ہم افغان خواتین کے حقوق کے لیے پرعزم ہیں: افغان طالبان

افغان طالبان نے اقوام متحدہ کی جانب سے ملک میں خواتین پر عائد تمام پابندیوں کو ’فوری واپس لینے‘ کے بیان اور ایک قرار داد منظور کیے جانے پر کہا کہ وہ اسے افغانستان کا اندرونی سماجی مسئلہ سمجھتے ہیں جس کا بیرونی ممالک پر کوئی اثر نہیں۔

افغان خواتین دو ستمبر 2021 کو کابل کی ایک گلی سے گزرتے ہوئے (اے ایف پی)

افغان طالبان نے اقوام متحدہ کی جانب سے ملک میں خواتین پر عائد تمام پابندیوں کو ’فوری واپس لینے‘ کے بیان اور ایک قرار داد منظور کیے جانے پر جمعے کو کہا کہ وہ اسے افغانستان کا اندرونی سماجی مسئلہ سمجھتے ہیں جس کا بیرونی ممالک پر کوئی اثر نہیں۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعرات کو خاص طور پر اقوام متحدہ کے لیے کام کرنے والی افغان خواتین پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے ایک قرارداد منظور کی، جس میں طالبان حکام پر زور دیا گیا کہ وہ خواتین کے خلاف تمام پابندیوں کے اقدامات کو ’فوری واپس لیں۔‘

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سلامتی کونسل کے تمام یعنی 15 ارکان کی متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد میں کہا گیا کہ اپریل کے شروع میں اعلان کردہ پابندی ’انسانی حقوق اور انسانی اصولوں کو مجروح کرتی ہے۔‘

عالمی ادارے نے طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’ان پالیسیوں اور طریقوں کو فوری طور پر تبدیل کیا جائے جو خواتین اور لڑکیوں کے انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں سے لطف اندوز ہونے پر قدغن لگاتے ہیں۔‘

افغان طالبان نے اس قرارداد پر ردعمل میں ایک بیان جاری کیا ہے، جس کے مطابق ’امارت اسلامیہ افغانستان کی وزارت خارجہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2681 کا خیرمقدم کرتی ہے، جس میں افغانستان کی خود مختاری، آزادی، علاقائی سالمیت اور قومی یکجہتی کے لیے سلامتی کونسل کے مضبوط عزم کی تجدید کی بات کی گئی ہے۔‘

بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کا مسئلہ غیر فطری اور  اس پر عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ہے۔

’افغانستان کئی دہائیوں سے جنگوں کی لپیٹ میں ہے، جن میں سے اکثر غیر ملکی طاقتوں نے مسلط کیے۔

’جنگ کی صورت حال سے نکلنے کے بعد ملک کی تعمیر نو، پابندیاں اور معاشی تحدیدات غیر مشروط طور پر ہٹانے اور ملک کو انسانی اور ترقیاتی امداد کی فراہمی کی ضرورت ہے۔‘

افغان طالبان نے مزید کہا کہ ملک پر عائد پابندیاں ہٹا کر اس کی موسمیاتی تبدیلی، اقتصاد، انفراسٹرکچر اور ترقیاتی ضروریات پوری کرنے سے ہی جاری بحران کو حل کیا جا سکتا ہے۔

بیان کے مطابق: ’افغانستان میں افغان خواتین کے کام پر پابندی کے فیصلے پر اقوام متحدہ کی مذمت کو مدنظر رکھنے کے ساتھ، ہم ایک بار پھر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اور رکن ممالک کی جانب سے اس پختہ عزم کے مطابق کہ افغانستان کے مستقل ترجیحات کا احترام کیا جائے گا اسے افغانستان کا اندرونی سماجی مسئلہ سمجھتے ہیں جس کا بیرونی ممالک پر کوئی اثر نہیں ہے۔‘

’ہم افغان خواتین کے حقوق کے لیے پرعزم ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اختلافات کو سیاست کی نذر کرنے کی بجائے ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔‘

اقوام متحدہ کی قرارداد میں تعلیم، ملازمت، نقل و حرکت کی آزادی اور ’عوامی زندگی میں خواتین کی مکمل، مساوی اور بامعنی شرکت تک رسائی کا حوالہ دیا گیا ہے۔‘

سلامتی کونسل نے ’تمام ریاستوں اور تنظیموں پر زور دیا کہ وہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں تاکہ ان پالیسیوں اور طریقوں کو فوری طور پر تبدیل کرنے کو فروغ دیا جا سکے۔‘

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن اور اقوام متحدہ کی دیگر ایجنسیوں کی ’سنگین معاشی اور انسانی صورتحال‘ اور ’مسلسل موجودگی کی اہم ضرورت‘ پر زور دیا۔

اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی سفیر لانا ذکی نصیبہ نے کہا کہ ’دنیا خاموش نہیں بیٹھے گی کیوں کہ افغانستان میں خواتین کو معاشرے سے مٹا دیا گیا ہے۔‘

لیکن قرارداد کے حق میں ان کے ملک کے ووٹ کے باوجود، روسی سفیر واسیلی نیبنزیا نے متن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کافی حد تک درست نہیں اور مغرب کو موردِ الزام ٹھہرایا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں شدید افسوس ہے اور مایوسی ہے کہ مغربی ساتھیوں کی طرف سے اقدامات اور زیادہ جامع نقطہ نظر اور متن کو مسدود کر دیا گیا ہے۔‘

انہوں نے 2021 میں طالبان کے ملک پر حکمرانی قائم کرنے کے بعد امریکہ کی طرف سے منجمد کیے گئے افغان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے اثاثوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ اتنے مخلص ہیں تو ملک سے چوری کیے گئے اثاثوں کو واپس کیوں نہیں کرتے اور وہ بھی بغیر کسی پیشگی شرط کے۔‘

اقوام متحدہ نے چار اپریل کو اعلان کیا تھا کہ طالبان حکام نے دسمبر میں خواتین پر ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کرنے کے بعد، ملک بھر میں افغان خواتین پر اقوام متحدہ کے دفاتر کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

امدادی ایجنسیوں کے مطابق، کئی این جی اوز نے احتجاجاً اپنی تمام کارروائیاں معطل کر دی تھیں جس سے افغانستان کے تین کروڑ 80 لاکھ شہریوں پر مزید مصائب مسلط ہوئے، جن میں سے نصف کو پہلے ہی بھوک کا سامنا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا