’ریپ آف راولپنڈی‘

1947 کے فسادات کے دوران راولپنڈی میں ہونے والے خون خرابے کی نئی تفصیلات۔ کیا ان کے پیچھے انگریزوں کا ہاتھ تھا؟

فسادات کے دوران مہاجروں کی ایک ریل گاڑی (پبلک ڈومین)

پرابودھ چندرا 24 اکتوبر1911 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کا شمار تقسیم سے پہلے ہندوستان کی تحریک ِ آزادی کے سرکردہ رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ ایف سی کالج لاہور سے ماسٹر کیا۔ 1936 میں آل انڈیا سٹوڈنٹس موومنٹ کے بانی چیئرمین بن گئے۔

1946 کے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ تقسیم کے بعد تین بار بھارتی پنجاب کی اسمبلی کے رکن اور صوبائی وزیر رہے ایک بار سپیکر بھی منتخب کیے گئے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

 

1971 سے 1977 کے درمیان لوک سبھا کے ممبر بھی رہے۔ ان کا انتقال آٹھ فروری 1988 کو ہوا۔ انہوں نے ایک کتاب Rape of Rawalpindi لکھی جو کہ 1949 میں انڈیا سے چھپی۔

46 صفحات کی یہ کتاب دراصل راولپنڈی کے ان فسادات کی دلدوز تصویریں ہیں جن کی زد میں آ کر راولپنڈی اور اس کے گرد و نواح میں آٹھ ہزار ہندو اور سکھ قتل کر دیے گئے تھے۔

راولپنڈی فسادات کا ذکر ڈاکٹر اشتیاق احمد کی کتاب The Punjab: Bloodied Partitioned and Cleansed میں بھی کیا گیا ہے، لیکن پرابودھ چندرا کی کتاب دراصل ایک ایسے شخص کی تصنیف ہے جس نے یہ فسادات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔

انہوں نے کتاب کے آخر میں ان فسادات پر جناح اور گاندھی کا ایک مذمتی بیان بھی شائع کیا ہے جس میں دونوں رہنماؤں نے کہا کہ ’ہم اس تشدد کی پر زور مذمت کرتے ہیں جس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں ہے اور یہ انڈیا کے نام پر ایک سیاہ دھبہ ہے اور ہمیں ان تمام لوگوں پر افسوس ہے جنہوں نے یہ مکروہ کام کیا۔

’ہم نے پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنی منزل حاصل کی۔ ہماری تمام انڈیا کے لوگوں سے اپیل ہے کہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو وہ تشدد سے دور رہیں اور نہ ہی کسی ایسے عمل میں شریک ہوں جس سے تشدد کو ہوا ملتی ہو۔‘

لیکن گاندھی اور جناح کے اس بیان کا لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ مارچ سے لے کر ستمبر تک شہر شہر، قریہ قریہ جلتے رہے لوگ مرتے رہے۔

پرابودھ چندرا نے راولپنڈی کے فسادات کی جو منظر کشی کی ہے وہ بہت دلدوز اور ہولناک ہے۔

شہر کے شہر ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے ہیں اور ملبے میں جا بجا انسانی کھوپڑیاں بکھری پڑی ہیں۔

یہ منظر راولپنڈی اور اس کے قریبی دیہات کے ہیں جن میں کہوٹہ، چواخالصہ، تھوہا خالصہ، تھمالی، چکری، تخت پڑی اور دیگر دیہات کے ہیں۔

میرے گذشتہ مضامین میں تقسیم کے فسادات پر کافی معلومات دی گئی ہیں اور بالخصوص ان فسادات میں راولپنڈی کے فسادات کا کیا کردار تھا اس حوالے سے کافی دلائل موجود ہیں۔

حال ہی میں میرے ایک قاری نے لندن سے ایک وڈیو انٹرویو بھیجا ہے۔ انہوں نے میرے مضامین پڑھنے کے بعد مجھے مزید ایسی معلومات بھیجی ہیں جن کا تعلق راولپنڈی میں ان فسادات کے ایک چشم دید گواہ سے ہے۔

یہ انٹرویو راولپنڈی کے ایک مشہور وکیل طارق اعظم چوہدری کا ہے۔ جن کا تعلق تقسیم سے پہلے راولپنڈی کے نامی گرامی چوہان خاندان سے ہے۔

راولپنڈی کا محلہ وارث خان انہی چوہانوں کے سربراہ وارث خان سے موسوم ہے۔ وارث خان کے بیٹے چوہدری ظفر الحق پاکستان بننے سے پہلے ’محمڈن لیگ‘ کے ٹکٹ پر راولپنڈی کے ایم پی بھی منتخب ہوئے۔

ان کےچچا چوہدری گل سراج، خود میونسپل کمشنر اور آنریری مجسٹریٹ تھے اور طارق اعظم چوہدری ان کے نواسے تھے۔ ان کا انتقال 2014 میں ہوا۔

طارق اعظم چوہدری 80 کی دہائی میں لندن گئے تو وہاں ان کی جوانی کے دوست ڈاکٹر امر سنگھ سیٹھی کے بیٹے ڈاکٹر کلونت بیر سنگھ سیٹھی نے اپنے گھر پر ان کا ایک وڈیو انٹرویو کیا تھا۔

یہ انٹرویو مجھے ان کے بیٹے چوہدری فخرزمان نے بھجوایا ہے۔ اس انٹرویو میں راولپنڈی کی ایک پوری تاریخ اورتہذیب ہے۔ اعظم طارق چوہدری نے کمال یادداشت پائی تھی۔

انہوں نے اپنی اوائل جوانی کی یادداشتوں کو اس طرح کھولا کہ پرانی پنڈی سانس لیتی ہوئی محسوس ہوئی۔

پھر وہ وقت بھی پنڈی پر آیا جب یہ سانسیں آہوں میں بدل گئیں۔ اس انٹرویو کا صرف وہ حصہ یہاں رقم کیا جا رہا ہے جس کا تعلق تقسیم کے فسادات سے ہے۔

تقسیم سے پہلے کا پنڈی

طارق اعظم چوہدری کہتے ہیں کہ ’راولپنڈی کے مسلمان بہت پسماندہ تھے اور بنیادی طور پر یہ سکھوں اور ہندوؤں کا شہر تھا۔ مسلمانوں میں سیاسی اور سماجی طور پر ہمارا خاندان اہم تھا۔

لیکن کاروباری طور پر کچھ دیگر مسلمان خاندان بھی اہم تھے، لیکن پنڈی میں دراصل کسی کے ساتھ مسلمان، ہندو یا سکھ کے طور پر کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ سبھی ایک دوسرے کے غم اور خوشی کے ساتھی تھے۔

شہر سرکلر روڈ کے اندر آباد تھا اور اتنا ہی تھا کہ ہر فرد دوسرے کو جانتا تھا بلکہ جب کوئی بچہ بھی سڑک سے گزرتا تو ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ یہ کس کا بیٹا ہے۔

’اس لیے ایک دوسرے کا لحاظ اور رواداری یہاں کا بنیادی وصف تھا۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی ایک دوسرے کے ساتھ دوستیاں تھیں۔‘

اس کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میرا سب سے اچھا دوست جو میری شادی کا بھی دوست تھا، وہ کندن سنگھ تھا۔ ہم اس حد تک قریب تھے کہ دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے تھے۔

وہ اپنے باپ کا اکلوتا بیٹا تھا باقی اس کی بہنیں تھیں، اگر میں کسی دن کھانا کھانے نہیں جاتا تھا تو اس کی ماں ہمارے گھر روٹی بھیج دیتی تھی۔

جب پاکستان بننے کے بعد اس نے پاکستان آنے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے ایمبیسی کو لکھا کہ ہندوستان میرے دوستوں سے بھرا ہوا ہے لیکن بھائی میرا ایک ہی ہے جس پر اسے ویزہ ملا اور وہ بچوں سمیت میرے پاس آیا۔‘

پھر فساد کیسے پھیلا؟

’راولپنڈی کی خوبصورتی یہ تھی کہ یہاں کوئی ہندو، سکھ، مسلمان نہیں تھا۔ سب محلے دار تھے ہمسائے تھے۔ وہ پیار بھرا سماں پھر لوٹ کے نہیں آیا۔ ہم نے نفرت کے موسم دیکھے ہیں۔

’یہ سب انگریز کا کیا دھرا تھا جو divide and quit کی پالیسی پر چلے۔ جس جس ضلع کا ڈپٹی کمشنر انگریز تھا فساد بھی صرف انہی اضلاع میں ہوا۔

’انہوں نے سوچا جانا تو ہم نے ہے ہی لیکن انہیں بھی پیار سے رہنے نہیں دینا۔ دیکھیں روٹی کہاں اور شوربہ کہاں، بنگال کدھر اور پاکستان کدھر، اسی طرح انہوں نے ذاتیں اور برادریاں تقسیم کیں، گلیاں اور محلے تقسیم کیے اس طرح کہ ہم باقی ساری عمر ایک دوسری کی شکل دیکھنے کے روادار بھی نہ ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’مجھے باقی شہروں لاہور اور پشاور کا پتہ نہیں، راولپنڈی کا پتاہے تاریخ گواہ ہے کہ سی ایل کورٹ ڈپٹی کمشنر ہے۔

’میں ان کے نام نہیں لیتا کہ جن کو بلا کر انہوں نے کہا کہ تم نے مسلمانوں کی مسجد میں سؤر پھینکنا ہے اور تم نے مندر کے اندر گائے پھینکنی ہے۔

’ہم میں ہی ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے یہ کام کیے اس لالچ میں کہ انگریز انہیں بھی مجسٹریٹ بنائیں گے، خان صاحب بنائیں گے۔ ان بد ذاتوں کو یہ تک نہیں معلوم تھا کہ انگریز تو جا رہا ہے ہمیں کون بنائے گا۔ ہمیں تو بعد میں تاریخ لتر مارے گی۔

’پھر انگریز نے یہ خبریں مشہور کرائیں تاکہ فساد ہر جگہ پھیل جائے۔ اس کام کے لیے انگریز نے اپنے الگ لوگ رکھے ہوئے تھے۔ راولپنڈی میں پانچ مارچ کو ہندوؤں اور سکھوں نے جلوس نکالا۔

’ہمارے چوہدریوں کا لڑکا کار سے باہر نکلا اس کو کسی نے چاقو مار دیا۔ چاقو بھی ٹانگ پر لگا کیونکہ مارنے اور کھانے والے دونوں پلانٹیڈ تھے۔ یہ چنگاری لگا دی گئی جس پر چھ مارچ کو فساد شروع ہو گیا۔

’اس دن میری آنکھوں کے سامنے ہو اکہ ایک سکھ ڈاکیا مری روڈ پر آ رہا ہے لوگ اسے مارتے جا رہے ہیں اور وہ وہیں مر جاتا ہے۔

’پھر آٹھ مارچ کو پیارا سنگھ کو کوڑہوں کے احاطے میں لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس کی جان بچ گئی کیونکہ چوہدری مولا وغیرہ نے اسے چھڑوا لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مسلمان ایک سکھ کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مال لوٹنا ہے۔ سکھنی گھر تھی اس کے پاس سؤر مارنے کے لیے بندوقیں تھیں، اس نے فائر کھول دیا۔

’مری روڈ پر بھی اکا دکا اموات شروع ہو گئی تھیں۔ ورکشاپی محلہ میں، اسی طرح گنج منڈی میں کوئی ہری پور کا آدمی آیا جو مارا گیا۔

’یہاں ایک بڑے فساد کی بنیاد رکھ دی گئی۔ مسلمان، ہندو، سکھ ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ یہ سب فساد انگریز کی موجودگی میں ہو رہا تھا۔ یہ فساد شہر سے نکل کر مضافات میں پھیل گیا۔

’دیول، دھمالی اور تھوہا خالصہ مکمل تباہ ہو گئے۔ دیہات میں سب سے پہلا فساد کری شہر میں ہو اجہاں مسلمانوں نے بندے مار دیے۔

’راولپنڈی شہر میں کرفیو لگ چکا تھا، محلوں کی امن کمیٹیاں قائم ہو چکی تھیں، اس لیے فساد یوں نے اب دیہات کو نشانے پر رکھ لیا۔

’چونترے کے قریب ایک گاؤں پڑیال تباہ ہوا، چکری میں پریم سنگھ پریم جو بعد میں پنجاب کا وزیر تعلیم بنا، اس کا پورا خاندان جس میں اس کی ماں بھی شامل تھی ماری گئی۔

’یہ کیمبل پور میں وکالت کرتا تھا کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا اس لیے بچ گیا۔

’اگست خون ریز مہینہ تھا۔ لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ 18 بسوں کا ایک قافلہ کشمیر جا رہا تھا اسے راولاں گاؤں کے قریب روک کر لوٹ لیا گیا۔

’پھر مہاجرین کے کیمپ لگ گئے اپنے گھروں کے مالک اپنے ہی شہروں میں ان کیمپوں کے مکین بن گئے۔ لوگ گھر کا سامان بیچ کر بھاگنے لگے۔

’کئی لوگوں نے یہ سوچا کہ 15 اگست کے بعد وہ واپس آ ہی جائیں گے، اس لیے انہوں نے سامان رہنے دیا اور گھروں کو تالے لگا دیے۔

’انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ایسی تقسیم ہو گی کہ واپس ایک دوسرے کے منہ بھی نہیں لگیں گے۔ اب صرف یادیں رہ گئی ہیں اور یادیں بھی صرف ہماری نسل تک ہیں۔

’یہ تمام بدقسمتی پنجاب میں ہوئی ہماری بھاشا، ہماری تہذیب سب کچھ تقسیم ہو گیا۔‘

کیا یہ فساد انگریزوں نے کروایا تھا ؟

اس حوالے سے دونوں ممالک کے ادیبوں اور تاریخ دانوں نے لکھا ہے اور واقعات درج کیے ہیں۔ بھیشن ساہنی کے ناول ’تمس‘ میں راولپنڈی کے حوالے سے ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک چمار کو انگریز بلا کر کہتا ہے کہ تم نے سؤر مار کر مسجد کے آگے پھینک دینا ہے۔

اسی طرح منٹو، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی نے بھی وہ کرب بیان کیا ہے جس میں صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے اچانک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے کیسے ہو جاتے ہیں۔

تاریخ دانوں میں ڈاکٹر عائشہ جلال اور ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اس کو موضوع بنایا ہے اور کئی سوالات اٹھائے ہیں۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد نے ’بلیک ہول‘ میں ایک سوال کا جواب سوال ہی میں دیتے ہوئے پوچھا تھا کہ ’یہ فسادات صرف انہی اضلاع میں کیوں ہوئے جہاں کا ڈپٹی کمشنر انگریز تھا؟‘

اور عائشہ جلال اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ قومی تاریخ سے زیادہ اہم لوگوں کی وہ ذاتی کہانیاں ہیں کہ انہوں نے اپنے ارد گرد کیا ہوتے دیکھا؟

یہ ذاتی بیانیہ اس قومی بیانیے سے زیادہ اہم ہے جس میں صرف تقسیم کے سیاسی محرکات پڑھائے جاتے ہیں۔

پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ انگریز نے انٹیلی جنس معلومات ہونے کے باوجود کسی بھی جگہ ان فسادات کو روکا کیوں نہیں بلکہ ایک طرح سے ہونے دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ