ایک سابق صدر، ایک بدنام کامیڈین، ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن، ایک فوت میوزک موگل اور نیو یارک سٹی کے سابق میئر۔
نیویارک میں ایڈلٹ سروائیورز ایکٹ منظور ہونے کے چھ ماہ بعد جس نے بعض جنسی استحصال کے لیے حدود کے قانون کو ختم کیا، سیاست، کاروبار، تفریح اور کھیل کی دنیا کے طاقتور مردوں کو سول عدالت میں ان کے خلاف الزامات کا جواب دینا پڑا ہے۔
بہت سے معاملات میں ان کے بدتمیزی کے الزامات کئی دہائیوں سے جانے پہچانے تھے، تاہم الزام لگانے والوں کے پاس قانونی چارہ جوئی کا کوئی راستہ نہیں تھا اور وہ اکثر انتقامی کارروائی سے خوفزدہ رہتے تھے۔
’تاریخ جنسی زیادتی سے بچ جانے والوں کی خاموشی سے بھری ہے، لیکن جب جنسی زیادتی کا ارتکاب کرنے والا شخص امیر، طاقتور، مشہور ہوتا ہے تو اس کے پاس اس شخص کو جسے انھوں نے نقصان پہنچایا خاموش کرنے کے لیے اور بھی زیادہ ہتھیار ہوتے ہیں،‘ لِز رابرٹس، چیف ایگزیکٹو آف ویکٹم ایڈوکیسی غیرمنافع سیف ہورائزن نے دی انڈپینڈنٹ کو ایک انٹرویو میں بتایا۔
’لہذا ایڈلٹ سروائیورز ایکٹ واقعی ایک کھڑکی کھول کر میدان کو ہموار کرنے میں مدد کرتا ہے، یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ صدمے میں وقت لگتا ہے۔‘
اس قانون کو، جس نے متاثرین کے لیے نیویارک میں افراد یا اداروں کے خلاف دیوانی مقدمے دائر کرنے کے لیے ایک سال کی کھڑکی کھول دی، قطع نظر اس کے کہ مبینہ جرم کب ہوا، اسے جنسی زیادتی اور بدتمیزی کے حساب کتاب میں جو 2017 میں کافی پھیل گیا تھا ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا۔
بچ جانے والوں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ چونکہ ای جین کیرول نے اس ماہ کے شروع میں ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعہ جنسی زیادتی اور ہتک عزت کا مقدمہ جیتا ہے، خواتین کی ایک ’زیادہ تعداد‘ مقدمہ دائر کرنے کے لیے آگے آئی ہے۔
کیری گولڈ برگ، سروائیورز لا پروجیکٹ کی شریک بانی، نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’ہم نے متاثرین میں ایک ٹھوس اور انتہائی غیرمعمولی اضافہ دیکھا جو ہمارے پاس برسوں پہلے آئے تھے اور ہم نے کیس کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، وہ پچھلے ہفتے اپنے امکانات کے جائزے کے لیے واپس آئے۔‘
مس کیرول نے اس ہفتے انسائیڈر کو بتایا کہ ان سے ’سینکڑوں‘ متاثرین نے رابطہ کیا اور ان سے مشورہ طلب کیا تھا کہ ان کے مبینہ مشیروں پر مقدمہ کیسے چلایا جائے۔
نیویارک آفس آف کورٹ ایڈمنسٹریشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 24 نومبر کو ایکٹ کے نافذ ہونے کے بعد سے 136 مدعیان نے 106 مقدمے دائر کیے ہیں۔
اور 12 ماہ کی مدت کے آدھے میں جس میں زندہ بچ جانے والے مقدمہ دائر کر سکتے ہیں، وکلا اور وکیل توقع کرتے ہیں کہ نومبر کی آخری تاریخ کے قریب آتے ہی اس تعداد میں نمایاں اضافہ ہوگا۔
ایڈلٹ سروائیورز ایکٹ کو 2019 کے چائلڈ وکٹمز ایکٹ (CVA) کے طرز پر بنایا گیا تھا، جس نے تقریباً 11,000 افراد اور اداروں جیسے کیتھولک چرچ، بوائے سکاؤٹس اور سکول کے خلاف بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر مقدمے کیے ہیں۔
کووڈ-19 وبائی امراض کی وجہ سے دائر کیے جانے والے مقدمات کے لیے ابتدائی دو سال کی مدت کو 12 ماہ کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔
توقع کی جاتی ہے کہ جیلوں، گرجا گھروں، سکولوں، یونیورسٹیوں اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں میں مبینہ طور پر بدسلوکی کا شکار خواتین کی جانب سے اداروں کے خلاف مقدمات دائر کی جائیں گے۔
یہاں دی انڈپینڈنٹ کچھ ہائی پروفائل مقدمات کا جائزہ لی رہا ہے جو ایکٹ کے تحت لائے گئے ہیں۔
سابق ایلے ایڈوائس کالم نگار ای جین کیرول، جنہیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر مقدمہ چلانے کے بعد جیوری نے پانچ ملین ڈالرز دیے تھے، گذشتہ نومبر میں جب بل پاس ہوا تو دعویٰ دائر کرنے والے پہلے افراد میں شامل تھیں۔
اپنی گواہی کے دوران مس کیرول نے وضاحت کی کہ بہت سے متاثرین کی طرح، وہ اس وقت سامنے آنے سے ہچکچا رہی تھیں کیونکہ وہ شرمندہ تھیں، انتقام سے ڈرتی تھیں، اور مہنگے مین ہٹن ڈپارٹمنٹ سٹور برگڈورف گڈمین میں 90 کی دہائی کے وسط میں ٹرمپ کے حملے کے لیے خود کو مورد الزام ٹھہراتی تھیں۔
ٹرمپ کے اٹارنی جو ٹاکوپینا نے مقدمے کی سماعت کے دوران کیرول کے دعوؤں کو جارحانہ انداز میں یہ سوال کرتے ہوئے بدنام کرنے کی کوشش کی کہ وہ پولیس کے پاس کیوں نہیں گئیں، مدد کے لیے چیخیں کیوں نہیں یا انہوں نے اپنے کالموں کے قارئین کو دیے گئے مشورے پر خود عمل کیوں نہیں کیا۔
ایسا لگتا ہے کہ ان کا رویہ ایک پرانے دور سے تھا، اس گہری سمجھ کو نظر انداز کرتے ہوئے جوکہ معاشرے میں جنسی زیادتی کی نوعیت کے بارے میں اب موجود ہے۔ نو رکنی جیوری نے بالآخر سابق صدر کو بیٹری اور ہتک عزت کا ذمہ دار پایا۔ مسٹر ٹرمپ فیصلے کے خلاف اپیل کر رہے ہیں۔
متاثرین کے حقوق کی ایک ممتاز وکیل مشیل سمپسن ٹیوگل نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کیرول جیسے ہائی پروفائل کیسز اکثر دوسروں کے لیے اپنی کہانیوں کے ساتھ سامنے آنے میں مدد کرتے ہیں۔
سمپسن ٹیوگل نے کہا کہ ’ای جین کیرول کی ہمت اور استقامت ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اپنے کیس کو سخت جانچ پڑتال کے دوران آگے بڑھانے سے یہ پیغام دیتا ہے کہ طاقتور ترین افراد کو بھی ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جا سکتا ہے۔‘
’مجھے امید ہے کہ یہ فیصلہ دوسرے متاثرین کو اپنے ساتھ بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف انصاف مانگنے کی ہمت دے گا۔‘
سروائیورز لا پراجیکٹ کی گولڈ برگ نے دی انڈپینڈنٹ کو ایک بیان میں بتایا کہ کیرول کے فیصلے نے ’متاثرین کو یہ یقین کرنے کے لیے حوصلہ دیا ہے کہ ایک مثبت قانونی نتیجہ ممکن ہے۔
’اس نے امید پیدا اور اسے مضبوط کیا ہے اور سول نظام انصاف کی بےمثال طاقت پر یقین پیدا کیا ہے۔‘
احمت ارٹیگن
اے ایس اے کے تحت درج مقدمات کی پہلی قسط کے درمیان اٹلانٹک ریکارڈز اور اس کے بانی احمت ارٹیگن کے خلاف جنسی زیادتی اور ہراساں کرنے کا دعویٰ تھا۔
سابق ٹیلنٹ سکاؤٹ جان روگ نے مقدمے میں الزام لگایا کہ 2006 میں انتقال کر جانے والے ارٹیگن نے نومبر 2022 میں رولنگ سٹون کے مطابق میوزک لیبل کے لیے 1984 میں کام شروع کرنے کے بعد ان کو سالوں تک نشانہ بنایا تھا۔
مس روگ نے مقدمے میں الزام لگایا کہ طاقتور میوزک کے شو منعقد کروانے والے نے ان کے سامنے متعدد بار مشت زنی کی، ڈیجیٹل طور پر ان انہیں نشہ آور چیز پلائی اور جنسی زیادتی کی۔
اس نے مزید الزام لگایا کہ اٹلانٹک ریکارڈز نے احمت ارٹیگن کے بدتمیزی سے نمٹنے کے لیے ’laissez faire‘ یعنی پروا نہ کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔
ایک ہفتہ بعد اٹلانٹک ریکارڈز کے دوسرے سابق ملازم ڈوروتھی کارویلو نے ارٹیگن کی جائیداد کے خلاف جنسی زیادتی، زبردستی چھونے، مجرمانہ اور شہری سازش اور جان بوجھ کر اور لاپرواہی سے جذباتی تکلیف پہنچانے کا مقدمہ دائر کیا ۔
2018 میں کارویلو نے اپنی یادداشت Anything for a Hit: An A&R Woman's Story of Surviving the Music Industry شائع کی، جس میں ارٹیگن سے ہونے والی بدسلوکی اور روزانہ کی جنسی ہراسانی کی تفصیل دی گئی تھی۔
پچھلے سال کارویلو نے موسیقی کی صنعت میں جنسی استحصال سے بچ جانے والوں کی مدد کے لیے فیس دی میوزک ناؤ مہم کا آغاز کیا۔
گذشتہ موسم خزاں میں رولنگ سٹون کو ایک بیان میں اٹلانٹک کے مالکان وارنر میوزک گروپ نے کہا کہ بدانتظامی کے الزامات کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لیا جا رہا ہے۔
’یہ الزامات تقریباً 40 سال پرانے ہیں، اس سے پہلے کہ ڈبلیو ایم جی اپنی ذات میں ایک واحد کمپنی تھی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ان لوگوں سے بات کر رہے ہیں جو اس وقت وہاں موجود تھے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بہت سے اہم افراد فوت ہو چکے ہیں یا ان کی عمر 80 یا 90 کی دہائی میں ہے۔‘
وارنر میوزک گروپ کے ترجمان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ کوئی تبصرہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ کیس ابھی عدالتوں میں ہے۔
ارٹیگن کی بیوہ میکا ارٹیگن کے ایک وکیل نے گذشتہ سال کہا تھا کہ ان کے خلاف کوئی بھی دعویٰ ’بے بنیاد ہے اور اس کا بھرپور طریقے سے دفاع کیا جائے گا۔‘
ارٹیگن نے 1947 میں ہرب ابرامسن کے ساتھ مل کر اٹلانٹک ریکارڈز کی بنیاد رکھی اور اریتھا فرینکلن، لیڈ زیپلن اور رے چارلس کے ریکارڈ جاری کیے۔
بل کوسبی
تفریحی صنعت سے تعلق رکھنے والی پانچ خواتین نے دسمبر میں امریکی کامیڈین اداکار بل کوسبی کے خلاف مقدمہ دائر کیا اور الزام لگایا کہ چار دہائیوں کے عرصے میں ان کے ساتھ بدسلوکی یا ان پر حملہ کیا گیا۔
مقدمے میں این بی سی اور ٹیلی ویژن کمپنیوں کافمین آسٹوریا سٹوڈیوز اور کارسی ورنر ٹیلی ویژن کو بھی مبینہ جنسی حملوں کے لیے ’مجرم اور ذمہ دار‘ قرار دیا گیا ہے۔
پانچوں الزامات لگانے والے — للی برنارڈ، ایڈن ٹرل، جیول گیٹنز، جینیفر تھامسن اور سنڈرا لاڈ — سیٹ پر یا شوبز حلقوں کے ذریعے کوسبی سے ملیں۔
جارڈن رٹسکی نے، جو پانچ الزامات لگانے والوں کی نمائندگی کر رہے ہیں، دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مسٹر کوسبی نے حال ہی میں عدالت میں دعووں کا جواب دیا تھا اور کیس کو خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔
اپنے مقدمے میں نامزد تینوں کمپنیوں نے ان مقدمات کی مخالفت کرتے ہوئے انہیں خارج کرنے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے کہا: ’ہمیں کافی یقین ہے کہ ہم کامیاب ہونے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ نیویارک کا عدالتی نظام کو، جو پہلے ہی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے کیسز کے ایک بڑے بیک لاگ سے نمٹ رہا ہے، قانونی چارہ جوئی کی اضافی لہر سے نمٹنے میں ایک ’بڑے ٹاسک‘ کا سامنا ہے۔
مسٹر رٹسکی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عدالت بیک لاگ سے نمٹنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وہ مشکل کیسز ہیں، ان کا ایک جذباتی عنصر ہے اور کیسز جتنے لمبے عرصے تک چلتے ہیں، متاثرین کو اس لمحے میں اتنا ہی زیادہ جینا پڑتا ہے اور اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ اسے کیسے حل کیا جائے گا۔‘
مسٹر کوسبی کے ترجمان اینڈریو وائٹ نے دسمبر میں کہا تھا کہ ’الزام لگانے والوں نے تفریح دینے والے کے خلاف ایک غیرسنجیدہ شہری مقدمہ دائر کرنے کے لیے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔‘
کوسبی نے 2018 میں جنسی زیادتی کے الزام میں پنسلوانیا ریاست کی سپریم کورٹ کے ذریعے سزا کالعدم قرار دینے سے قبل تقریباً تین سال جیل میں گزارے۔
جیفری ایپسٹین
دسمبر کے اواخر میں جیفری ایپسٹین کے دو مبینہ متاثرین نے دیوانی مقدمے میں دعویٰ کیا تھا کہ ان پر اپر ایسٹ سائڈ ٹاؤن ہاؤس میں حملہ کیا گیا تھا جب اسے مساج دینے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔
ایپسٹین کے خلاف اس ایکٹ کے تحت لائے جانے والے یہ پہلے کیس تھے جن سے قبل کم از کم 10 چائلڈ سروائیور ایکٹ کے تحت درج ہوئے۔
ایپسٹین نے نیویارک، فلوریڈا، نیو میکسیکو اور یو ایس ورجن آئی لینڈ میں اپنی رہائش گاہ میں کئی دہائیوں تک نوجوان لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی کی۔
2019 میں جنسی سمگلنگ کے الزامات پر مقدمے کے انتظار کے دوران حراست میں اس کی موت کے بعد سے اس بدنام پیڈو فائل نے اس کے جنسی استحصال کے 125 سے زیادہ متاثرین کو 160 ملین ڈالرز سے زیادہ کی ادائیگی کی ہے۔
مائیک ٹائسن
جنوری میں سابق ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپئن 56 سالہ مائیک ٹائسن پر 1990 کی دہائی کے اوائل میں ایڈلٹ سروائیورز ایکٹ کے تحت دائر مقدمے میں ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ٹائسن سے اس کی ملاقات البانی، نیویارک کے ایک نائٹ کلب میں ہوئی اور بعد میں ایک لیموزین میں اس کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔
متاثرہ خاتون نے اپنے بیان حلفی میں کہا: ’میں جسمانی، نفسیاتی اور جذباتی چوٹ کا شکار ہوئی۔‘ وہ پانچ ملین ڈالر ہرجانے کی درخواست کر رہی ہیں۔
مقدمے میں کسی تاریخ کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ جب مبینہ عصمت دری سرزد ہوئی تھی۔ ٹائسن نے 1992 میں مقابلہ حسن کے مقابلہ میں ریپ کرنے کے الزام میں تین سال جیل میں گزارے۔
دا انڈپینڈنٹ نے ٹائسن سے ایک تفریحی شو کے ذریعے رابطہ کیا جس کی وہ میزبانی کرتے ہیں۔ اخبار نے خاتون کے وکیل ڈیرن سیل بیک سے تبصرہ کرنے کے لیے بھی کہا لیکن دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
روڈی جیولیانی
16 مئی کو 78 سالہ روڈی جیولانی کی ایک سابقہ معاون نے ’امریکہ کے میئر‘ پر 10 ملین ڈالر کا مقدمہ دائر کیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہیں ملازمت کے دوران جنسی حرکات کرنے پر مجبور کیا گیا۔
43 سالہ نوئل ڈنفی نے مقدمے میں الزام لگایا ہے کہ مسٹر جیولانی نے جنوری 2019 میں تعلقات عامہ کے مشیر کے طور پر ان کی خدمات حاصل کرنے کے فوراً بعد بدسلوکی شروع کر دی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ وہ اسے معمول کے مطابق جنسی تعلقات کے لیے مجبور کرتا تھا اور 20 لاکھ ڈالر میں صدارتی معافی فروخت کرنے کے قابل ہونے پر شیخی بگھاڑتا تھا۔
مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ ’وہ اکثر اس وقت کے صدر ٹرمپ سمیت ہائی پروفائل دوستوں اور کلائنٹس سے سپیکر فون پر فون کال کرتے ہوئے اورل سیکس کا مطالبہ کرتا تھا۔ جیولانی نے مسز ڈنفی کو بتایا کہ ٹیلی فون پر رہتے ہوئے انہیں اس طرز عمل میں مشغول ہونے میں مزہ آتا تھا کیونکہ اس سے وہ ’بل کلنٹن جیسا محسوس کرتا تھا۔'
مس ڈنفی نے الزام لگایا کہ نیو یارک سٹی کے سابق میئر، جو 2020 کے انتخابات کو الٹانے کے لیے مسٹر ٹرمپ کی کوششوں کا مرکز تھے، ’صبح، دوپہر اور رات‘ پیتے تھے اور ’مسلسل‘ ویاگرا لیتے تھے۔‘
قانونی چارہ جوئی میں کہا گیا ہے کہ مسٹر جیولانی نے انہیں ایک ملین ڈالر سالانہ ادا کرنے اور قانونی نمائندگی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ادائیگی کو اس وقت تک موخر کرنا پڑے گا جب تک کہ وہ سابق بیوی جوڈتھ سے اپنی طلاق کو حتمی شکل نہیں دے دیتے۔
مسٹر جیولیانی کے ترجمان ٹیڈ گڈمین نے گذشتہ ہفتے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ مسٹر جیولیانی نے ’الزامات کی واضح طور پر تردید کی۔‘
نیویارک کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز
یہاں تک کہ ریاست کا سب سے طاقتور قانون نافذ کرنے والا افسر بھی اس میں ملوث ہونے کے الزامات سے محفوظ نہیں رہا۔
دسمبر میں نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز پر ان کے سابق ڈپٹی چیف آف سٹاف ابراہیم خان کی جانب سے بوسہ لینے کے ناپسندیدہ الزامات کے بارے میں انتباہات کو نظرانداز کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔
سابق ڈپٹی پریس سیکریٹری صوفیہ کوئنٹنر کے ذریعہ لائے گئے مقدمے میں، مس جیمز اور ان کے دفتر پر الزام لگایا گیا تھا کہ مسٹر خان ’جنسی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی حملوں کا ارتکاب کرنے کا رجحان رکھتے ہیں‘ اور وہ ان کی خدمات حاصل کرنے اور نگرانی کرنے میں غفلت برت رہے تھے۔
مسٹر خان، جنہوں نے گذشتہ نومبر میں استعفیٰ دے دیا تھا جب ان کے خلاف مبینہ جنسی ہراسانی کی تحقیقات ہو رہی تھیں۔ انہوں نے کسی غلط کام سے انکار کیا ہے۔
مس کوئنتنار نے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ اٹارنی جنرل کے دفتر کو ان کے رویے سے آگاہ ہونا چاہیے تھا۔
گذشتہ سال این وائے ون کے ساتھ ایک انٹرویو میں مس جیمز نے کہا کہ وہ اپنے سابق چیف آف سٹاف سے مایوس ہیں۔
انہوں نے کہا: ’اس کے رویے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔ کوئی بھی نہیں۔ میں ان خواتین پر یقین رکھتا ہوں۔‘
نیویارک کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے دی انڈپینڈنٹ کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
© The Independent