الف کی پیدائش فرانس کے ایک قصبے میں ہوئی، جس زمانے میں وہ جوان ہوا وہ جنگ کا دور تھا، فرانس اور جرمنی کے درمیان جنگ جاری تھی۔
الف نے سوچا کہ اسے بھی جنگ میں حصہ لینا چاہیے سو وہ بھی جنگ میں کود گیا، لیکن پھر کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 42 سال کی عمر میں وہ پاگل ہو گیا، اسے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کروا دیا گیا، مگر وہ ٹھیک نہ ہو سکا اور اسی ہسپتال میں الف کا انتقال ہو گیا۔
ب کی پیدایش روس میں ہوئی، یہ انقلاب روس سے پہلے کا زمانہ تھا۔ ب کی والدہ کا انتقال اس وقت ہوگیا جب وہ صرف نو سال کا تھا۔
19 سال کی عمر میں اس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ب کا ارادہ تو قانون کی ڈگری حاصل کرنے کا تھا، مگر ناکامی نے قدم چومے اور وہ ڈگری حاصل نہ کرسکا۔
بعد ازاں موصوف کو جوئے کی لت پڑ گئی جس سے اس کی حالت تباہ ہوگئی۔ بالآخر اس نے وہی کیا جو ایسے حالات میں کیا جاتا ہے، یعنی شادی۔ شومئی قسمت کہ شادی بھی ناکام ہوگئی۔
گو کہ اس شادی کے نتیجے میں اس نے 13 بچے پیدا کیے مگر اسے سچا پیار نہیں ملا۔ میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوگئے اور پھر ایک دن ب کی بیوی کے اسی کے ایک شاگرد سے تعلقات استوار ہوئے اور وہ اس کے ساتھ فرار ہو گئی۔
ج کی کہانی بھی ناکامی اور ناامیدی سے عبارت ہے۔ ج چیکو سلواکیہ میں پیدا ہوا، سکول میں اچھا تھا مگر اس کی اپنے باپ سے نہیں بنتی تھی، قانون کی ڈگری تو حاصل کر لی مگر وکالت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس کے بعد ایک بیمہ کمپنی میں ملازمت کر لی لیکن وہاں کے اوقات کار بھی اسے راس نہیں آئے۔ کام کلرک کا تھا جس میں اس کا دل ہی نہیں لگتا تھا۔ گو اس میں خود اعتمادی کی کمی تھی مگر معاشقے لڑانے میں خوب تھا۔
وہ تمام عمر مختلف بیماریوں کا شکار رہا۔ سر درد، بے خوابی، سانس لینے میں دشواری، قبض، خارش اور نہ جانے کیا کیا۔ کچھ بیماریاں تو اسے حقیقت میں لاحق تھیں اور کچھ اس کا وہم تھا۔
ج کو 40 سال کی عمر میں ٹی بی ہو گئی، اسے سینی ٹوریم لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا۔ آخری دنوں میں وہ خوراک لینے کے قابل نہیں رہا تھا جس کی وجہ سے وہ بھوک کا شکار ہوکر مر گیا۔
الف، ب اور ج کوئی فرضی کردار نہیں، یہ سچ مچ کے لوگ تھے۔ بظاہر ان کی زندگیوں کی ادھوری کہانیاں پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ بالکل ناکارہ قسم کے افراد تھے جنہیں زندگی میں کوئی اچھا ترغیبی مقرر (موٹیویشنل سپیکر) نہیں مل سکا جو ان کی رہنمائی کرتا اور انہیں بتاتا کہ دنیا میں کامیابی کیسے حاصل کی جاتی ہے، جوئے کی لت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے، خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز کیا ہے، بیماریوں کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے، ناامیدی کو شکست کس طرح دی جاتی ہے اور ایک مسرور زندگی کیسے بسر کی جاتی ہے۔
افسوس کہ یہ تینوں شخصیات موٹیویشنل سپیکرز کے یوٹیوب لیکچرز دیکھنے سے بھی محروم رہے جو آج کل لاکھوں لوگوں کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلی لانے کا باعث بنتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ میں الف، ب اور ج کو مزید لتاڑوں اور انہیں ناکامی کےعالمی اعزاز کا حقدار قرار دوں، بہتر ہے کہ پہلےمیں ان ’ناکام‘ شخصیات کا تعارف کروا دوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الف مشہور فرانسیسی افسانہ نگار موپساں ہیں، ب روسی ناول نگار ٹالسٹائی ہیں اور ج شہرہ آفاق لکھاری کافکا ہیں۔
کیا یہ تینوں ادیب واقعی اپنی زندگیوں میں ناکام تھے اور انہیں کسی موٹیویشنل سپیکر کی ضرورت تھی؟
ظاہر ہے کہ اس سوال کا جواب آپ کو معلوم ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کی تحریروں نے پورے عالم میں تہلکہ مچایا اور آج بھی انہیں عالمی ادب کا سپر سٹار کہا جاتا ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ اگر یہ تینوں ادیب واقعی کسی موٹیویشنل سپیکر کے ہتھے چڑھ جاتے تو کیا ہوتا؟ کیا اس صورت میں بھی ان کی تخلیقی صلاحیتیں برقرار رہتیں؟ کیا تب بھی یہ اتنے ہی کامیاب لکھاری بن پاتے؟
اس سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑتا ہوں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میں خواہ مخواہ موٹیویشنل سپیکرز پر تنقید کرتا رہتا ہوں، آخر یہ لوگ معاشرے میں مثبت تبدیلی ہی تو لا رہے ہیں، یہ نوجوانوں میں شعور اجاگر کرتے ہیں، انہیں با ہمت اور پر اعتماد بناتے ہیں، انہیں حوصلہ دیتے ہیں اور یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ بھی ان لوگوں کی طرح کامیاب ہوسکتے ہیں، جن کی کہانیاں اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتی ہیں۔
کیا کسی کو محنت کرنے کی تلقین کرنا یا انہیں کامیابی کے گُر سکھانا غلط بات ہے؟ بالکل غلط بات نہیں، میں موٹیویشنل سپیکرز کے بیشتر افکار سے تو شاید متفق ہو سکتا ہوں مگر کامیابی کے اس سانچے سے متفق نہیں ہوسکتا جو کم و بیش ہر موٹیویشنل سپیکر نے بنا رکھا ہے۔
ڈیزائن میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ سانچہ ایک ہی قسم کا ہے، جس میں موٹیویشنل سپیکرز ہر بندے کو فِٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اوسط درجے کا انسان تو بنے بنائے سانچے میں پورا آسکتا ہے تاہم موپساں، ٹالسٹائی اور کافکا جیسے لوگ کسی سانچے میں ڈھال کر نہیں بنائے جا سکتے۔ بس اتنی سی بات ہے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔