باہر تک آتی آوازیں اس سماج کو قبول ہیں مگر تشدد کا شکار بننے والی عورت کا باہر نکل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، انصاف مانگنا قبول نہیں۔

یہ کیسی منافقت ہے کہ تحفظ کا یقین دلا کر گھر میں لائی جانے والی ایک عورت کو زدوکوب کرنے کی باہر تک آتی آوازیں اس سماج کو قبول ہیں۔ (انڈپینڈنٹ اردو)

چادر اور چار دیواری کے نام پر ہمارا معاشرہ اپنی وہ کالک بھی چھپانا چاہتا ہے جس سے خود انسانیت شرما جائے۔ چار دیواری کے اندر عورتوں سے غیرانسانی سلوک کرنے والے بھرے مجمے میں چار دیواری کے تقدس پر درس دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چار دیواری کو ڈھال بنا کر ایک جیتے جاگتے وجود کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا اس معاشرے کی اکثریت کو چار دیواری کے تقدس کی توہین نہیں لگتا۔

چادر اور چار دیواری کی اصطلاح عورتوں کے تحفظ کی بنیاد اور یقین دہانی کے لیے وجود میں آئی۔ مگر تحفظ کس سے؟ تقریبا ہر عورت کو زندگی میں کئی مواقع پر یہ کہا جاتا ہے کہ معاشرہ بڑا بےرحم ہے باہر کی دنیا بڑی ظالم ہے اور عورت کے شوہر کا گھر ہی وہ پناہ گاہ ہے جہاں وہ دنیا کے مظالم اور زمانے کے سرد وگرم سے محفوظ ہے۔ شاید یہ اصول بنانے والے بھول گئے کہ شوہر بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جن میں جبر، ظلم اور زیادتی کرنے کے تمام ہنر موجود ہیں۔ یہ بھول شاید شعوری طور پر سماج کی اس سوچ پر مہر ثبت کرنے کے لیے ہے کہ بیوی شوہر کی ملکیت ہے اور وہ جیسا چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے۔

باہر کی گرم ہوا سے بچنے کی خواہش میں گھر بسانے والی عورت کو یہ سماج گھر کے اندر ہونے والی زیادتی اور ظلم سے بچنے کے لیے کوئی طریقہ بتانے سے کتراتا ہے۔  اسی لیے شادی شدہ عورتوں کو ظلم سے بچاؤ کے بجائے زیادتی سہنے اور چپ رہنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ منافقت کا یہ عمل ہر طبقے ہر سطح کے خاندانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال بڑی تعداد میں عورتیں اپنی ہی پناہ گاہوں میں چولہوں کی آگ میں جھلس کر راکھ ہو جاتی ہیں۔ لاش کے ساتھ ماں باپ کو تقریباً ہر کیس میں بیٹی کے بد کردار ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی وصول کرنا پڑتا ہے۔ دنیا ایسی خبروں پر ذرا دیر کف افسوس مل کر پھر خاموش ہو جاتی ہے۔ ہزاروں عورتیں گھر کے اندر باہر کی دنیا سے ذیادہ بےرحم رویے کا شکار ہیں۔ جہاں ان سے ذہنی اور جسمانی مشقت کرانے والے کبھی راضی نہیں ہوتے اور بیوی کو زدوکوب کرنے کو مردانگی سمجھتے ہیں۔ جب بیویوں کے تھکے جسموں کی ہمت جواب دینے لگتی ہے تو چاچی مامی اور ماں جیسے رشتے ایک بار پھر عورت کو بےگھر ہونے کے ممکنہ نقصانات سے ڈراتے ہیں۔ شوہر مارتا ہے، گالی دیتا ہے، برتن پھینکتا ہے، الزام تراشی کرتا ہے مگر چھت تو دی ہے ناں۔ شکر کرو گھر سے نہیں نکالا۔

عورت کی عزت معاشرے میں تبھی قائم ہے جب تک اس کے سر کا سائیں ساتھ ہو اور دیکھو بچے ہو جائیں یا بچے بڑے ہو جائیں تو عورت کے پاؤں اور حیثیت شوہر کے گھر میں مضبوط ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عورت نئے جذبے سے پھر بےرحمی کی چکی میں پسنے کے لیے راضی ہوجاتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس سماج نے عورت کے لیے چادر اور چاردیواری کے بنائے اصولوں میں آج تک ترمیم نہیں کی۔

یہ کیسی منافقت ہے کہ تحفظ کا یقین دلا کر گھر میں لائی جانے والی ایک عورت کو زدوکوب کرنے کی باہر تک آتی آوازیں اس سماج کو قبول ہیں مگر تشدد کا شکار بننے والی عورت کا باہر نکل کر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا، انصاف مانگنا قبول نہیں۔ باہر کی دنیاکے ظلم سے بچنے کے لیے عورت کو چار دیواری کے تصور میں مقید کرنے والوں کے پاس گھر کے اندر ظلم کا شکار بننے والی عورتوں کے لیے کوئی حل نہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چند دن سے سوشل میڈیا پر فاطمہ سہیل اور محسن عباس کا معاملہ زیر بحث ہے۔ فاطمہ کے چہرے پر تشدد کے نشانات اتنے ہی گہرے ہیں جتنے گہرے ہماری سوچ پر جہالت کے پردے ہیں۔ یہ خواتین پر گھریلو  تشدد کا پہلا واقعہ نہیں مگر افسوس کہ یہ آخری واقعہ بھی نہیں۔ فاطمہ کو سوشل میڈیا پر جہاں یکجہتی کے پیغامات موصول ہو رہے ہیں وہیں بیوی کے صبر اور کردار کے حوالے سے زورو شور سے بحث جاری ہے۔ محسن عباس نے قرآن اٹھا کر اپنی بیوی کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے اپنی بیوی کے کردار پر بھی کئی سوال اٹھائے۔ ٹی وی کا ایک مشہور اور ابھرتا ہوا ستارہ یہ حرکت کرتا ہوا کسی دور پسماندہ علاقے کا جاہل آدمی لگ رہا تھا جو اپنی انا پر لگی چوٹ سے بلبلاتا دوسروں کے کردار پر سوال اٹھانے لگتا ہے۔ جواب میں محسن عباس کی اہلیہ نے بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کر محسن عباس کی لگائے الزامات رد کر دیے۔

سچ جھوٹ کی بحث کو ایک طرف رکھ کر اگر محسن عباس کے لگائے الزامات کو سچ مان لیا جائے تو بھی ان کے پاس بیوی پر تشدد کرنے جیسے گھناؤنے فعل کا کوئی جواز نہیں۔ کسی بھی اختلاف یا ناپسندیدگی پر کسی انسان کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنانا غیرقانونی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے سنجیدہ قانون سازی کی گئی ہے۔ سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں گھریلو تشدد کا قانون موجود ہے مگر خیبر پختونخوا میں ابھی یہ قانون نہیں بنا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 90 فیصد خواتین تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف پنجاب میں ہر سال 10,000 سے زائد خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 4 فیصد خواتین اپنے ساتھ ہونے والے تشدد کو رپورٹ کرتی ہیں اور اس سے بھی کم  قانونی چارہ جوئی کا راستہ اپناتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق تشدد اور ذیادتی میں نفسیاتی دباؤ، ذہنی دباؤ، زبانی گالی گلوچ کے علاوہ معاشی ناانصافی بھی شامل ہے۔

گھر کی بات کو گھر میں ہی رکھنے کے فوائد پاکستان میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کے تربیتی کورس کا لازمی جزو ہے۔ اس سبق میں بغیر کہے یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ آپ گھر میں گالی گلوچ سنیں، مار کھائیں یہاں تک کہ کسی چولہے کے پھٹنے کا شکار ہوجائیں مگر عورت کو گھر بسانے کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے کیونکہ عورت کا اپنا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر گھر باپ، بھائی اور شوہر کی ملکیت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ایک گھر، یعنی چار دیواری اور اس کا تحفظ ایک عورت کے لیے لازمی ہے اس لیےگھر بسائے رکھنے سے گھر بچانےتک کا سارا معاملہ عورت کے سر ہے۔ جھگڑا ہو تو وہ صبر کرے گالی کھائے تو پلٹ کر جواب نہ دے۔ الزام تراشی پر خاموشی کا دامن  پکڑ لے اور خدمت گزاری سے شوہر اور سسرال کا دل جیتنے کی کوشش جاری رکھے۔

شوہر کے تشدد کا شکار ہونے والی سعیدہ (دائیں) 2010 میں اسلام آباد میں ایک غیرسرکاری تنظیم کے زیر اہتمام گھریلو تشدد کی صوفی رقص کے ذریعے مذمت کرتے ہوئے۔ (اے ایف پی)


اس کوشش کا ثمر عام طور پر خواتین کو یا تو اولاد کی صورت کچھ گنجائش کی صورت میں مل جاتا ہے یا پھر زندگی کے آخری حصے میں جب وہ اپنی ذات سے جڑے ہر حق سے دستبردار ہو جاتی ہیں۔ اس معاشرے میں اچھے شوہر کا معیارعام طور پر اس کا باروزگار ہونا اور اپنا گھر ہونا ہے۔ سماجی تربیت اور عمومی سوچ کے مطابق بیوی کو شوہر کی ملکیت بنا کر پیش کیا جاتا ہے اس لیے شوہر اپنی ملکیت سے جیسا چاہے سلوک کرے یہ اس کی مرضی اور منشا کی بات ہے۔ قانون کی موجودگی بھی اس رویے کو بدلنے میں ناکام ہے۔ تشدد کا شکار بننے والی ذیادہ تر خواتین گھر اور شادی بچانے کے چکر میں غیر انسانی سلوک برداشت کرتی ہیں کیونکہ سماجی روایات کے مطابق گھر ٹوٹنے اور شادی نہ چلنے کے لیے صرف عورتوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔

فاطمہ کو انصاف کے نظام سے کیا ملتا ہے یہ تو وقت بتائے گا مگر اس کی آواز اٹھانے کی جرات سے جو بحث چھڑی ہے اس سے لگتا ہے کہ سماج  بیویوں کے لیے بنائے کھوکھلے اور غیرحقیقی اصولوں میں ترمیم کرنے کا سوچے گا۔ اگر میں ذیادہ خوش گمانی کا اظہار کروں تو میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ فاطمہ کے آواز اٹھانے سے شوہر اور بیوی کے درمیان اختلافات کو حل کرنے کے مضحکہ خیز طریقے بھی بدل جائیں گے۔ معاشرے میں جہاں بیوی کو گھر بچانے کے ٹوٹکے سکھائے جاتے ہیں وہیں مردوں کو سکھایا جائے کہ بیوی کو ملکیت سمجھنے کی بجائے برابر انسان کا درجہ دینے کی کوشش کریں تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔ مجھے اس بات کا بھی گمان ہے کہ سوشل میڈیا کے ڈر سے شاید کئی مرد اپنی بیویوں پر تشدد کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ