انڈیا: بی جے پی رہنما کے اذان سے متعلق متنازع بیان پر شدید تنقید

بی جے پی رہنما ایشور اپا کے اذان سے متعلق متنازع بیان پر نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی جانب سے ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔

انڈین ریاست کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما ایشور اپا نے اپنے ایک متنازع بیان میں اذان کے لیے لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر اعتراض اٹھایا ہے، جس کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے اور مسلمانوں کی جانب سے ان پر تنقید کی جا رہی ہے۔

انڈین نیوز ویب سائٹ این ڈی ٹی وی کے مطابق بی جے پی کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر ایشور اپا اتوار کو ایک جلسے سے خطاب کر رہے تھے کہ قریبی مسجد سے اذان دی جانے لگی۔ اذان کی آواز پر بی جے پی رہنما نے کہا کہ ’میں جہاں بھی جاتا ہوں، اس (اذان) سے میرے سر میں درد ہونے لگتا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے والا ہے، اگر آج نہیں تو (کل) یہ اذان بند ہو جائے گی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’مندروں میں لڑکیاں اور خواتین پوجا کرتی اور بھجن گاتی ہیں۔ ہم مذہبی ہیں لیکن لاؤڈ سپیکر استعمال نہیں کرتے۔‘

بعدازاں انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق پیر کو ایشور اپا نے اپنے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد کسی مذہب کی مذمت کرنا نہیں تھا بلکہ وہ لوگوں کے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔

بی جے پی رہنما کے بیان پر تنقید

مسلمانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر بی جے پی رہنما ایشور اپا کے اذان سے متعلق متنازع بیان پر تنقید کی جارہی ہے۔

انڈین صحافی اور ’آلٹ نیوز‘ کے نام سے فیکٹ چیک ویب سائٹ چلانے والے محمد زبیر نے اسے ریاست کرناٹک میں الیکشن جیتنے کے لیے ’بی جے پی کا ایجنڈا‘ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’کیا ایشور اپا کو یہ بیان دینے سے پہلے اعلیٰ انتظامیہ سے اجازت ملی تھی؟‘

انڈین صحافی سید علیم الٰہی نے بی جے پی رہنما ایشور اپا پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اذان لوگوں کو نماز ادا کرنے کی یاددہانی کے لیے دی جاتی ہے۔

 

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ایشور اپا نے اس طرح کا کوئی متنازع بیان دیا ہو۔  وہ اس سے پہلے 18 ویں صدی میں میسور کے حکمران رہنے والے ٹیپو سلطان کے بارے میں بھی نامناسب الفاظ کا استعمال کر چکے ہیں۔

انڈین سپریم کورٹ نے جولائی 2005 میں صوتی آلودگی کے صحت پر اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے ہنگامی صورت حال کے علاوہ رات 10 سے صبح چھ بجے تک لاؤڈ سپیکر کے استعمال پر پابندی عائد کردی تھی۔

بعدازاں اکتوبر 2005 میں عدالت نے کہا تھا کہ لاؤڈ سپیکر کو سال میں 15 دن تہواروں کے موقعے پر آدھی رات تک استعمال کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے گذشتہ سال مساجد کو اس حوالے سے کوئی ہدایات جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ برداشت کرنا آئین کی خصوصیات میں شامل ہے۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ دعویٰ کہ اذان سے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے، قبول نہیں کیا جا سکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا