یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

حد سے زیادہ سوچ سوچ کر میں اس دنیا کے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہوں لہٰذا اب ذاتی طور پر مجھے کسی بات کی پروا نہیں رہی۔

سات میٹر قطر کا گلوب آرٹ ورک، 11 مئی 2022 کو میلبورن میں معلق (اے ایف پی)

ایک سیانے آدمی نے کسی دیہاتی سے کہا، ’کیا میں تمہیں ایسی تین باتیں نہ بتاؤں جن پر عمل کرنے سے تم اپنی زندگی میں ہمیشہ کے لیے خوش رہ سکو گے؟ ‘

دیہاتی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر جواب دیا، ’نہیں!‘
آج کل میری کیفیت ایسی ہی ہے، جو شخص بھی مجھے عقل کی کوئی بات بتانے کی کوشش کرتا ہے، میں اسے منع کر دیتا ہوں، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ حد سے زیادہ سوچ سوچ کر میں اس دنیا کے مستقبل سے مایوس ہو چکا ہوں لہٰذا اب ذاتی طور پر مجھے کسی بات کی پروا نہیں رہی۔

ممکن ہے آپ کو یہ بات عجیب لگے اور ہو سکتا ہے کہ آپ مجھے قنوطی سمجھیں لیکن سچ یہ ہے کہ جب سے دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہوئی ہے، میری پریشانی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ میں یہ سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ جب یہ آٹھ ارب انسان اس زمین پر کھائیں گے، پییں گے، کپڑے پہنیں گے، گاڑیوں اور جہازوں میں سفر کریں گے تو کرہ ارض کا کیا حال ہو گا۔ اس بات کا اندازہ یوں لگائیں کہ 1950 میں دنیا کی آبادی آج سے تین گنا کم تھی، آج یہ آٹھ ارب ہے اور 2050 میں یہ تقریباً دس ارب ہو جائے گی۔

آبادی کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی نے بھی مجھے خاصا پریشان کر رکھا ہے، جس تیز رفتاری سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، جس طرح درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور جیسے ہر گزرتے دن کے ساتھ موسموں میں شدت آتی جا رہی ہے، اسے دیکھ کر کوئی دودھ پیتا بچہ بھی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ آئندہ بیس تیس برسوں میں زمین کی حالت کیا ہو گی۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان جیسے غریب ملک میں ہو رہا ہے، موسمیاتی آلودگی کا سامنا دنیا کے تمام ممالک کر رہے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان میں اس کا اثر شدت کے ساتھ ہو رہا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک اپنے محل وقوع کی وجہ سے فی الوقت بچے ہوئے ہیں، مگر ان کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں، اگر آئندہ چند برسوں میں ان ممالک نے زمین کا درجہ حرارت قابو میں نہ رکھا تو پھر موسمیاتی آلودگی کا جن بالکل ہی بے قابو ہو جائے گا۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میں نے کچھ زیادہ ہی نحوست بھری باتیں لکھ دی ہیں، لیکن مصیبت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں ہے جو اس سے پہلے مجھ سے زیادہ کسی سیانے نے نہ کی ہو۔ گذشتہ چند برسوں میں ہماری آنکھوں کے سامنے خوفناک ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوئیں جنہوں نے ہماری زندگیوں کو براہ راست متاثر کیا، لہٰذا یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں کہ آئندہ چند برسوں میں صورت حال بد تر ہو جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کے حالات تو اور بھی زیادہ تشویش ناک ہیں، یہاں آبادی بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے اور موسمیاتی آلودگی کا نقصان بھی سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ مگر ہم نے ان باتوں کی کبھی پروا نہیں کی (ہمارے نزدیک ہر تین سال بعد ہونے والی ایک تقرری ان باتوں سے زیادہ ا ہم ہے) اور چونکہ ہم نے پروا نہیں کی لہٰذا دنیا کو کیا ضرورت تھی کہ ہماری مدد کو آتی۔

تاہم اس مرتبہ جب سیلاب نے خوفناک تباہی مچائی تو پاکستان کو اندازہ ہوا کہ ماحولیاتی آلودگی حقیقت میں ایک خطرہ ہے۔ پھر ہم نے بہت شور مچایا، ہاؤ ہو کی، کانفرنس بلائی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کروایا، تب کہیں جا کر دنیا کے سر پر جوں رینگی اور یوں سمجھیں کہ بس جوں ہی رینگی، کچھ ملکوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات کر چند سو ملین ڈالر کی امداد ہماری جھولی میں یوں ڈال دی جیسے ٹریفک کے اشارے پر کھڑی ہوئی کار کا مالک گداگروں سے جان چھڑانے کے لیے انہیں سو پچاس دے دیتا ہے۔

سچ پوچھیں تو یہ باتیں لکھتے ہوئے مجھے بے حد تکلیف ہو رہی ہے، اپنے ملک کے بارے میں کون ایسی باتیں کرنا چاہتا ہے، مگر ہم نے اپنی حالت ہی ایسی کر لی ہے کہ دوست ممالک بھی ہم سے کنی کترانے لگے ہیں۔ سنا ہے کہ ہم نے قطر میں ہونے والے فٹ بال ورلڈ کپ کے لیے سکیورٹی فورس بھیجی ہے مگر اس کے پیسے نہیں لیے اور انہیں یہ اشارہ دیا ہے کہ آپ سے کیا پیسے لینے، آپ تو ہمارے بھائی ہیں، البتہ بادشاہ سلامت جو خوشی سے دیں گے، ہم رکھ لیں گے۔ واللہ اعلم کہ اس بات میں کتنی سچائی ہے۔
دنیا میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور آبادی میں میرا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے باوجود نہ جانے کیوں میں ان دونوں مسائل کے بارے میں کچھ زیادہ ہی فکر مند رہتا ہوں، حالانکہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس موضوع پر لکھنے کے سوا میں اور کچھ نہیں کر سکتا، سو وہی کر رہا ہوں، لیکن لوگوں کا حال بالکل اس بدو جیسا ہے جو اپنے فائدے کی بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ان حالات میں کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ جن لوگوں کو ماحولیاتی آلودگی اور آبادی جیسے گمبھیر مسائل کا ادراک نہیں، وہ ان لوگوں کی نسبت اپنی زندگیوں میں زیادہ chill (مستی) کر رہے ہیں جواس قسم کے مسائل کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان رہتے ہیں۔

بقول میر تقی میر:

وہ وہم میں نہ گزرا کبھی اہلِ ہوش کے
دنیا سے لطفِ زیست جو دیوانہ لے گیا

میر کے اتباع میں اب میں نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس دنیا سے فقط لطفِ زیست لیا جائے اور یہ لطف صرف دیوانگی میں ہی ممکن ہے اور دیوانے کو چونکہ فائدے اور نقصان سے کوئی غرض نہیں ہوتا اس لیے اس دیہاتی کی طرح اب مجھے بھی اپنی زندگی بہتر بنانے کے لیے کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ، جو سب کے ساتھ ہو گا وہی ہمارے ساتھ بھی ہو جائے گا، فکر کس بات کی!

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر