30 اپریل کو الیکشن کرانا آئینی تقاضا ہے

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات میں مردم شماری کا مسئلہ زیر غور نہیں آئے گا کیونکہ 2017 کی مردم شماری اور 2018 کی حلقہ بندیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

مردم شماری کے نتائج مرتب کرنا بھی وقت طلب کام ہے (اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تجویز پر صدر ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ایکٹ 2017 کی دفعہ 57 کے تحت پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات کرانے کے لیے 30اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے جب کہ صوبہ خیبر پختونخوا کی اسمبلی کی تاریخ کا تعین گورنر خیبر پختونخوا الیکشن کمیشن کی سفارش پر کریں گے۔

انتخابی کمیشن نے اپنی قانونی اور آئینی ذمہ داری سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں ادا کی ہے اور بادی النظر میں یہ اہم اقدام ملکی استحکام کے لیے نیک شگون ثابت ہو گا۔

اگرچہ الیکشن کمیشن کی سفارش پر صدر مملکت نے 30 اپریل کو صوبہ پنجاب میں عام انتخابات کرانے کی راہ ہموار کر دی ہے جو پانچ سال کی مدت کے لیے ہوں گے۔

اس کے برعکس میڈیا میں جو مناظر پیش کیے جا رہے ہیں اس سے یوں نظر آ رہا ہے کہ صدر نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن انتظامات ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں اور حیرت انگیز طور پر وفاقی حکومت کی جانب سے بھی مقررہ تاریخ مقرر ہونے پر سرکاری موقف سامنے نہیں آیا ہے۔

میری اطلاع کے مطابق وفاقی حکومت اس کے قانونی پہلوؤں پر غور و غوض کر رہی ہے اور مردم شماری اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کو بنیاد بنا کر سپریم کورٹ میں آئینی ریفرنس دائر کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 86 کا سہارا لیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس میں آئین کے آرٹیکل 51 کی بنیاد پر نئی مردم شماری اور پرانی مردم شماری کے حوالے سے پرانی اور نئی حلقہ بندیوں کے تضادات کو مدِنظر رکھنا ہو گا اور کوشش کی جائے گی کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے تناظر میں ایسی راہ نکالی جائے کہ ملک میں قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن منعقد کرا کے سیاسی استحکام کی طرف اہم قدم اٹھایا جائے۔

موجودہ حالات میں منقسم انتخابات کروانے سے پاکستان میں سیاسی استحکام کا فقدان برقرار رہے گا۔

جس سیاسی جماعت نے ان دونوں صوبائی اسمبلیوں میں کامیابی حاصل کر لی، اسی جماعت کو وفاق میں حکومت سازی کا سنہرا موقع مل جائے گا۔

اگر جمہوری ممالک کی روایات کو مدنظر رکھا جائے تو کئی جمہوری ممالک نے غیر معمولی حالات میں انتخابات ملتوی یا موخر کیے تھے۔

انڈیا میں 1973 کی ایمرجنسی کی آڑ میں ایک سال اور ریاستی انتخابات 10 سال ملتوی ہوئے۔

انڈیا کے الیکشن قوانین کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے مدت کا تعین مقرر نہیں کیا گیا اور ضمنی انتخابات متعین سال کے بعد کرائے جاتے ہیں۔

پاکستان کے قوانین کے مطابق 60 روز میں انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ حکومتی اور اپوزیشن حلقے اپنی اپنی پسند کی تشریح کر رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کو اصولی طور پر نئی مردم شماری کے آئینی اور قانونی پہلوؤں کو بھی مدِنظر رکھنا چاہیے تھا اب جو دو صوبوں میں انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقعے پر جو آئینی، قانونی افراتفری دیکھنے میں آئے گی، اس سے پاکستان مزید سیاسی گرداب کا شکار ہو جائے گا۔

قومی اسمبلی کے انتخابات اور صوبہ سندھ اور بلوچستان کے انتخابات نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوں گے۔

نئی مردم شماری کے بغیر انتخابات متنازع ہی رہیں گے کیونکہ مشترکہ مفادات کونسل کی، جو ملک کا آئینی ادارہ ہے، سفارش پر نئی مردم شماری کا فیصلہ ہوا تھا، اور اس کی عمران خان نے بطور وزیراعظم منظوری دی تھی اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا تھا کہ آئندہ کے انتخابات ساتویں مردم شماری کی بنیاد پر ہی ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومتی حلقوں کو سپریم کورٹ کے ججوں کے بارے میں چار اور تین کے فارمولا سے باہر نکالنا ہو گا۔

سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا فیصلہ آ چکا ہے جو حتمی اور آئینی ہے اور اسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔

دنیا کے اکثر ممالک ایک طویل عرصے سے مردم شماری کے روایتی اور پرانے طریقہ کار کو ترک کر کے ڈیجیٹل مردم شماری کا موثر نظام اپنا چکے ہیں لیکن پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں رواں ہفتہ پہلی بار ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز یکم مارچ سے ہوا ہے۔

مردم شماری کرنا وقت طلب کام تو ہے ہی مگر اس کے نتائج مرتب کرنے میں وقت بھی زیادہ درکار ہوتا ہے۔ 

مثال کے طور پر ماضی میں ہونے والی ہر خانہ مردم شماری کے لیے حکومت کو بڑے پیمانے پر سوال نامے چھپوانے پڑے اور روایتی طریقہ کار کے تحت کی جانے والی مردم شماری کا سب سے مشکل اور متنازع مرحلہ ہاتھ کی لکھائی سے بھرے گئے فارمز کو پڑھنا ہوتا ہے، جو ہمیشہ متنازع ہی رہی۔

اس کے مقابلے پر ڈیجیٹل مردم شماری سے تمام متنازع امور کا ازالہ ہو جائے گا۔

اگر نومبر 2023 میں قومی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو پھر نئے قومی انتخابات ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہونے والی نئی حلقہ بندیوں پر منعقد کیے جائیں، بادی النظر میں ایسا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

اگر ڈیجیٹل مردم شماری کا حتمی نوٹی فیکیشن جاری ہونے میں غیرضروری تاخیر ہوتی ہے تو پھر اگلے قومی انتخابات گذشتہ مردم شماری کی بنیاد پر ہوں گے کیونکہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 51(5) کہتا ہے کہ ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کے لیے قومی اسمبلی کی نشستیں آخری منظور شدہ مردم شماری کے سرکاری نتائج کے مطابق آبادی کی بنیاد پر مختص کی جائیں گی۔

اب جب کہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہو رہے ہیں، لہٰذا مردم شماری کا مسئلہ زیر غور نہیں آئے گا۔ 2017 کی مردم شماری اور 2018 کی حلقہ بندیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔

نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ