یہ ہے ہماری زبان

اردو کے غلط استعمال کی رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کر دی ہے جس میں اب نوجوان تو کیا اچھے خاصے جہان دیدہ لوگ بھی اس کا وہ حشر کرتے ہیں کہ بندہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔

ایک زمانے میں لوگ اخباروں سے اردو سیکھتے تھے مگر اب اخباروں کی اردو بھی بگڑتی جا رہی ہے (اے ایف پی)

کیا زمانہ آ گیا ہے، ٹی وی اشتہارات میں بولی جانے والی زبان پہلے بھی کبھی قابل رشک نہیں رہی تھی لیکن اب تو حد ہی ہو گئی ہے۔

ایک اشتہار نظر سے گزار جسے دیکھ کر میں تو سر ہی پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کسی صابن کا اشتہار تھا جس میں ماں اپنی بیٹی کو دیکھ کر کہتی ہے کہ ’میں اِس (اپنی بیٹی) کے خوابوں کے بیچ کسی کو نہیں آنے دوں گی، جراثیم کو بھی نہیں۔‘

لاحول ولا قوة۔ شاید اشتہار بنانے والی کمپنی یہ کہنا چاہتی تھی کہ ’میں اپنی بیٹی کے خوابوں کے بیچ کسی کو نہیں آنے دوں گی اور جراثیم کو تو بالکل بھی نہیں۔‘

مگر لگتا ہے کہ کمپنی کے جس ڈائریکٹر نے اشتہار کی منظوری دی ہو گی وہ یقینا باہر کی یونیورسٹی کا پڑھا ہو گا اور اردو کو گھر کی لونڈی سمجھتا ہو گا اور شاید اسی لیے اردو زبان کے ساتھ سلوک بھی اس نے لونڈیوں والا ہی کیا۔

جس ملٹی نیشنل کمپنی کا یہ اشتہار ہے، اس کی شاخیں 190 ممالک میں ہیں، 400 سے زائد برینڈز ہیں اور سالانہ بِکری 50 ارب یورو سے زیادہ ہے۔ ایسی کمپنی کا حال اگر یہ ہے کہ وہ مقامی زبان میں ٹھیک سے اشتہار بھی نہیں بنا سکتی تو کسی اور سے کیا گلہ۔

اگلی مثال خبروں کے ایک عالمی ادارے کی ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں ان میں انگریزی الفاظ کی ایسی غیر ضروری بھرمار ہوتی ہے کہ بندے کو سمجھ نہیں آتی کہ آخر یہ اردو میں پروگرام کرنے کا تکلف کر ہی کیوں رہے ہیں، سیدھی طرح انگریزی کیوں نہیں بولتے؟

ایسے ہی ایک پروگرام میں میزبان نے خواہ مخواہ انگریزی کے جو الفاظ استعمال کیے ان میں یوزرز، کراس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ایونٹس، ایکوریسی، لیمیٹیشن، وغیرہ شامل تھے جن کا اردو متبادل چوتھی جماعت کے بچے کو بھی معلوم ہے۔

اردو کے ساتھ یہی دست درازی روزانہ شام کو ٹی وی کے پروگراموں میں بھی ہوتی ہے، خاص طور سے اِن پروگراموں کے ابتدائیے میں، جسے عرف عام میں ’انٹرو‘ کہا جاتا ہے، جہاں میزبان بےدریغ انگریزی کے الفاظ بولتی/بولتا چلا جاتا ہے۔

اور تو اور اب اخبارات میں شائع ہونے والے مضامین میں بھی انگریزی کے وہ الفاظ لکھے جاتے ہیں جن کا اردو متبادل موجود ہے، جیسے کہ اگنور، ایشو، ٹریول۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گےکہ میں کس موضوع پر لکھنے بیٹھ گیا ہوں، یہاں ڈالر تین سو روپے کا ہوگیا، لوگ آٹے کے لیے اپنی جانیں گنوا رہے ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، سونے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ہزاروں لوگ روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے جا رہے ہیں اور میں اِس بات پر جز بز ہو رہا ہوں کہ ملک میں اردو زبان درست کیوں نہیں لکھی اور بولی جا رہی!

ایک لحاظ سے یہ اعترض درست بھی ہے، آج کل سیاست جس نہج پر ہے، مہنگائی جس عروج پرہے اور ملک میں تناؤ کی جو کیفیت ہے، اس میں زبان کے غلط استعمال پر پریشان ہونا ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص آئی سی یو میں ہو اور اِس بات پر غصے کا اظہار کرے کہ ہسپتال والوں نے آئی سی یو کا اردو ترجمہ کیوں نہیں لکھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کسی حد تک یہ بات درست ہے کہ گرما گرم حالات پر چٹ پٹا تبصرہ کیا جانا چاہیے کہ ’ریٹنگ‘ لینے کا یہی طریقہ ہے لیکن میری دیانت دارانہ رائے میں یہ تبصرہ کرنے والے مجھ سے بہتر لوگ موجود ہیں اور ویسے بھی یہ حالات ہماری زندگی میں تبدیل نہیں ہوں گے لہٰذا اِن پر کسی بھی وقت لکھا جا سکتا ہے۔

اردو کا معاملہ مختلف ہے۔ جس قسم کا بگاڑ اس میں پیدا ہو رہا ہے اگر اس کی آج نشاندہی نہ کی گئی تو پھر ہم اِس خوبصورت زبان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس ضمن میں رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کر دی ہے جس میں اب نوجوان تو کیا اچھے خاصے جہان دیدہ لوگ بھی اس کا وہ حشر کرتے ہیں کہ بندہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ السلام علیکم لکھنے کا تردد کرنے کی بجائے یار لوگ  aoa لکھ کر بھیج دیتے ہیں اور اِن میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن سے پہلے کوئی جان پہچان نہیں ہوتی، میں بھی انہیں جواب میں w لکھ دیتا ہوں۔ اب ڈھونڈتے رہو اِس کا مطلب۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ زبان کا ارتقا اسی طرح ہوتا ہے، ویسے بھی اردو ایک ’لشکری‘ زبان ہے، اِس میں دوسری زبانوں کے الفاظ سمونے کی صلاحیت موجود ہے لہٰذا زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

یہ دلیل اس وقت تک تسلیم کی جا سکتی ہے جب تک ہم اردو میں انگریزی کے ان الفاظ کو استعمال نہ کریں جن کا آسان متبادل موجود ہے۔ اگر ہم ’نظر انداز‘ کی جگہ ’اگنور‘ لکھنا شروع کر دیں گے تو اردو کا لفظ مردہ ہو جائے گا۔

البتہ سکول، لاؤڈ سپیکر، ٹی وی، ریڈیو، سکوٹر جیسے الفاظ اب اردو کا حصہ بن چکے ہیں اور اِن کا اردو متبادل زبان کو بدذئقہ بنا سکتا ہے۔ جیسے ایک جگہ میں نے ریلوے سٹیشن کا ترجمہ ’چھک چھک کا اڈہ‘ پڑھا تھا جو کہ ظاہر ہے مضحکہ خیز بات ہے۔

اسی طرح ہم سکول کو اردو میں مدرسہ لکھ سکتے ہیں مگر آج کل مدرسے سے مراد روایتی سکول کی بجائے دینی تعلیم دینے والی جگہ سمجھی جاتی ہے لہٰذا یہ نکتہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔

سب سے زیادہ کوفت مجھے ٹی وی اشتہارات دیکھ کر ہوتی ہے، اِن میں انگریزی کے الفاظ یوں ٹھونسے ہوتے ہیں جیسے کسی زمانے میں ویگنوں میں مسافر ٹھونسے جاتے تھے۔ اور اب تو انگریزی کے ساتھ ساتھ زبان کا بے دریغ غلط استعمال بھی معمول کی بات بن گئی ہے۔

جس اشتہار کی میں نے شروع میں مثال دی، مجھے یقین ہے کہ زیادہ تر لوگوں کو اس میں کوئی غلطی نظر ہی نہیں آئی ہو گی جسے دیکھ کر میں ہلکان ہوا جا رہا ہوں۔

اب یہ اپنے اپنے مزاج کی بات ہے، کچھ لوگ ملک کے آئین کو روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور ان کے سر پر جوں نہیں رینگتی اور کچھ محض زبان کے غلط استعمال سے ہی خلجان میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

آئین توڑنے والے کو تو میں کچھ کہہ نہیں سکتا کہ پَر جلتے ہیں، البتہ زبان کے غلط استعمال پرمیرا دل کرتا ہے کہ غلط بولنے والے کی زبان کھینچ لوں، اسی لیے آج کا کالم لکھا، اجازت دیجیے aoa۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ