ایک + آٹھ کلبھوشن جادھو؟

اسرائیل اور اس کا اتحادی بھارت اپنے باہمی مفادات اور مشترکہ اہداف کے لیے منصوبے بنانے اور سکیمیں لڑانے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں انڈین سفارت خانہ قطری حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور ’زیر حراست انڈین شہریوں کی جلد رہائی اور واپسی کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کر رہا ہے (فائل فوٹو اے ایف پی)‘

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

دنیا بدل رہی ہے، حکومتیں بدل رہی ہیں، طاقت کے عالمی مراکز میں تبدیلی آ رہی ہے۔ مگر جو چیز نہیں بدل رہی وہ مشرق وسطیٰ میں عالمی طاقتوں کے چہیتے اسرائیل اور برصغیر میں چہیتے بھارت کے طور طریقے ہیں۔

تازہ مثال قطر سے سامنے آئی ہے۔ جس طرح مارچ 2016 میں پاکستان میں بھارتی نیوی کا ایک حاضر سروس افسر کلبھوشن جادھو جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں پکڑا گیا تھا۔ اب قطر میں انڈین نیوی کے پورے آٹھ سابق افسران جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہو گئے ہیں، جن میں سے ایک سابق نیول کمانڈر پرنندو تیواری بھی شامل ہے۔

سابق نیول کمانڈر تیواری بھارت کا واقعی قیمتی اثاثہ ہیں کہ اسے 2019 میں بھارت سرکار ’پرواسی بھارتیہ سمان ایوارڈ‘ دے چکی ہے۔ یقیناً یہ تیواری کی بیرون ملک رہتے ہوئے خدمات کا اعتراف ہے۔ بھارتی افواج میں سے تیواری واحد افسر ہیں جنہیں یہ اعلیٰ ترین ایوارڈ ملا۔

عالمی طاقتوں کے دو چہیتوں میں ایک مماثلت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ قطر میں مبینہ طور پر جاسوسی کے اس بڑے اور خوفناک واقعے کے بعد بھی بھارت اور اسرائیل دونوں نے حتی المقدور خاموشی اختیار کیے رکھی ہے۔ بھارت کو اسی مہینے کے پہلے ہفتے میں مجبوراً لب کشائی کرنا پڑی کہ سوشل میڈیا کے راستے سے خبر لیک ہو گئی۔ لیکن اسرائیل ابھی تک ہونٹ سی کر بیٹھا ہوا ہے۔

مشرق وسطیٰ کے حوالے سے بلاشبہ اسرائیل کے ایجنڈے کی کئی پرتیں ہیں۔ اس لیے کسی ایک کامیابی یا پیش رفت کا قطعاً مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ اسرائیل اپنے ایجنڈے کے بقیہ نکات اور اہداف کے حوالے سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے۔ اس کا اپنی اصلی اور ازلی ’جبلت‘ سے دور ہو جانا غیر ممکن ہے۔

ہاں ذرا حکمت عملی تبدیل ہو سکتی ہے۔ طریقہ واردات بدلا جا سکتا ہے۔ وقتی توقف برتا جا سکتا ہے۔ مگر اہداف نہیں۔ ایجنڈا بھارتی پرنالے کی طرح وہیں کا وہیں رہے گا۔

یہی قطر میں بذریعہ بھارت مبینہ جاسوسی میں نظر آتا ہے۔ اپنے جاسوسوں اور دہشت گردوں کو عرب ممالک میں بھیجنے اور انہیں بروئے کار رکھنے کا کام اسرائیل ایک زمانے سے کرتا آ رہا ہے۔ اب بھی جاری رکھنا اس کی مجبوری ہو گی۔

تاہم طریقہ ماضی سے مختلف اختیار کرنا لازمی ہو گا۔ قطر میں 30 اگست 2022 کو مبینہ طور پر جاسوسی کے الزام میں بھارت کے آٹھ سابق نیوی افسران اسرائیل کے لیے خدمات انجام دینے کے الزام میں غالباً اسی وجہ سے پکڑے گئے۔

گویا عربوں کے ساتھ ’نارملائزیشن‘ کا اسرائیلی تعلق اتنا بھی نارمل نہیں ہوا ہے کہ عرب دنیا یا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے عزائم، اہداف، ایجنڈے، سازشوں اور وارداتوں کو چھوڑ دے۔ اسی لیے اسے اپنے دیرینہ اور قابل بھروسہ دوست بھارت کے چنیدہ افسروں کی خدمات کا مبینہ طور پر سہارا لینا پڑا ہے۔

دونوں کا یہ تعلق بہت پرانا ہے۔

بھارت میں مودی کے کٹر حامیوں کے میٹھے بولوں کا جادو ان لوگوں اور قوموں پر جلدی اثر کر جاتا ہے جو بھارت کے اندر کے کلچر کا براہ راست تجربہ، مشاہدہ یا مطالعہ نہیں رکھتے۔

مسکینی لہجے میں بات کرنے والے یہ بھارتی عام طور پر بیرونی دنیا میں بےضرر سے محسوس ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے جہاں چاہیں واردات ڈال سکتے ہیں۔ بھارت نے اپنے آٹھ سابق نیوی افسران کی بےگناہی کا راگ دیر سے سہی اب الاپنا شروع کر دیا ہے۔

اس کی طرف سے سامنے آنے والی آوازوں میں کہا جا رہا ہے کہ یہ آٹھوں نیوی افسران ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے جو قطر کی بحریہ کے لیے تکنیکی شعبے میں خدمات انجام دے رہی تھی۔ اہم بات ہے کہ یہ کمپنی ’ظاہرہ گلوبل‘ اور اس کی ویب سائٹ بھی اب خاموش پڑی ہے۔

بھارت نے بھی اس پر اب تک بات دھیمے سے انداز میں ہی کی ہے۔ بھارت کی اپنے سابق نیوی افسروں کے حق میں گواہی بلا تامل قبول ہونا اس وجہ سے بھی مشکل ہو سکتا ہے کہ اسی بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو پاکستان میں جاسوسی ہی نہیں دہشت گردی میں ملوث ہونے کی بنیاد پر گرفتار ہو چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہی کلبھوشن جادھو حسین مبارک پٹیل کے نام سے بنوائے ہوئے ایک جعلی پاسپورٹ پر بیرون ملک سفر بھی کرتا رہا ہے۔ اس صورت حال میں بھارتی گواہی اس کی نیوی کے سابق افسران کے حق میں کیوں کر معتبر ہو سکتی ہے؟

ممکن ہے کہ بھارتی موقف کے مطابق یہی بات درست ہو کہ قطری بحریہ کے ساتھ کام کرنے والی کمپنی ظاہرہ گلوبل کے بھارتی عہدے دار بھارت کے لیے جاسوسی نہ کر رہے ہوں۔ مگر ریٹائرڈ فوجی افسران اگر اسرائیل جیسے کسی ملک کے لیے کام کرتے ہوئے بغلی چھری چلانے میں بروئے کار ہوں تو کوئی ملک یہ کیوں کر نظرانداز کر سکتا ہے؟

یہ صورت حال تو قطر ہی نہیں اڑوس پڑوس کے دوسرے ملکوں کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ خصوصاً ایسے ماحول میں جب اسرائیل نے اس کی تردید تو درکنار اس پر ابھی تک لب کشائی بھی نہیں کی ہے۔

اسرائیل کا خلیجی ممالک کے حوالے سے ماضی کا کردار اس ناطے اور بھی مشکوک رہا ہے۔ جنوری 2010 دبئی میں اسی اسرائیل کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے اہل کاروں نے ہوٹل کے کمرے میں ایک فلسطینی مزاحمتی رہنما کو قتل کیا تھا۔

فلسطینی محمود عبد الرؤف المبحوح کو اسرائیلی موساد نے اس وقت دبئی کے ہوٹل میں ان کے کمرے کے اندر گھس کر قتل کیا، جب ابھی اسرائیلی باشندوں کی عرب دنیا میں آمد و رفت آسان نہ تھی۔ حالیہ ایک دو برسوں میں شروع ہونے والی ’نارملائزیشن‘ کم از کم ایک دہائی سے بھی زیادہ دور تھی۔

موساد نے اپنے جاسوسوں اور دہشت گردوں کے لیے برطانیہ وغیرہ کے پاسپورٹ استعمال کیے تھے۔ بھلے زمانے تھے جب دبئی پولیس نے اسرائیلی موساد کی اس دہشت گردانہ کارروائی کا خوب تعاقب کیا تھا۔ بالآخر دبئی پولیس کے اسی تفتیشی نتیجہ کو برطانیہ سے بطور خاص آنے والی ٹیم نے بھی درست تسلیم کیا تھا۔

یوں برطانیہ کو اپنے ہاں سے ایک اسرائیلی سفارت کار کو برطانوی پاسپورٹوں کے اس طرح استعمال پر برطانیہ سے واپس جانے کا کہنا پڑا تھا۔ یہ سارا معاملہ جنوری 2010 سے مارچ 2010 کے درمیان کا ہے۔ اُس وقت بن یامین نتن یاہو اسرائیلی وزیر اعظم تھے۔

لہٰذا فلسطینیوں کے تعاقب کے نام پر ہی سہی اسرائیلی موساد نے عرب دنیا میں اپنا جال اچھی طرح بچھا رکھا تھا۔ اب اسرائیل کو پہلی بار یہ موقع مل رہا ہے کہ وہ تاجروں، صحافیوں، فنکاروں، انجینیئروں اور ڈاکٹروں کی صورت میں کھلے عام اپنے کارندے بھیج سکتا ہے، تاکہ موساد کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے اور یہاں اپنی جڑیں گہری کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی جڑیں کھودنے کا کام جاری رکھ سکے۔

اسرائیل کی اسی مہارت کا ایک حالیہ ثبوت ایران ایسی ریاست سے بھی سامنے آیا ہے۔ ایران جہاں سپاہ پاسدران انقلاب کی کڑی نگرانیوں کے ماحول میں بقول شخصے خود ایرانی بھی آسانی سے سانس نہیں لے سکتے۔

ایک یہودی خاتون کیتھرین پیرے شکدام تجزیہ کار اور لکھاری کے طور پر ایران کے اندر اتنی گھس گئیں کہ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کی ذاتی ویب سائٹ پر باقاعدگی سے لکھنے لگی۔

کیتھرین شکدام کی رسائی ایرانی سپریم لیڈر کے دفتر کے اندر تک، ان کی ٹیم کے ارکان اور اعتماد کے لوگوں کی طرح ہو گئی تھی۔ کیتھرین نے نہ صرف علی خامنہ ای کے دفتر اور سکیورٹی کے سارے حصار کو تاراج کیا بلکہ موجودہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی صدارتی انتخابی مہم میں ان کے بھی قریب چلی گئیں۔ ان کے انٹرویو کیے اور اپنی دسترس کی سند پائی۔

آج کل یہی کیتھرین شکدام ایران میں اپنی ان ساری کامیابیوں کے مزے لے کر قصے سناتی ہیں۔ وہ اب لندن میں قائم تھنک ٹینک ’ہنری جیکسن سوسائٹی‘ کا حصہ بن چکی ہے۔ ان کے بقول ان کی کامیابی کی ایک وجہ ایرانیوں کو غیر ملکیوں کے منہ سے اپنے حق میں تعریف سننے کا ’کمپلیکس‘ تھا۔

بدقسمتی سے یہ عارضہ مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں میں بھی موجود ہے۔

عرب ممالک میں پھیلے اسی طرح کے اسرائیلی کارندوں نے پولٹ بیورو حماس کے سابق سربراہ خالد مشعل کے کان کے ذریعے اردن میں ان کے جسم میں خوفناک زہر منتقل کر کے انہیں میں 1997 میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا کر دیا تھا۔ جس کے بعد انہیں کئی ہفتے اردن کے فوجی ہسپتال میں زیر علاج رہنا پڑا تھا۔

بعد ازاں امریکی صدر بل کلنٹن کے توسط سے اسرائیل نے اپنی اس واردات کا خاموش اعتراف کر لیا تھا۔ فلسطینی رہنماؤں کو ٹیلی فونز میں بظاہر انتہائی چھوٹے مگر کارگر بم نصب کر کے قتل کرنے کی وارداتیں بھی اسی اسرائیل کا خاصہ رہی ہیں۔

بلاشبہ اسرائیل عرب دنیا ہی نہیں مشرق وسطیٰ کے ہر ملک سے سائنس اور ٹیکنالوجی میں آگے ہے۔ وہ اپنی اسی ٹیکنالوجی کے رستے پہلے دلوں میں اترنے کی کوشش میں رہتا ہے اور پھر ایک زہر کی طرح خون کی نالیوں تک سرایت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

بھارت بھی آئی ٹی کی ترقی کے حوالے سے دنیا میں کافی آگے ہے۔ اس کے ’لہجے کی مٹھاس‘ اور بالی وڈ کے ’لباس‘ یہ دونوں مل کر جہاں بھی چاہیں گے خوفناک وارداتوں کا امکان پیدا کر لیں گے۔ ابھی ایک تازہ مثال قطر میں سامنے آئی ہے۔ اگرچہ اسرائیل کی اس میدان میں تاریخ لمبی ہے۔

اسرائیل اور اس کا اتحادی بھارت یہ حق رکھتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ اپنے باہمی مفادات اور مشترکہ اہداف کے لیے منصوبے بنائیں اور سکیمیں لڑائیں۔ خصوصاً جب ایک طرف نتن یاہو وزیر اعظم ہوں گے اور دوسری جانب مودی سرکار موجود ہے۔

یہی نتن یاہو ہیں جس کے دور میں 1997 میں خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے اردن میں واردات کی گئی تھی۔ اسی کے دور میں جنوری 2010 میں دبئی میں فلسطینی رہنما کو قتل کیا گیا تھا۔

اب اسی نتن یاہو کی حکومت دوبارہ آ رہی ہے۔ اب اسے مشرق وسطیٰ میں کافی ہموار میدان دستیاب ہے۔ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو مشترکہ حکمت عملی ہی شر انگیزیوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر