کیا پاکستان آئی ایم ایف کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت نہیں ہے۔ ماہرینِ معیشت اس بیان کو کیسے دیکھتے ہیں؟

ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف صرف ایک بینک نہیں ہے جو قرضہ دیتا ہے بلکہ اب یہ ایک عالمی مالیاتی اصلاحاتی ادارہ بن چکا ہے (اے ایف پی)

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بغیر زندہ رہنا سیکھنا ہو گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر آئی ایم ایف کا قرضہ نہ بھی ملے تو پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

گذشتہ نو ماہ کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں مل سکا مگر اس کے باوجود پاکستان نے ڈیفالٹ نہیں کیا، کئی مرتبہ یہ شرط لگائی گئی کہ سری لنکا کے بعد پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ پاکستان نے اپنی بیرونی ادائیگیاں بروقت کی ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بغیر اپنی معیشت کو ٹھیک کرنا ہو گا۔

کیا وزیرِ خزانہ کا بیان غیر حقیقی ہے؟

معاشی ماہرین وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیان کو غیر حقیقی قرار دے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اب صرف ایک بینک نہیں ہے جو قرضہ دیتا ہے بلکہ اب یہ ایک عالمی مالیاتی اصلاحاتی ادارہ بن چکا ہے جو اپنے رکن ممالک کو قرضہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کی معیشت کو ٹھیک کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

اب  دنیا کے کئی ممالک پیسے دینے سے قبل آئی ایم ایف سے مشاورت کرتے ہیں، سعودی عرب اس کی واضح مثال ہے جو پاکستان سمیت کئی ممالک کو پیسے دینے سے قبل آئی ایم ایف سے صلاح مشورہ کر رہا ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنڈ اکنامکس (پائیڈ) کے سربراہ ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی معیشت کو ہارٹ اٹیک ہو چکا ہے، جس کا ڈاکٹر آئی ایم ایف ہے اس وقت پاکستان کو معاشی علاج کے لیے ڈاکٹر کی ضرورت ہے، اب آئی ایم ایف کے بغیر گزارہ نہیں ہے، ابھی فوری طور پر آئی ایم ایف کے پاس جائیں، اور جب ٹھیک ہو جائیں تو کوشش کریں دوبارہ نہ جائیں۔‘

ڈاکٹر ندیم الحق نے کہا کہ پاکستانی معیشت کا علاج کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اصلاحات کی جائیں، حکومتی اخراجات کم کیے جائیں، وزرا اور بیوروکریسی کو گاڑیاں اور پلاٹس نہ دیے جائیں، سبسڈیز کم کی جائیں۔

معاشی ماہر ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ ’وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیان غیر حقیقی ہے، اگر پاکستان پر تاریخی قرض نہ ہوتا تو پھر یہ بیان ٹھیک تھا، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو اپنا قرضہ اتارنا ہے، قرض اتارنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام ضروری ہے وزیر خزانہ کو اس طرح کے غیر حقیقی بیانات نہیں دینے چاہییں۔‘

وزیر مملکت خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت آئی ایم کے بغیر رہنے کے آپشن پر کام نہیں کررے ہیں، آئی ایم ایف پاکستان کو جن معاشی اصلاحات کی جانب لے جانا چاہتا ہے وہ ملک کے مفاد میں ہیں اور ہمیں اس طرف ہی بڑھنا چاہیے، ہمیں آئی ایم ایف کا پروگرام چاہیے۔

پاکستان کے پاس کیا پلان بی ہے؟

ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کہتی ہیں کہ ’فی الحال ہم آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کے پر عزم ہیں، ابھی پلان بی کا وقت نہیں آیا، جب آئے گا تو دیکھیں گے، پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے علاوہ چین، سعودی عرب، یو اے ای اور قطر سے مالی امداد کی بات چیت کر رہا ہے۔‘

اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔

معاشی ماہر ڈاکٹر وقار احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی پلان بی نہیں ہے، پاکستان نے یو اے ای کو دو ایل این جی پاور پلانٹس فروخت کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئی، قطر کو دینے ایئرپورٹس دینے کے حوالے سے بھی حکومت کو ناکامی ہوئی، سعودی عرب 2019 سے پاکستان میں تیل و گیس کے شعبے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے مگر پاکستان اس پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔

چین نے پاکستان کو حال ہی میں دو ارب ڈالرز کا قرض رول اوور کیا ہے، چین کے کمرشل بینک نے ایک ارب 30 کروڑ ڈالرز کا قرضہ موخر کر دیا ہے۔ پاکستان نے چین کا 30 ارب ڈالرز کا قرض ادا کرنا ہے، سعودی عرب نے پاکستان کو دو ارب ڈالرز کے سیف ڈیپازٹ فراہم کرنے کا اشارہ دے دیا ہے، یو اے ای نے پاکستان کا دو ارب ڈالرز کا قرضہ رول اوور کردیا ہے تاہم پاکستان کو ایک ارب ڈالرز کی اضافی امداد کا انتظار ہے۔

ڈالرز ڈیکلریشن ایمنسٹی سکیم

کرنسی ایکسچینج ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان نے کہا ہے کہ ’پاکستان آئی ایم ایف کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے، حکومت کو تارکین وطن پاکستانیوں سے اگلے دو سال میں 24 ارب ڈالرز اکٹھے کرنے کی سکیم دی ہے اور وہ اس سکیم کے تحت سٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں ڈالرز بھیج سکیں گے، حکومت کو یہ ڈالرز واپس نہیں کرنا ہوں گے، دو سال بعد حکومت ڈالرز کی اضافہ قیمت تارکین وطن کو ادا کر سکے گی۔ اگر ڈالرز آج 300 روپے کا ہے تو دو سال بعد اگر 400 روپے کا ہوا تو حکومت 100 روپے اضافی ادا کرے گی۔‘

ملک بوستان نے ملک کے اندر سے بھی سالانہ تین سے چار ارب ڈالرز اکٹھے کرنے کی سکیم دی ہے، جس کے لیے حکومت کو صارفین سے شناختی کارڈ پیش کرنے کی شرط کو ختم کرنا ہو گا۔

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کرنسی کے تبادلے کے قوانین کو نرم کرے، لوگ ڈالرز مارکیٹ میں لے آئیں گے۔‘ 

اقتصادی ماہر ڈاکٹر وقار کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو منی ایکسچینج ڈیلرز کی آفر کو سنجیدہ لینا چاہیے، منی چینجزر سے کھل کر بات کی جائے وہ ایمنسٹی مانگ رہے ہیں، جو ڈالرز پاکستان کے لاکرز میں پڑے ہیں وہ وزارت خزانہ کو مل سکتے ہیں لیکن اس کے لیے انہیں کچھ مراعات دینا ہوں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد چیمبرز آف کامرس کے سابق صدر ظفر بختاوری نے تجویز دی ہے کہ ’حکومت ایک ہفتے میں پاکستان سے پانچ سے چھ ارب ڈالرز اکٹھے کر سکتی ہے، جس کا آسان حل ہے کہ حکومت ڈالرز ڈیکلیئر کرنے پر ایمنسٹی دے، جس کے پاس جتنے ڈالرز ہیں اسے ظاہر کرنے پر کوئی پوچھ گچھ نہ کی جائے۔‘

سرمایہ کار سردار یاسر تنویر الیاس کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو غیر ملکی سرمایہ کاری اور ترسیلات زر کو بڑھانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آئی ایم ایف معاہدہ ہو بھی جائے تو یہ ایک دو ارب ڈالرز پاکستان کے ساتھ مذاق ہے۔ اگر آپ یہ پیسے پاکستان کے لوگوں سے مانگیں تو ایک مہینے میں چھ ارب ڈالرز مل سکتے ہیں، اتنا پیسہ پاکستان میں موجود ہے مگر وہ ڈاکیومینٹڈ نہیں ہے۔ اس کو ڈاکیومینٹ کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ موجودہ ٹیکس گزاروں پر ہی اضافی ٹیکسز لگا دیے جائیں۔‘

وزیر مملکت ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا کہنا ہے کہ حکومت ڈالرز کو ڈیکلیئر کرنے کے لیے ایمنسٹی اسکیم نہیں دے سکتی، آئی ایم ایف نے اس طرح کی ایمنسٹی اسکیم جاری کرنے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔

پاکستان کو آئندہ مالی سال کتنے ارب ڈالرز قرض واپس کرنا ہے؟

پاکستان کو 30 جون 2023 تک قرضوں اور سود کی ادائیگی کی مد میں  چار سے ساڑھے چار ارب ڈالرز ادا کرنا ہے، جب کہ آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کو 34 سے 35 ارب ڈالرز درکار ہیں جس میں سے 12 ارب ڈالرز عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، چین اور مختلف منصوبوں کے لیے میسر آ سکیں گے اور 13 ارب ڈالرز کا شارٹ ٹرم قرضہ ہے جسے رول اوور کیا جاسکے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کا 23 واں قرض پروگرام جون 2023 میں مکمل ہوگا آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 95 کروڑ ڈالرز کی تین اقساط ادا کرنی ہیں اور مالی سال 2023-24  کے دوران پاکستان کو 25 سے 27 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

امریکی  معاشی تحقیقاتی ادارے ولیم اینڈ میری سے منسلک ڈاکٹر عمار ملک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اپنے قرضوں کی ادائیگیاں اس وقت کر سکے گا جب وہ آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہو گا۔ سعودی عرب، یو اے ای اور چین بھی پاکستان کو اس وقت فنڈز فراہم کریں گے جب آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا، اب تو چین بھی پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کو تاخیر کا شکار کیوں کیا جا رہا ہے؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت