پشاور: 300 روپے سلائی وصول کرنے والی درزن سے گاہک ناراض

پشاور کے نواح میں سلائی کا کام کرنے والی درزن شمیم کا کہنا تھا کہ مہنگائی کے باعث انہوں نے فی جوڑا مزدوری میں معمولی اضافہ کیا تو گاہکوں نے آنا ہی بند کر دیا۔

بیٹے اور شوہر کے برسر روزگار ہونے کے باوجود گھر کا چولہا جلتا رکھنے کے لیے شمیم گلی محلے کی خواتین کے کپڑے سیتی ہیں (انڈپینڈنٹ اردو) 

’میں نے مہنگائی کی وجہ سے فی جوڑا سلائی کی مزدوری میں صرف 50 روپے کا اضافہ کیا تو گاہک اتنا ناراض ہوئیں کہ کپڑے سلوانا ہی چھوڑ دیے۔ خدا جانے انہوں نے کپڑے خریدنے بند کر دیے یا کسی دوسری درزن کے پاس جانے لگی ہیں۔‘

ملک کی ابتر معاشی حالت کے باعث روزمرہ استعمال، خورد و نوش اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے لیکن پشاور کے مضافات میں رہنے والی 45 سالہ درزن شمیم (فرضی نام) اب بھی بہت کم پیسوں میں خواتین کے کپڑے سلتی ہیں۔

پشاور اور اس کے گرد و نواح میں عام طور پر مرد درزی خواتین کے سوٹ کی سلائی کی مزدوری 500 سے ایک ہزار روپے کے درمیان لیتے ہیں، جبکہ گھروں میں سلائی کا کام کرنے والی درزنیں ان سے کم اجرت پر کام کرتی ہیں۔

شمیم درزن نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ہے کہ پہلے وہ 250 روپے فی جوڑا وصول کرتی تھیں جو انہوں نے تقریباً ڈھائی ماہ قبل بڑھا کر 300 روپے کیا تھا۔

’مہنگائی کو دیکھیں کتنی زیادہ ہے اور میں نے صرف 50 روپے جوڑے کے پیچھے بڑھائے پھر بھی میرے گاہک خوش نہیں ہیں۔‘

شمیم بی بی عرصہ دراز سے سلائی کا کام کر رہی ہیں اور ان کے ہاتھ سے سلے کپڑوں کی صفائی، کام کی نفاست اور نت نئے ڈیزائن بنانے کی مہارت کی وجہ سے وہ اپنے گاؤں کی مشہور درزن ہیں۔

شمیم پڑھی لکھی تو نہیں ہیں تاہم انہوں نے اپنے بچوں کی مدد سے موبائل پر مختلف ویب سائٹس کا استعمال سیکھا اور کپڑے سینے کی ویڈیوز سے مختلف قسم کے ڈیزائنز سیکھتی ہیں۔

گھر کے برآمدے میں پڑی چارپائی پر سلائی مشین رکھے شمیم انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ کچھ اس طرح سے مخاطب ہوئیں: ’جب مہنگائی زیادہ نہیں تھی تو وہ ہر مہینے 15 سے 20  سوٹ سی لیتی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد گھٹ کر اب  پانچ سے آٹھ تک آگئی ہے۔‘

شمیم کا کہنا تھا کہ نئی گاہک تو مل جاتی ہیں لیکن انہیں اپنی پرانی گاہکوں کے جانے کا افسوس ہے۔

’میں ویلویٹ کا جوڑا 500 روپے میں سیتی ہوں۔ اگر کسی سوٹ میں زیادہ پیچیدہ ڈیزائن ہو تو اس کے بھی 500 لیتی ہوں۔ باقی عام طور پر 250 لیتی رہی ہوں۔ لیکن تب بھی گاہک کہتی تھیں کہ تھوڑا کم کر دیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شمیم بی بی جو چارپائی پر سلائی مشین رکھ کر گھنٹوں اس پر جھکا رہ کر کپڑے سیتی ہیں، کا کہنا ہے کہ اب ان کی کمر اور گھٹنوں نے جواب دینا شروع کردیا ہے۔

دیہی علاقوں میں اکثر خواتین کا انحصار سلائی کڑھائی  پر ہوتا ہے، جن میں سے بیشتر کے پاس سلائی کے دوران صحیح طریقے سے بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ہوتی۔ 

غلط طریقے سے بیٹھنے کی وجہ سے کئی خواتین کو کمر، گردن اور گھٹنوں میں مختلف تکالیف شروع ہو جاتی ہیں جو کہ طبی ماہرین کے مطابق مستقبل میں مزید پیچیدگیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

 شمیم اپنے گھر کی واحد کفیل نہیں ہیں، بلکہ ان کا بیٹا اور شوہر بھی ملازمتیں کرتے ہیں۔ 

تاہم ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں دو افراد کی تنخواہ  گھر آنا کافی نہیں ہے، لہذا وہ بھی گھر کے اخراجات اٹھانے میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین