نعمت خانہ: ’اردو زبان کی عظمت کا بین الاقوامی اعتراف‘

خالد جاوید کے ناول کو 66 لاکھ روپے مالیت کا ایوارڈ آج تک کسی بھی اردو کتاب کو ملنے والا سب سے بڑا انعام ہے۔

آج تک کوئی اردو ناول جے سی بی ایوارڈ کے لیے نامزد تک نہیں ہوا (عرشیہ پبلی کیشنز)

اردو کی ادبی دنیا میں ایک احساس کمتری جڑ پکڑ چکا تھا کہ جب بھی بین الاقوامی ایوارڈز کا میلہ سجے ہمارے ہاتھ خالی رہ جاتے ہیں، جس کے بعد لوگ اردو زبان کی تنگ دامنی کا نوحہ پڑھتے اور یہاں تک کہ اردو ادیبوں کی تخلیقی صلاحیتوں پر ہی سوال اٹھا دیے جاتے۔

یہ جمود خالد جاوید کے ناول ’نعمت خانہ‘ کے انگریزی ترجمے نے سنیچر کی شام توڑا جس پر مصنف اور اردو ادب کی پوری برادری خوشی سے نہال ہے۔

’نعمت خانہ‘ خالد جاوید کا شاہکار ہے جس کا انگریزی ترجمہ باراں فاروقی نے کیا تھا۔ سنیچر کی شام انہیں جے سی بی ادبی ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 25 لاکھ انڈین روپے (66 لاکھ پاکستانی روپے) مالیت والا جے سی بی ایوارڈ انڈیا کا سب سے بڑا ادبی انعام ہے جو ہر سال انڈیا کی تمام زبانوں میں لکھے گئے ناولوں پر دیا جاتا ہے۔ اس سے قبل آج تک اردو کا کوئی ناول اس ایوارڈ کے لیے شارٹ لسٹ تک نہیں ہوا، جب کہ اس سال اسی انعام کی دوڑ میں گیتانجلی شری کا ناول بھی شامل تھا جسے پہلے ہی بکر پرائز کے لیے فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید کا کہنا تھا کہ ’یہ پوری اردو دنیا کی کامیابی ہے اور لوگ جس اپنائیت سے اسے منا رہے ہیں وہ ناقابل بیان خوشی ہے۔ اگرچہ بحثیت مجموعی جشن کا سماں ہے مگر کچھ حاسدین گہرے صدمے سے دوچار ہیں جن کی بے چارگی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ خالد جاوید کی کامیابی نہیں بلکہ اُس زبان کی کامیابی ہے جس میں وہ خود بھی لکھ رہے ہیں۔‘  

ایوارڈ وصول کرتے ہوئے جاوید نے کا کہنا تھا کہ ’انہیں کبھی امید نہیں تھی کہ ان کا یہ ناول یہ اعزاز حاصل کرے گا۔ ہم ہر ایک دن اور اپنی دنیا کے مختلف کونوں میں خوشی تلاش کرتے ہیں۔ لیکن آج میں نے حقیقی خوشی محسوس کی ہے۔ میں نے یہ ناول 2014 میں لکھا تھا اور آج اسے تسلیم کیا گیا ہے۔‘

خالد جاوید نے مزید کہا کہ ’باراں فاروقی کی بے پناہ مہارت کی وجہ سے ناول کو ایوارڈ کے لیے تسلیم کیا گیا ہے۔‘  

2018 سے شروع ہونا والا جے سی بی ادبی ایوارڈ سالانہ بنیادوں پر کسی ایسے انڈین  مصنف کو دیا جاتا ہے جس کی فکشن کی کتاب اس سال انگریزی میں یا انگریزی ترجمے کی شکل میں شائع ہوئی ہو۔ فیصلہ ساز کمیٹی ابتدائی طور پر دس کتابیں منتخب کرتی ہے جن میں سے پانچ شارٹ لسٹ کی جاتی ہیں۔ جیتنے والے مصنف کو 25 لاکھ مالی انعام اور ٹرافی تھمائی جاتی ہے۔ اگر کتاب کسی دیگر زبان سے ترجمہ ہو تو مترجم کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اسے اضافی 10 لاکھ روپے دیے جاتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید کا کہنا تھا کہ ’تقریباً ڈیڑھ درجن ریاستوں اور 20 زبانوں کے بہترین معاصر ادب کے ساتھ مقابلہ تھا۔ ان سب کے درمیان سے ایوارڈ جیت لے جانا اردو زبان کی عظمت کا ایک بین الاقوامی اعتراف ہے۔‘

2014 میں شائع ہونے والا نعمت خانہ گڈو میاں کی کہانی کے ذریعے ایسے سماجی و ثقافتی احوال کا بیان ہے جو دور کہیں ماضی میں کھو چکا۔ ایک عظیم فلسفیانہ بیانیہ اسلوب میں بہتے ہوئے ہم گڈو میاں کے ساتھ ان کے آبائی گھر کے باورچی خانے میں جا اترتے ہیں۔ اب یہاں خوراک اور زندگی سے جڑی افسردہ، بدصورت اور بھیانک جمالیات سے واسطہ پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے زندگی کے متعلقات میں اصل اہمیت تو ان چیزوں کی ہے جنہیں ہم مکروہ اور غلیظ کہتے ہوئے ٹھکرا دیتے ہیں۔

ناول کی مترجم باران فاروقی انگریزی ترجمے کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ نعمت خانہ ’اس خوف، بیماری اور ناکامی کے شعور سے لتھڑا ہوا ہے جس کے پنجے انسانی فطرت کے اندر موجود شر میں پیوست ہیں۔‘

یہ چیز ان کے افسانوں اور ناولوں میں تواتر سے سامنے آتی ہے۔ اثبات میں شائع ہونے والا شمس الرحمن فاروقی کا مضمون ’موت اور موت کی کتاب‘ دراصل خالد جاوید کے فکشن کی مجموعی فضا کا احاطہ کرتا ہے۔

 فاروقی صاحب لکھتے ہیں کہ ’کھانا، ہضم کرنا، دنیا کی غلاظت میں اضافہ کرنا، عمل مباشرت، سلسلہ تناسل، باپ اور ماں سے محبت اور نفرت، اور زندگی کے معاملات کے بارے میں حیرت اور حسرت، اپنے اندر کی کمزوری یا بیماری، یہ باتیں ہم عام طور پر دوسروں سے، اور اکثر خود سے بھی چھپائے رہتے ہیں۔ خالد جاوید کا افسانہ اصرار کرتا ہے کہ ہم ان باتوں سے آنکھ ملائیں، اور پہچانیں کہ یہ سب چیزیں کسی نہ کسی سطح پر ہمارا ہی کوئی روپ یا ہمارا ہی کوئی رنگ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خالد جاوید کو پڑھ کر ان لوگوں کو گھبراہٹ اور وحشت ہوتی ہے جو افسانے میں زندگی کے صرف اخباری وجود کابیان اور وہ بھی سادہ اور یک رنگ بیان پسند کرتے ہیں۔‘

 اس حوالے سے انڈیپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے خالد جاوید کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں کی مروجہ جمالیات غزل کی شاعری کی ہیں معاشرے کی نہیں۔ غلاظت تو معاشرے اور انسان کے ساتھ ہر وقت موجود ہے، اس کی زندگی کا لازمی حصہ ہے۔  میرے خیال میں جو جمالیات آپ کو ہلا کر نہ رکھ دے، وجودی جہات آشکار نہ کر سکے وہ خاص طور پر معاصر فکشن کے لیے بالکل کارگر نہیں۔‘

خود پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں کچھ حسد کا عمل دخل ہے اور کچھ ناسمجھی۔ میرے جہاں میرے سراہنے والے میری طاقت ہیں وہیں حاسدین بھی میری طاقت ہیں۔ جہاں تک ناسمجھی کی بات ہے تو انہیں پتہ ہی نہیں کہ دیہی منظر نگاری اور سیدھا سادھا بیانیہ کب کا ترک ہو چکا۔ میں ان کے لیے دعائے خیر ہی کر سکتا ہوں جو لگتا نہیں کہ ان کا کچھ بگاڑ سکے گی۔‘

معاصر فکشن میں خالد جاوید کا قد و قامت روز بروز بلند تر ہو رہا ہے۔ بین الاقوامی پذیرائی کا سلسلہ اب شروع ہوا مگر مقامی سطح پر ان کی غیر معمولی کنٹری بیوشن کو بہت پہلے سے سراہا جا رہا ہے۔

ممتاز معاصر نقاد ناصر عباس نیر سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ میں خالد جاوید کا بہت پہلے سے قائل ہوں۔ میں نے چھ سات برس قبل رائے دی تھی اور آج بھی اس پر قائم ہوں کہ ’مابعد جدید عہد کی جیسی گہری بصیرت، اس کے تضادات کا جیسا علم، اس کی حقیقت کے تشکیلی ہونے کا جیسا ادراک اور اسے فکشن کی زبان میں پیش کرنے کا جیسا ہنر خالد جاوید کو حاصل ہے، وہ اردوکے فی الوقت کسی فکشن نگار کو نہیں، اس پر مستزاد ان کے فکشن کی روح رواں وجودی بصیرت جس میں تاریکی موت اور ان کے سلسلے میں جدوجہد خالد جاوید کے فکشن کی خاص پہچان ہے۔ زبان اور حقیقت کے نازک پیچیدہ اور سخت متضاد تعلق کا احساس بھی ان کی تحریروں کی انفرادیت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فکشن نگار اور نقاد سید کاشف رضا اپنے مضمون ’خالد جاوید کا نعمت خانہ‘ میں مذکورہ ناول کی سب سے بڑی خوبی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس نے زندگی کو سمجھنے سمجھانے کے لیے ایک نئے تصور کو تشکیل دیا اور پھر اسے بھرپور طریقے سے پھیلایا اور یہ تصور ناول میں اپنے پورے جواز کے ساتھ آیا۔‘ زندگی کے نئے تصور کی تشکیل اور اسے پوری گہری اور وسعت سے سمیٹ لینے میں خالد جاوید کا ایک موثر ہتھیار ان کی نثر ہے۔ ان کی نثر کے حوالے سے فاروقی صاحب  لکھتے ہیں کہ ’خالد جاوید کی نثر کیکڑے کی طرح آگے بڑھتی ہے ۔ دائیں بائیں اور آگے پیچھے سب کچھ سمیٹتے ہوئے۔ ان کی نثر ہر قسم کی ناپسندیدہ بات کا بوجھ اٹھانے پر بھی قادر ہے۔ اس نثر کا آہنگ بہت سست رفتار ہےـ‘ 

نثر کا یہ سست رو آہنگ قاری کو پھانسنے کا ایک پرفریب جال محسوس ہوتا ہے۔ قاری جب پوری طرح ان کی نثر کے سحر میں کھو چکا ہو تو وہ چپکے سے اسے مرکزی کردار کی روح میں اتار کر تادیر گھسیٹتے ہیں۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ ناول لکھنے سے پہلے یہ ساری منصوبہ بندی کر چکے ہوتے ہیں؟ انڈپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے۔ ’ابتدائی دو تین صفحات کی منصوبہ بندی ہوتی ہے یا اختتام کی مگر ناول کا مکمل پلاٹ میرے ذہن میں نہیں ہوتا۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’ناول کا اختتام ایک منزل کی طرح ہے جہاں مجھے پہنچنا ہے مگر معلوم نہیں کہ کن راستوں سے۔ میرے لیے منزل نہیں راستے اہم ہیں اور وہ راستے مختلف ٹیکنیکس ہیں۔ فکشن ٹیکنک کے سوا کچھ نہیں۔‘ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ادب