لوک ورثہ میں ’بدانتظامی‘، اہم منصوبے مشکلات سے دوچار

لوک ورثہ میں جیو گرافیکل انڈیکیٹرز (شناختی خصوصیات) جیسے قومی مفاد کے لیے اہم پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔

2 فروری 2009 کو اسلام آباد کے لوک ورثہ میوزیم میں ایک پاکستانی سیاح بچوں کو تھامے بیٹھا تھا۔ لوک ورثہ ایک خصوصی ادارہ ہے جو فیلڈ ریسرچ، کلیکشن، ثقافتی مطالعات، ثقافتی دستاویزات، سائنسی تحفظ، زبانی روایات، لوک داستانوں، دیسی ثقافتی ورثے اور پاکستان کی روایتی ثقافت کے مطالعے کا مینڈیٹ رکھتا ہے (اے ایف پی/فاروق نعیم)

پاکستانی انتظامیہ میں کئی اہم عہدیدار گذشتہ دنوں اس وقت ششدر رہ گئے جب لوک ورثہ میں ایک اہم پوزیشن پر تعینات ایک خاتون کی تمام دستاویزات بعد میں جعلی نکلیں۔

اس خاتون نے سی وی میں  اپنے اپ کو سابق سول سرونٹ لکھا اور حال میں وزیر اعظم ہاوس ٹیم کے اہم ممبر کے طور پر کام کرنے کا بھی دعوی کرتی رہیں۔

انہوں نے سابق ایڈہاک ایگزیکٹو ڈائریکٹر جنید اخلاق کے ساتھ مل کر لوک ورثہ میں چلنے والے قومی مفاد کے اہم منصوبے بھی بند کرائے یا انہیں تعطل کا شکار کر دیا۔

ان کی حقیقت اس وقت سامنے آئی جب حال ہی میں ایک متاثرہ کنسلٹنٹ نے سیکریٹری اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن سے اس خاتون کی اہلیت و تجربے پر تحریری جواب کی درخواست کی۔ جواب میں واضح کیا گیا کہ نہ تو یہ خاتون پہلے کبھی سول سرونٹ رہی ہیں اور نہ اب ہیں۔

ایسے حالات میں ان کی تعنیاتی کیوں کر ممکن ہوئی اور کوائف کی جانچ پڑتال سرکاری سطح پر کیوں نہیں کی گئی؟ اس سوال کے جواب میں سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر طلحہ کشواہا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس خاتون کی تعنیاتی کے لیے نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر ڈویژن میں ایک اہم عہدیدار کی طرف سے کافی دباو تھا، تاہم ’میں نے کوائف اور اہلیت کی جانچ پڑتال کے لیے لکھا تھا لیکن اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا، یہاں تک کہ ایک اور محکمے سے ایک کنسلٹنٹ نے تصدیق کروائی۔‘

حقیقت معلوم ہونے پر بھی اس خاتون کے خلاف نہ تو لوک ورثہ اور نہ ہی نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر ڈویژن کی طرف سے کوئی کارروائی ہوئی۔

عدالت میں اس کنسلٹنٹ کی طرف سے پٹیشن دائر ہونے کے خوف سے ان کو استعٖفی تو دینا پڑا لیکن نہ تو ان سے کوئی پوچھ گچھ ہوئی اور نہ ان لوگوں سے جس نے ان کی تعنیاتی کے لیے دباو ڈالا تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ اس طرح کا واقعہ ہوا ہو۔ لوک ورثہ میں اس سے پہلے بھی ایک خاتون کو مستقل بنیادوں پر آفیسر کیڈر میں تعنیات کیا گیا تھا جن کی بعد میں دستاویزات جعلی نکلیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس قسم کی بے ضابطگی سے لوک ورثہ میں جیو گرافیکل انڈیکیٹرز (شناختی خصوصیات) جیسے قومی مفاد کے لیے اہم پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہو رہے ہیں۔

جیو گرافیکل اینڈیکیٹرز کے تحٹ سندھی اجرک، پشاوری چپل اور کاٹن سمیت ایک درجن سے زائد مصنوعات کی بک اف سپیسیفیکیشن (خصوصیات کے اندراج کا فہرست جسے دنیا کی تجارت میں تسلیم کیا جاتا ہے) لوک ورثہ کے حوالے کی گئی۔ اس پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

بک اف سپیسیفیکیشن سے ان مصنوعات پر پاکستان کا بلا شریک حق تسلیم کیا جائے گا اور ان کی درآمدات، برانڈنگ وغیرہ میں کسی بھی غیر ملک کا حق تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

کچھ عرصہ پہلے پال سمتھ نامی برطانوی ڈیزائنر نے پشاوری چپل کو اپنے نام سے متعارف کروایا تھا اور ڈان اخبار کے مطابق پھر ایک فرانسیسی ڈیزائنر نے بھی ان کی پیروی کی۔ اطلاعات کے مطابق بغیر کسی بک آف سپیسیفیکیشن کے ان مصنوعات سے کچھ ممالک میں اربوں ڈالر کمائے جاتے ہیں جن کا فائدہ پاکستان کی بجائے ان ممالک کو ہوتا ہے۔

کمزور معیشت والے ملک پاکستان کے لیے بک اف سپیسیفیکیشن میں تاخیر مواقع گنوانے سے کم نہیں۔

بک آف سپیسیفیکیشن کے حوالے سے جب لوک ورثہ کی ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ زوبیہ سلطانہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے ایڈہاک ایگزیکٹو ڈائریکٹر شہزاد درانی سے رابطے کا مشورہ دیا۔ جب سرکاری موقف جاننے کے لیے شہزاد درانی سے پوچھا گیا، تو انہوں نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ ’مجھے سٹیٹس کا نہیں پتہ۔‘ 

بک آف سپیسیفیکیشن کے حوالے سے وزارت صنعت و تجارت کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام پوشیدہ رکھنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے 13 مہینوں میں لوک ورثہ کو کئی بار یاد دہانی کرائی گئی۔ لیکن ابھی تک کوئی خاص پیش رفت ممکن نہ ہو سکی۔ ’جس کنسلٹنٹ سے ہم رابطے میں تھے ان کو بغیر کسی وجہ سے ہٹایا گیا۔‘

اس سے پہلے لوک ورثہ نے بغیر کسی وجہ بتائے اہم پراجیکٹس ختم کیے جن میں کلچرل ایشوز اور ہائبرڈ وار کے نقطہ نظر سے ایک اہم میگزین کو آغاز سے پہلے بند کرنا بھی شامل ہے، یونیسکو کے اشتراک سے شروع ہونے والا ایک منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، جبکہ ایکوبیشن سینٹر، میوزیم آف کلینری ہیریٹیج اور نیشنل ڈیزائن ایمپوریم وغیرہ سرد خانے میں پڑے ہوئے ہیں۔

ایک سرکاری عہدیدار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ لوک ورثہ کا یہ رویہ پچھلے کچھ سالوں سے جاری ہے اور عملا بس سال میں ایک میلہ منعقد کرنے میں ہی اپنے فرائض کی بجا آوری سمجھتا ہے۔ ’یا یہ وہ ٹاسک انجام دے دیتا ہے، تاخیر سے ہی سہی، جس کے لیے اس پر کافی دباو بڑھایا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لوک ورثہ کے سینیئر عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ادارے کا المیہ یہ ہے کہ ایک تو ریگولر ای ڈی کبھی کبھار ہی تعینات کئے جاتے ہیں اور وہ بھی دو یا تین سال کے لیے۔

’اس وقت بھی ایڈہاک ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کام کر رہے ہیں جبکہ ریگولر ای ڈی کے جاتے ہوئے کافی عرصہ ہوا ہے، اس سے پہلے  نیا ای ڈی، فوزیہ سعید کے جانے کے تین سال بعد آئے، خود محترمہ کی تعنیاتی بھی عکسی مفتی کے کافی عرصہ بعد ہوئی۔ ریگولر ای ڈی کے نہ ہوتے ہوئے بورڈ آف گورنر نامکمل رہتا ہے، اور کچھ اختیارات بھی تعطل کے شکار ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ لوک ورثہ میں معاملات شفاف طریقے سے نہیں چل رہے اور ’بدانتظامی‘ عروج پر ہے۔

لوک ورثہ کے رولزکے مطابق ایڈہاک ای ڈی پچھلے ریگولر ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے فیصلوں کو کالعدم نہیں کرسکتا اور ایسا کرنے کے لیے اگلے ریگولر ای ڈی کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔

ہیریٹیج ڈویژن کے ایک عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’لیکن شہزاد درانی سے پہلے آنے والے ایک ایڈ ہاک ای ڈی نے تمام کنسلٹنٹس ہٹا دیئے ، اور ریگولر ای ڈی سے پہلے مزید کنسلٹنٹس تعنیات نہیں کیے جا سکتے، جس سے لوک ورثہ اپاہج ہو کے رہ گیا ہے۔‘

نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر کے انتظامی امور کے نگران اعلی سینیئر جوائنٹ سیکرٹری عبدالستار کھوکھر نے انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جعلی دستاویزات کی بنیاد پر تعینیاتی سے متعلق انکوائری کے انتظامات ہو رہے ہیں اور وہ پراجیکٹس جن کو نقصا ن پہنچایا گیا ان کی بھی انکوائری ہوگی۔

پراجیکٹس میں تاخیر پر بات کرتے ہوئے جوائنٹ سیکریٹری شہزاد درانی نے کہا کہ کچھ پراجییکٹس کو لائن اپ کیا جارہا ہے، لیکن کچھ پراجیکٹس جیسا کہ میگزین کی صورت حال مشکل اس لیے ہے کہ وہ کنسلٹنٹس جو اس پر کام کر رہے تھے، اب یہاں نہیں رہے اور ان کے پاس نہ ان منصوبوں کی تفصیلات ہے اور نہ مہارت۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین