اسلام آباد کو دارالحکومت بنانے کا منصوبہ انگریزوں نے بنایا تھا؟

ایک نظریے کے مطابق اسلام آباد کے قیام کا آئیڈیا ایوب خان کا نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان بننے سے پہلے سے موجود تھا۔

شکرپڑیاں میں واقع یادگارِ اسلام آباد (Yaarahmadd - CC BY-SA 4.0)

ایک صوفی روایت زبان زدِ خاص و عام ہے کہ کبھی یہاں ایک ایسا شہر ہو گا جو عالم اسلام کا مرکز بنے گا۔ یہ روایت 1617 میں جنم لینے صاحب کشف و کرامت بزرگ بری امام سے منسوب ہے، جن کا مزارِ اقدس اسلام آباد میں واقع ہے۔

کم وبیش ساڑھے تین سو سال بعد یہ پیش گوئی اس وقت سچ ثابت ہوئی جب اس وقت کے صدر ایوب خان نے 21 جنوری 1959 کو ایک دس رکنی کمیشن کا اعلان کیا، جس کے ذمے پاکستان کے نئے دارالحکومت کے قیام کے حوالے سے تجاویز دینا تھیں۔ اس کمیشن کی سربراہی میجر جنرل یحییٰ خان کر رہے تھے، جس نے اپنے قیام کے محض 24 دن بعد ہی موجودہ اسلام آباد کی جگہ دارالحکومت بنانے کی تجویز دے دی۔

کیا اسلام آباد کے قیام کی وجوہات عسکری تھیں؟

ممتاز مورخ اور سٹاک ہوم یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی کتاب Pakistan The Garrison State میں ایک تھیوری بناتے ہیں کہ پاکستان کی اٹھان بطور عسکری ریاست کے ہوئی ہے۔ گویا دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کے پیچھے بھی عسکری عوامل ہی کارفرما تھے کیونکہ جی ایچ کیو بھی راولپنڈی میں تھا۔

انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ برطانوی دستاویز ’ٹرانسفر آف پاور‘ کی 12 جلدیں ہیں۔ جب میں کتاب لکھ رہا تھا تب تک میری نظر ان پر نہیں تھی لیکن نئے ایڈیشن میں شاید میں یہ اضافہ کر دوں کہ اس میں واضح طور پر مئی 1947 میں ہی لکھ دیا گیا تھا کہ پاکستان کا مستقبل کا دارالحکومت راولپنڈی کے علاقے میں ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ایوب خان کا آئیڈیا نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان بننے سے پہلے موجود تھا۔ برٹش آرمی کا یہ میمورنڈم 12 مئی 1947 کا ہے۔

راولپنڈی چھ سال تک عارضی دارالحکومت رہا

حکومت نے 27 جون 1960 کو ایک آرڈیننس جاری کر کے نئے دارالحکومت کے قیام کی ذمہ داری سی ڈی اے کو سونپ دی۔ جس نے اپنا دفتر سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کی ایک کوٹھی آلکن ہاؤس سے شروع کیا۔

اسلام آباد کے قیام تک راولپنڈی کو عارضی دارالحکومت کا درجہ دے دیا گیا اور اس مقصد کے لیے دو اگست 1960 کو ایک صدارتی حکم جاری کیا گیا جس کے تحت 22 نومبر 1966 تک راولپنڈی ہی تقریباً چھ سال تک پاکستان کا عارضی دارالحکومت رہا، کیونکہ اس تاریخ تک کراچی اور راولپنڈی میں کام کرنے والے تمام وفاقی ادارے اسلام آباد منتقل کرنے کی حتمی تاریخ مقرر کر دی گئی تھی۔

راولپنڈی میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے لیے لال کڑتی میں ایوب ہال تعمیر کیا گیا تھا۔ غیر ملکی سفارت خانے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے علاقے میں قائم تھے، وزارت دفاع کے دفاتر کلکتہ آفس میں قائم ہوئے اور آج تک وہیں پر قائم ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور کیبنٹ ڈویژن راولپنڈی ریلوے سٹیشن کے قریب عمارتوں میں بنائے گئے۔

راولپنڈی کو اسلام آباد سے الگ کیوں کیا گیا؟

اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق نیا دارالحکومت 1165.50 مربع کلو میٹر پر مشتمل تھا، جسے مزید چار مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا :

  1. راولپنڈی 259- مربع کلومیٹر
  2. اسلام آباد شہر اور اس کا صنعتی علاقہ 220.15- مربع کلو میٹر
  3. اسلام آباد کے پارک 220.15- مربع کلومیٹر
  4. اسلام آبادکا دیہی علاقہ 466.20- مربع کلومیٹر

یہ ماسٹر پلان ایک یونانی تعمیراتی فرم Doxiadis Associates نے بنایا تھا۔ شروع میں ایک تجویز یہ بھی تھی کہ راولپنڈی کو بھی اس میں شامل کر دیا جائے کیونکہ یہ اسلام آباد کے ساتھ جڑواں شہر تھا اور اسلام آباد کی منصوبہ بندی پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا تھا، مگر بعد ازاں راولپنڈی کو الگ ہی رہنے دیا گیا۔ یوں راولپنڈی شہر پنجاب کا حصہ ہے۔ فیض آباد داخل ہوتے ہی ضابطے ہی نہیں بدلتے حکومتیں بھی بدل جاتی ہیں اور اس وقت بڑی دلچسپ صورت حال ہوتی ہے جب وفاق پر ایک جماعت حکومت کر رہی ہو اور پنجاب میں دوسری، تو ہر احتجاجی تحریک کے دوران اسلام آباد گویا غیر ملکی افواج کے حصار میں آیا ہوا ایک قلعہ معلوم ہوتا ہے۔

آج وفاقی حکومت کو یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اگر راولپنڈی بھی اسلام آباد کا ہی حصہ ہوتا تو انتظامی حوالے سے وہ سہولت محسوس کرتے۔ پھر اس وقت کس نے اور کیوں راولپنڈی کو وفاقی علاقے سے الگ حصہ قرار دیا تھا؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بزرگ صحافی اور مصنف جبار مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کے پیچھے پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ سکیورٹی وجوہات تھیں۔

راولپنڈی چونکہ وفاقی علاقہ تھا جہاں غیر ملکی سفیر بھی آزادانہ گھومتے پھرتے تھے۔ کہوٹہ کا ایٹمی پلانٹ بھی راولپنڈی میں تھا، ایک بار فرانسیسی سفارتی عملے کو ممنوعہ علاقے میں پکڑ لیا گیا۔ جس کے بعد ضیا دور میں راولپنڈی کو وفاقی علاقے سے الگ کر دیا گیا اور سفارت کاروں کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اجازت کے بغیر وفاقی علاقے سے باہر نہیں جا سکتے۔

اسلام آباد کے شہری علاقے کو چھ جنوری 1981 کو وفاقی علاقہ اور آئی سی ٹی قرار دے کر ضلع اسلام آباد کا درجہ دے دیا گیا۔ شہر کئی زونز پر مشتمل ہے جن میں انتظامی، سفارتی، شہری، تجارتی، صنعتی، ادارہ جاتی، ثقافتی، نیشنل پارک اور گرین بیلٹس شامل ہیں۔

رہائشی سیکٹرز مرکزی کمرشل علاقے بلیو ایریا کی دونوں جانب بنائے گئے ہیں۔ ہر سیکٹر تقریباً 745 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ جس میں مزید چار ذیلی سیکٹرز ہوتے ہیں جس میں کمرشل ایریاز بھی ہیں۔ ہر سیکٹر چوکور اور مربع شکل میں ہے جو ہر جانب سے دو کلومیٹر کا ہے۔ ہر سیکٹر میں ایک کمرشل مرکز بنایا گیا ہے پھر سب سیکٹرز میں چھوٹی مارکیٹیں بھی ہیں جہاں کھانے پینے کی اشیا ملتی ہیں۔ ہر سیکٹر میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے پرائمری، ہائی سکول، مساجد اور پارک موجود ہیں۔

شہر کا نام رکھنے کے حوالے سے مغالطے

نئے دارالحکومت کا نیا کیسے تجویز ہوا؟ 24 فروری 1960 کو وفاقی کابینہ نے نئے دارالحکومت کا نام ’اسلام آباد‘ رکھنے کا فیصلہ کیا جس کا اعلان وزیر اطلاعات و نشریات ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ایک کہانی یہ بیان کی جاتی ہے کہ حکومت نے اس مقصد کے لیے ایک اشتہار جاری کیا تھا اور پورے ملک سے نام مانگے تھے۔ اگر اس وقت کی حکومت یہ اشتہار جاری کرتی تو یہ اشتہار ملک کے بڑے اخبارات میں شائع ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک اشتہار صرف مجید نظامی کی زیرادارت لاہور سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’قندیل‘ میں چھپا جس میں نئے دارالحکومت کے لیے نام مانگے گئے اور جیتنے والے کو ایک ہزار روپے کا انعام دینے کا وعدہ بھی کیا گیا۔

یہ نام جس پتے پر ارسال کرنے کا کہا گیا وہ مینجنگ ایڈیٹر ہفت روزہ قندیل لاہور کا تھا۔ اگر وہ اشتہار سرکار کی جانب سے ہوتا تو پتہ بھی سرکار کا ہوتا۔ ہفت روزہ قندیل نے یہ اشتہار ذاتی حیثیت میں دیا تھا۔

اب یہ اتفاق تھا یا پھر اخبار نے مجوزہ نام حکومت کو بھجوائے تھے اس حوالے سے شواہد موجود نہیں ہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ نئے دارالحکومت کا جو نام سامنے آیا وہ ان ناموں میں شامل تھا جو ہفت روزہ قندیل کو ملے تھے۔

جب عارف والا کے ایک سرکاری سکول ٹیچر قاضی عبد الرحمٰن نے صدر ایوب کو خط لکھ کر یہ دعویٰ کیا کہ نئے دارالحکومت کا نام انہوں نے تجویز کیا ہے تو صدر نے اس کے جواب میں انہیں ایک پلاٹ الاٹ کرنے کی خوشخبری بھی سنا دی مگر یہ وعدہ ایفا نہیں ہوا۔

راولپنڈی کے ایک شاعر صادق نسیم لکھتے ہیں کہ ’لال کڑتی راولپنڈی میں ایک گلی ایسی بھی تھی جہاں تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی آبادی زیادہ تھی جس کا نام اسلام آباد تھا۔ اس گلی کے ایک شاعر مشتاق اسلام آبادی کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ راولپنڈی میں اسلام آباد کے نام سے دو محلے بھی موجود تھے۔

’بعد میں ایک محلہ جو ٹینچ بھاٹہ کے قریب تھا اس کا نام مغل آباد اور دوسرا جو ڈھوک کھبہ کے قریب تھا اس کا نام قاسم آباد رکھ دیا گیا جبکہ ایک رائے یہ بھی دی جاتی ہے کہ اسلام آباد کا نام صدر ایوب کو پیر صاحب دیول شریف نے تجویز کیا تھا۔‘

وہ نام جو غلط العام ہو گئے

اسلام آباد کی تعمیر شروع ہوئی تو پہلے 65 کی جنگ اور بعد میں سقوطِ ڈھاکہ ہو گیا اس لیے اس کی تعمیر متاثر ضرور ہوئی مگر قومی جذبے سے جاری رہی جس میں اس وقت کے نوجوان طلبہ نے بھی وفاقی سیکرٹریٹ کی عمارت میں بطور رضاکار کام کیا۔ مہینوں مٹی، گارا، سیمنٹ اور سریا اٹھایا۔

ڈاکٹر جنید آزر اپنی کتاب ’اسلام آباد کی ادبی روایت کے 50 سال‘ مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان 2010، میں صفحہ 41 پر لکھتے ہیں کہ شہر کی ابتدا اکتوبر 1961 میں ایک گاؤں ’باغِ کلاں‘ یا ’باگاں‘ سے کی گئی۔ یہاں بری امام کے والدِ محترم حضرت سخی محمود کا مزار ہے۔ اس کے ساتھ بننے والے پہلے بازار کو آبپارہ کہا گیا کیونکہ اس نام کا ایک بازار چٹاگانگ میں پہلے سے موجود تھا اور آبپارہ کا نام رکھنا بنگالیوں کو اپنائیت کا احساس دلانا تھا۔‘

اسلام آباد میں بہت سے علاقوں کے نام جو زبان زد عام ہیں دراصل ویسے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر بلیو ایریا کا اصل نام جناح ایونیو ہے۔ بلیو ایریا نام اس لیے پڑا کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان اور اوّلین نقشے میں جناح ایونیو کے گرد چھ کلومیٹر کے علاقے کو نیلے رنگ سے ظاہر کیا گیا تھا، اس لیے یہ جناح ایونیو سے بلیو ایریا کہلانے لگا۔ اسی طرح پشاور موڑ سے آگے کشمیر ہائی وے (جسے اب سری نگر ہائی وے کہتے ہیں) کے گرد علاقے کو موو ایریا کہتے ہیں۔

یہ بھی نقشے میں ارغوانی رنگ سے ظاہر کیا گیا تھا۔ انگریزی میں ارغوانی کو موو کہتے ہیں اس لیے یہ موو ایریا کہلانے لگا۔ لفظ پشاور موڑ بھی دراصل ایچ نائن کالج کے طلبہ کی اختراع ہے۔ اس زمانے میں کالج ٹرانسپورٹ نہیں تھی اس لیے طلبہ سڑک کنارے کھڑ ےہو کر لفٹ مانگا کرتے تھے اگر کوئی خدا ترس ڈرائیور لفٹ دے دیتا تو پوچھتا کہ کہا ں تک جانا ہے تو طلبہ کہتے پشاور موڑ تک یعنی جہاں سے بسیں پشاور کے لیے مڑتی ہیں۔ اسی طرح پشاور موڑ کا نام پڑ گیا۔

جی سیون کے مرکز کا نام بھی ستارہ مارکیٹ اس لیے پڑ گیا کہ یہاں کسی زمانے میں ستارہ نامی ریسٹورنٹ ہوا کرتا تھا۔ وہ ریسٹورنٹ تو بعد میں بند ہو گیا مگر لوگوں میں پوری مارکیٹ ہی ستارہ مارکیٹ کے نام سے مشہور ہو گئی۔ جی سکس مرکز کو میلوڈی سینیما کی نسبت سے میلوڈی مارکیٹ کہا جاتا ہے۔ ایف سکس مرکز کا نام سپر مارکیٹ اس لیے پڑ گیا کہ کسی دکاندار نے دو دکانوں کو ملا کر ایک بڑی دکان بنا لی۔ یار لوگوں نے اسے سپر سٹور کہنا شروع کر دیا جو بعد میں سپر مارکیٹ بن گیا۔

ایف سیون مرکز کے تاجروں نے سپر مارکیٹ کے جواب میں اپنی مارکیٹ کو جناح سپر کہنا شروع کر دیا۔ ایف ایٹ مرکز کو صدر ایوب کی نسبت سے ایوب مارکیٹ کا نام دیا گیا۔ شہر کو شروع میں اے، بی، سی، ڈی، ای، ایف، جی، ایچ، آئی سیکٹروں میں تقسیم کیا گیا بعد میں کسی کو خیال آیا کہ ان کے نام انگریزی کی بجائے مقامی ہونے چاہییں جس پر ڈی کو خیبر، ای کو مہران، ایف کو شالیمار اور جی کو رمنا کا نام دیا گیا، مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی ا س لیے پہلے والے نام ہی مروج رہے۔

اسلام آباد کی سب سے پہلے تعمیر ہونے والی مسجد جی سکس ٹو کی مسجد اولیٰ ہے۔ یہ درمیانے حجم کی مسجد ہے۔ بعد میں جامع مسجد کے طور پر جی سکس کی مرکزی مسجد تعمیر ہوئی جس کا رنگ بوسکی کپڑے جیسا ہلکا تھا جسے بعد میں ہلکا گلابی کر دیا گیا تاہم یہاں کے کوارٹروں کے لال رنگ کی نسبت سے اسے لال مسجد ہی کہا جانے لگا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ