دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہو گئی: رپورٹ

آبادی میں اضافہ اور آب و ہوا میں تبدیلی کیسے ایک دوسرے سے منسلک ہیں اور ’انتھروپوسین انجن‘ کیسے سیارے کو تبدیل کرتا ہے؟ جانیے اس رپورٹ میں۔

21 اکتوبر، 2022 کی اس تصویر میں دیوالی سے قبل انڈیا کے شہر ممبئی میں گہما گہمی نظر آ رہی ہے (اے ایف پی)

دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق پہلی نظر میں بجا لگتا ہے۔ اس سیارے پر جتنے زیادہ لوگ ہوں گے، آب و ہوا پر ان کا اجتماعی اثر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

تاہم بغور جائزہ لینے سے آبادی کے سائز اور آب و ہوا کی تبدیلی کے درمیان تعلقات کا پتہ چلتا ہے جس سے ہمیں انسانیت کی دونوں صورت حال کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کو توقع ہے کہ عالمی آبادی 15 نومبر، 2022 کو آٹھ ارب کا سنگ میل عبور کر لے گی۔

پتھر کے زمانے پر ایک نظر

انسانی ارتقا کے دوران ہمارے آباؤ اجداد کو زیادہ تر برفانی دور اور وقفے وقفے سے گرم ادوار کے درمیان بڑے موسمی اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

ان میں سے آخری برفانی دور تقریباً 10 ہزار سال پہلے ختم ہوا تھا۔

برف پگھلنے سے قبل سطح سمندر آج کے مقابلے میں تقریباً 400 فٹ (120 میٹر) نیچے تھی۔ اس کی وجہ سے انسان دنیا بھر میں ہجرت کر سکتے تھے۔

ہمارے آباؤ اجداد جہاں بھی گئے، وہیں انہوں نے پہلے جنگلات کو صاف کرکے اور پھر زراعت کے ابتدائی طریقوں کے ذریعے زمین کو تبدیل کیا۔

پیلیوکلائمیٹولوجسٹ ولیم روڈیمین کہتے ہیں کہ ان ابتدائی اقدامات، درختوں کو کاٹنے اور کاشت کاری کو بڑھانے، کی وجہ سے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ میں ایک چھوٹا سا ابتدائی اضافہ ہوا۔

اس نے گذشتہ 10 ہزار برسوں کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کم ہوتی سطح کا مقابلہ کرکے ایک متوازن آب ہوا میں حصہ ڈالا۔ شاید اسی وجہ سے برفانی دور کا ایک اور واقعہ رونما ہوا۔

زمین پر تبدیلیاں کر کے ہمارے آباؤ اجداد نے مستعدی سے آبادیاں بنائیں۔ یہ عمل ارتقائی تبدیلی کا ایک اہم پہلو ہے، جو ارتقا پذیر انواع اور ان کے ماحول کے مابین اہم تاثرات کی ڈائنامکس پیدا کرتا ہے۔

جیسے جیسے انسانوں نے ترقی کی، بڑھتی ہوئی آبادی، علم کی تخلیق اور توانائی کے استعمال کی ضروریات نے ایک فیڈ بیک سائیکل کو جنم دیا جسے میں اور میرے ساتھی انتھروپوسین انجن کہتے ہیں۔ اس انجن نے سیارے کو بدل کر رکھ دیا۔

اینتھروپوسین انجن کی دوبارہ بحالی

یہ اینتھروپوسین انجن کم از کم آٹھ ہزار سال سے چل رہا ہے۔ یہ جدید تہذیبوں اور بالآخر آب و ہوا کی تبدیلی سمیت ان ماحولیاتی مسائل کا باعث بنا جن کا آج ہمیں سامنا ہے۔

اینتھروپوسین انجن کیسے کام کرتا ہے؟

سب سے پہلے آبادیوں کو لوگوں کی ایک خاص تعداد تک پہنچنا تھا تاکہ وہ اپنے ماحول کے بارے میں کامیابی کے ساتھ اتنا علم پیدا کریں کہ وہ فعال اور بامقصد طور پر اپنے رہنے کی جگہوں کو تبدیل کر سکیں۔

کامیاب زراعت اسی علم کی پیداوار تھی۔ اس کے نتیجے میں زراعت نے ان ابتدائی معاشروں کے لیے دستیاب توانائی کی مقدار میں اضافہ کیا۔

زیادہ توانائی زیادہ لوگوں کی مدد کرتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ ابتدائی بستیوں اور بعد میں شہروں کی طرف گئے۔

اس سے کام کی مہارت اور محنت کی تقسیم ہوئی، جس کے نتیجے میں مزید علم کی تخلیق میں تیزی آئی، جس سے دستیاب توانائی اور آبادی میں بھی اضافہ ہوا۔ اور پھر سلسلہ آگے بڑھتا چلا گیا۔

اگرچہ اس عمل کی تفصیلات دنیا بھر میں مختلف ہیں لیکن وہ سب ایک ہی انتھروپوسین انجن کے ذریعے کارفرما ہیں۔

غیر معمولی نمو کا مسئلہ

ایک ارتقائی ماہر حیاتیات اور سائنس کے مؤرخ کی حیثیت سے میں نے تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ علم اور پیچیدگی کے ارتقا کا مطالعہ کیا ہے اور ان علوم کی وضاحت کرنے میں مدد کے لیے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ریاضی کے نمونے تیار کر رہا ہوں۔

انتھروپوسین انجن کو چلانے والے بنیادی عمل کی عالمگیریت کا استعمال کرتے ہوئے ہم ان حرکیات کو ترقی کی مساوات کی شکل میں لے سکتے ہیں، جس میں آبادی میں اضافے اور توانائی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے درمیان روابط شامل ہیں۔

متحرک نظاموں میں مثبت فیڈ بیک سائیکل کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ وہ تیزی سے نمو کا باعث بنتے ہیں۔

غیر معمولی نمو بہت آہستہ شروع ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کچھ وقت تک اس کا پتہ بھی نہ چلے۔ لیکن جہاں بھی وسائل محدود ہوں گے وہاں بالآخر اس کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوں گے۔

انتھروپوسین انجن کی وجہ سے انسانی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انفرادی معاشرے گذشتہ آٹھ ہزار سال میں کئی بار تباہی کے دہانے پر پہنچے۔

مثال کے طور پر ایسٹر جزیرے کی تہذیب کی گمشدگی اور مایا سلطنت کے خاتمے کو آبادی میں اضافے کی وجہ سے ماحولیاتی وسائل کی کمی سے جوڑا گیا۔

1300 کی دہائی میں بلیک ڈیتھ کے دوران یورپی آبادی میں ڈرامائی کمی گنجان آباد اور غیر صحت مند زندگی کے حالات کا براہ راست نتیجہ تھا جس طاعون کے پھیلاؤ میں مدد ملی۔

ماہر حیاتیات پال ایرلچ نے 1968 لکھی گئی اپنی کتاب ’دی پاپولیشن بم‘ میں بے قابو اضافے بارے میں خبردار کیا تھا، اس میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ محدود وسائل کی بڑھتی ہوئی عالمی طلب انسانی کھپت میں تبدیلی کے بغیر معاشرتی زوال کا باعث بنے گی۔

لیکن عالمی سطح پر انسانیت نے تباہی سے بچنے کا راستہ ہمیشہ تلاش کیا ہے۔ علم پر مبنی جدت نے، جیسے کہ سبز انقلاب، جس کے وسیع پیمانے پر اثرات کی ایرلچ نے پیش گوئی نہیں کی تھی، لوگوں کو چیزیں دوبارہ ٹھیک کرنے کے قابل بنایا۔ 

اس سے جدت کے مزید سائیکل بنے اور (تقریباً) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی ایک مثال توانائی کے نظام کی ترتیب ہے۔ یہ لکڑی اور جانوروں کی طاقت کے ساتھ شروع ہوا۔ اس کے بعد کوئلہ، تیل اور گیس آئی۔

فوسل فیول نے صنعتی انقلاب کو تقویت دی، صحت کی بہترسہولیات میں پیش رفت اور دولت میں اضافہ کیا۔

لیکن فوسل فیول والے دور کے ڈرامائی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اس نے 300 سال سے بھی کم عرصے میں ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ارتکاز کو تقریبا دوگنا کر دیا، جس کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کی رفتار میں بے مثال اضافہ ہوا جس کا سامنا آج انسانیت کر رہی ہے۔

عین اسی وقت عدم مساوات عام ہوگئی ہے۔ گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ متاثر وہ غریب ممالک ہیں جن کا آب و ہوا کی تبدیلی میں بہت کم حصہ ہے جبکہ صرف 20 امیر ممالک تقریباً 80 فیصد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔

تباہی سے بچنے کے لیے توانائی کی اگلی منتقلی اب ہوا اور شمسی توانائی جیسے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے عروج کے ساتھ جاری ہے۔

لیکن موسمیاتی تبدیلی کے متعلق اقوام متحدہ کی نومبر2022  میں ہونے والی کانفرنس سے پہلے شائع ہونے والی رپورٹ اور دیگر مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنی توانائی کے استعمال کو اتنی تیزی سے تبدیل نہیں کر رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کو روکا جا سکے۔

سائیکل کو ری سیٹ کرنے کے لیے علم کا استعمال

ہر نوع، اگر اس پر دھیان نہ دیا جائے، تیزی سے بڑھ سکتی ہے، لیکن انواع کے سامنے رکاوٹوں یا منفی فیڈ بیک میکانزم ہے جیسا کہ شکاری اور محدود خوراک کی فراہمی۔

انتھروپوسین انجن کی مدد سے انسانوں نے بہت سے منفی فیڈ بیک میکانزم سے خود کو بچایا جو دوسری صورت میں آبادی میں اضافے کو کنٹرول میں رکھتے ہیں۔

ہم نے خوراک کی پیداوار کو بڑھا لیا، خطوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا اور بیماریوں سے بچنے کے لیے ادویات دریافت کیں۔

یہ انسانیت کو کہاں پہنچائے گا؟ کیا ہم آب و ہوا کی تبدیلی سے ناگزیر خاتمے کے قریب جا رہے ہیں، یا کیا ہم دوبارہ منتقل ہو سکتے ہیں اور اس سائیکل کو دوبارہ ترتیب دینے والی اختراعات دریافت کرسکتے ہیں؟

ہمارے سماجی و اقتصادی تکنیکی نظاموں میں منفی فیڈبیک کو بنیاد پرست آبادی پر قابو پانے یا جنگ کی بجائے اضافی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر اصولوں، اقدار اور ضوابط کی شکل میں کو متعارف کروانے سے موسمیاتی تبدیلی کو قابو میں رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

انسانیت اپنے آپ کو اپنی ماحولیاتی حدود میں رکھنے کے لیے علم کا استعمال کرسکتی ہے۔

نوٹ: یہ مضمون اس سے قبل دی کنورسیشن پر شائع ہو چکا ہے اور اسے باقاعدہ اجازت لینے کے بعد یہاں پوسٹ کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق