سبیکا شیخ کے نام پر امریکہ میں انسداد اسلحہ بل متعارف

امریکی یونیورسٹی میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والی پاکستانی طالب علم سبیکا کی کزن شہیرا پُرامید ہیں کہ بل کانگریس میں بھی منظور ہو جائے گا۔

سبیکا شیخ کی کزن شہیرا جلیل  پرامید ہیں  ہاؤس آف جوڈیشری کمیٹی کے بعد یہ بل کانگریس میں بھی منظور ہوگا (بشکریہ فیس بک)

گذشتہ سال 18 مئی کو امریکی ریاست ٹیکساس کے سانٹافے ہائی سکول میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والی پاکستانی لڑکی سبیکا شیخ کے نام پر امریکہ میں اسلحے کی لائسنسنگ اور رجسٹریشن کے حوالے سے تاریخی بل متعارف کروائے گئے ہیں۔

امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار اسلحے کی خریداری سے لے کر اسلحہ استعمال کرنے اور اس کے بعد کے حوالے سے قانون سازی ہو رہی ہے۔

ان تین بلوں کے چار اہم نکات ہیں جن کے مطابق اسلحہ خریدنے والے ہر شخص کی تمام معلومات ایک آن لائن ڈیٹا بیس میں موجود ہوں گی جس کی عوامی سطح پر رسائی ممکن ہوگی، اسلحہ خریدنے کے لائسنس کے لیے امریکی وفاقی ادارے اے ٹی ایف کے تحت درخواست کنندہ کا مجرمانہ ریکارڈ چیک کیا جائے گا اور ذہنی صحت کا جائزہ  لیا جائے گا اور لائسنس کو ایک خاص مدت کے بعد رینیو کروانا ہوگا۔

تیسرا اہم نکتہ اسلحے کی ملکیت تبدیل کرنے کی صورت میں نئے مالک پر بھی یہ قوانین لاگو ہوں گے جبکہ عسکری نوعیت کے ہتھیار رکھنے کی صورت میں لائسنسنگ اور سٹوریج کا عمل مختلف ہوگا۔

ان قوانین کو متعارف کروانے کی جدوجہد کرنے والی کوئی اور نہیں بلکہ سبیکا کی کزن شیہرا جلیل الباست ہیں جن کا تعلق کراچی سے ہے۔

شہیرا امریکی محکمہ خارجہ کےتحت ہونے والے فل برائٹ پروگرام میں شامل تھیں اور 2017 سے 2019 میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے ماسٹرز ڈگری مکمل کرکے حال ہی میں لوٹی ہیں۔

26 جولائی کو شہیرا کے پاکستان لوٹنے سے ایک روز قبل امریکی ہاؤس کمیٹی برائے عدلیہ کی فعال رکن شیلا جیکسن لی نے ’سبیکا شیخ فائر آرم لائسنسنگ اور رجسٹریشن ایکٹ‘ متعارف کروایا۔

انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات کرتے ہوئے شہیرا جلیل کا کہنا تھا کہ وہ کافی پرامید ہیں کہ ہاؤس آف جوڈیشری کمیٹی کے بعد یہ بل کانگریس میں بھی منظور ہوگا کیونکہ کانگریس میں نومبر 2018 کے مڈ ٹرم الیکشن کے بعد سے ڈیموکریٹک پارٹی اکثریت میں ہے اور امریکی ادارے نیشنل رائفل ایسوسی یشن کے مطابق زیادہ تر ڈیموکرٹ گن سیفٹی کے حق میں ہیں۔

شہیرا نے یہ قوانین کیسے متعارف کروائے؟

شہیرا جلیل نے بتایا کہ انہوں نے اس مہم کا آغاز واشنگٹن ڈی سی میں امریکی طلبہ پر محیط ایک گن سیفٹی آرگنائزیشن ’سٹوڈنٹ ڈیمانڈ ایکشن‘ سے کیا۔ تحریک کے ذریعے انہیں امریکی سیاست اور قانون سمجھنے میں بہت مدد ملی، یہاں تک کہ امریکہ کے مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں سبیکا کے حق میں آواز بلند کرنے کا موقع بھی ملا۔

’میں لوگوں کو یہ بات ہمیشہ یاد دلاتی تھی کہ سبیکا اس ملک میں آپ کی مہمان تھی۔ وہ یہاں پڑھنے آئی تھی مرنے نہیں۔‘

18 مئی 2018 کے واقعے کے ایک ماہ بعد شہیرا نے سبیکا کے موضوع پر واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون لکھا جس کے بعد انہیں کافی پزیرائی ملی۔

اسی طرح شہیرا کا رابطہ ہیوسٹن میں مقیم اٹارنی کرسٹینا وڈز سے ہوا، جن کے پاس ’گنز ریفارم ایکٹ‘ کے نام سے ایک تیار شدہ ڈرافٹ تھا۔ شہیرا کا کہنا تھا اٹارنی کرسٹینا وڈز کی مدد سے انہوں نے60 صفحات پر مشتمل یہ تاریخی اور جامع بل تیار کیا، بل تیار ہونے کے بعد اگلا ہدف نومبر کے مڈ ٹرم الیکشن میں ضلعی سطح پر مہم چلانا اور اس بل کے ڈرافٹ کو کانگریس میں متعارف کروانا تھا۔

شہیرا کہتی ہیں انہوں نے مڈ ٹرم الیکشن میں کامیاب ہونے والے سیاست دانوں کی ایک فہرست تیار کی، اس مرحلے پر انہیں ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اکثر امریکی سیاست دان پہلے ہی ایک منفی تاثر بنا لیتے تھے۔ ’کچھ سیاست دانوں نے کہا بل کافی طویل ہے، امکان ہے کہ یہ بل مسترد ہوجائے۔‘

تاہم شہیرا نے60 صفحات پر مشتمل بل کو چھ مختصر بلز میں تقسیم کیا اور ہیوسٹن میں سبیکا کے جنازے میں شرکت کرنے والی واحد کانگریس ویمن شیلا جیکسن لی کی مدد سے اس محاذ کو آگے بڑھایا۔

 شہیرا نے بتایا کہ رواں سال فروری کے بعد ایک طویل مرحلے کا آغاز ہوا۔’ امریکی قوانین کافی پیچیدہ ہیں اور انتہائی کم عرصے میں انہیں سمجھنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس محنت  کے بعد تین بل تیار کیے گئے جن میں سے ایک فیڈرل فائرآرم ڈیلرز کی لائسنسنگ، دوسرا اسلحے کی سیف سٹوریج اور تیسرا بل سبیکا کے نام پر ہے جو مجموعی طور پر اسلحے کی ملکیت اور لائسنسنگ کا بل ہے۔ 26 جولائی کو یہ تینوں بل ہاؤس آف جوڈیشری کمیٹی میں متعارف کروائے گئے۔                         

سبیکا شیخ کون تھیں؟

سبیکا کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک 10 کی رہائشی تھیں اوردو بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی تھیں۔

کراچی پبلک سکول کی طالب علم سبیکا اپنی غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے امریکی محکمہ خارجہ کے ’کینیڈی لوگر یوتھ ایکسچینج پروگرام 18-2017 میں ہیوسٹن کے سانٹا فے ہائی اسکول  میں زیرتعلیم تھیں۔ وہ گذشتہ برس 9 جون کو گھر واپس آنے والی تھیں۔

سبیکا کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس پروگرام میں ان کا انتخاب ہوا اس میں شرکت سے پہلے لیے گئے ٹیسٹ میں چھ ہزارطلبا نے حصہ لیا جس میں سے صرف 75 نے ٹیسٹ پاس کیا۔

ٹیسٹ پاس کرنے والوں میں سبیکا کا نام بھی شامل تھا۔ وہ پاکستان کی فارن سروسز میں کام کرنا اور ملک کا نام روشن کرنا چاہتی تھیں۔

سکول فائرنگ

سانٹا فے ہائی اسکول میں 18 مئی 2018 کو ہونی والی فائرنگ میں 17 سالہ سبیکا شیخ سمیت دس طالب علم جاں بحق ہوئے۔ ملزم ایک 17 سالہ طالب علم ڈمیٹریس پیگروٹسس تھا جس نے سکول میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے بعد پولیس نے فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے حملہ آور سمیت دو افراد کو گرفتار کرلیا۔

واقعے کے بعد دو مقامات پر تلاشی لی گئی جہاں سے مزید دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔ ڈیمیٹریس کے زیر استعمال ایک ڈائری سے معلوم ہوا کہ وہ خودکشی کرنا چاہتا تھا مگر ہمت نہیں کر پایا۔ تفتیش کے بعد معلوم ہوا ڈمیٹریس نے فائرنگ کے لیے اپنے والد کی بندوق استعمال کی تھی۔

واقعے کے ایک روز بعد امریکہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے نے فائرنگ میں ہلاک ہونے والی پاکستانی طالبہ کی ہلاکت کی تصدیق کی۔

سبیکا کا جسد خاکی 23 مئی کو نجی ائیرلائن کی پرواز کے ذریعے کراچی لایا گیا، جہاں اے ایس ایف نے میت کو امریکی سفارت خانے کے قونصل جنرل اور والد کے حوالے کیا۔

28 نومبر 2018 کو سبیکا شیخ کے والدین عبدالعزیز اور فرح ناز سمیت ٹیکساس فائرنگ کے 10 متاثرہ خاندانوں نے ملزم کے والدین کے خلاف پٹیشن درج کرائی۔ پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا کہ ان کا بیٹا شدید جذباتی مسائل کا شکار تھا لیکن انہوں نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ہتھیار تک رسائی سے نہیں روکا۔

ڈمیٹریس کا غیر معمولی رویہ

ڈمیٹریس امریکی ریاست کولوراڈو کے کولمبیئن ہائی اسکول میں 20 اپریل 1999 کو ہونے والے قتلِ عام سے متاثر تھا، جس میں دو طالب علموں ایرک ہیریس اور ڈیلن کلبولڈ نے اپنے ہی سکول میں اندھا دھند گولیاں چلا کر 12 طالب علموں اور ایک استاد کو ہلاک کردیا تھا۔

عام طور پرڈمیڑیس کے کپٹرے پہنے کا انداز بھی غیر معمولی ہوتا تھا۔ وہ ٹیکساس کی شدید گرمی میں بھی سیاہ لمبا کالا کوٹ اور کالے کامبیٹ بوٹس پہن کر سکول جاتا، جیسے کسی محاذ پر جا رہا ہو۔

اسے بندوقوں کا کافی شوق تھا اور وہ دوسری جنگ عظیم میں نازیوں کی استعمال کی گئی بندوقوں سے کافی متاثر تھا، بلکہ وہ اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی نازیوں اور فاشسٹ سے متاثر شدہ چیزوں کی تصاویر شئیر کرتا رہتا تھا اور نازیوں کی حمایت کرنے والے گروپس کا فعال رکن بھی تھا۔

امریکہ میں ماس شوٹنگ کا بڑھتا رجحان

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں اب تک 123 ماس شوٹنگ کے واقعات ہوچکے ہیں، جن میں 2011 کے بعد سے تین گنا اضافہ ہوا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اسحلے تک رسائی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل