خان صاحب، اب آپ نے گھبرانا نہیں ہے!

جیسے کل آپ تخت و تاج اچھال کے پچھلے دروازوں سے حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اسی طرح آپ کا تخت بھی اچھال دیا گیا۔

14 مئی 2023 کو لاہور میں تحریکِ انصاف کے حامی (اے ایف پی)

بائیس برس پہلے جس ’انقلابی پارٹی‘ کی بنیاد ’احتساب اور انصاف‘ کے چمکیلے نعروں پہ رکھی گئی تھی اور جسے تیسری اور سب سے بڑی جماعت بنا کر سیاست کے میدان میں ایک ایسی گھڑمس مچائی گئی تھی کہ شرفا اپنی پگڑیاں سنبھال کے ایک طرف ہو گئے تھے، آخر کار پرزے پرزے کر دی گئی۔

کسی کا کچھ نہیں گیا۔ نقصان عوام نامی اسی خربوزے کا ہوا جس نے اس بار اسٹیبلشمنٹ نامی چھری پہ خود گر کے ایک بار پھر اپنے ساتھ وہی سلوک کروایا جو اس چھری کے گرنے سے ہوتا آیا تھا۔

’الیکٹ ایبلز‘ جس پتلی گلی سے آئے تھے اسی پتلی گلی سے نکل لیے۔ لیڈر شپ کہتی ہے ہم ان لوگوں کو جانتے ہی نہیں، یہ آواز ہماری نہیں، یہ الفاظ ہمارے نہیں، یہ شکل بھی ہماری نہیں اور ہم تو سرے سے سیاست دان ہی نہیں۔ ہم تو ایسے ہی آ گئے تھے، دیکھ لیا اب چلتے ہیں سلاما لیکم اور ہاں جیل میں گرمی بہت ہوتی ہے اور مچھر بھی۔

کہاں گئے وہ تبدیلی کے نعرے، وہ ہیروں کی کانیں، وہ مونگے کے ٹاپو، وہ جنون، وہ جذبہ، وہ کونسرٹ، وہ کونسرٹوں میں گانے والے؟ نہ پری رہی نہ جنوں رہا۔ پل کے پل میں سب کا صفایا۔ روتے پیٹتے اپنی اپنی گٹھڑیاں سمیٹے، سبھی عشاق رخصت ہوئے۔

ہمارے جیسے پوسٹ کالونیل معاشروں میں عوام بہرحال اب بھی ایک کالونی کے لوگ ہیں۔ بے چارے ’نیٹو‘ ان کے لیے نام چاہے کچھ اور استعمال کیا جائے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نو آبادیاتی دور کے بنائے ہوئے نظام کو مکمل طور پہ تبدیل کیے بغیر ہم اس دائرے کے سفر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

ماہرین اپنی اپنی میزوں پہ بیٹھ کے خواجہ ناظم الدین سے لے کر آج تک کے ادوار کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں اور چشمے ناک پہ ٹکا کے ہمیں بتاتے ہیں کہ ’پیارے بچو، اسٹیبلشمنٹ سے جس نے بھی ٹکر لی وہ بچا نہیں!‘

مگر ایک بات یہ ماہرین بھی بتانا بھول جاتے ہیں کہ ان سبھوں کے انجام کو دیکھنے کے باوجود نہ کوئی ٹکر لینے سے باز آتا ہے اور نہ اسٹیبلشمنٹ اس منہ زور کو کچلنے میں دیر کرتی ہے۔

مگر اب کی بار کہانی میں تھوڑا ’ٹوئسٹ‘ تھا۔ اب کی بار اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے والے خود بھی اس بات سے منکر ہیں کہ یہ سب ہم نے کیا۔ کان پکڑتے ہیں اور گال پیٹتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں کہ یہ ہم نہیں تھے۔

ان ہی میں سے کچھ لوگ نجی محفلوں میں آواز دبا کے کہتے ہیں کہ یہ سب ’ان‘ کی اپنی ہی شیطانی ہے۔ شیطانی جس کی بھی ہے لیکن ہوا یہ ہے کہ اس ساری گڑ بڑ میں انتخابات کہاں گئے؟ کسی کو دھیان ہی نہیں رہا۔

یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ لوٹے پہ لوٹا رکھ کے بنائی گئی پارٹی جس میں اپنے پرانے اور نظریاتی کارکنوں کو نظرانداز کیا گیا تھا اسی انجام کو پہنچنی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ظلم کی دہائی دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سٹیٹس کو تو ہمیشہ ظالمانہ ہی ہوتا ہے۔

’انقلاب، ’آزادی،‘ ’جمہوریت‘ یہ سب بہت رومانوی نعرے ہیں مگر الفاظ صرف الفاظ نہیں ہوتے ان کے پیچھے نظریات بھی ہوتے ہیں اور نظریات کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ سٹیٹس کو آپ کے گانے، نعرے سن کے ایک بار تو آپ کو ساتھ ملانے کی کوشش کر لے گا لیکن جب آپ کے پاس کوئی روڈ میپ ہی نہیں ہو گا تو آپ کو بھی نکالا جائے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عین اسی طرح نکالا جائے گا جیسے ان کو بھی نکال دیا گیا جن کے پاس اچھی ٹیم بھی تھی اور جو ڈیلیور کرنا بھی جانتے تھے۔ ابھی تک پی ٹی آئی کے مقاصد میں کسی نہ کسی طرح اقتدار تک پہنچنا اور پھر آنیاں جانیاں دکھانا ہی نظر آتا ہے۔

پارٹی منتشر ہو رہی ہے لیکن بہرحال، ٹکڑے ہونے کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں پارٹی باقی رہے گی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے ضد، نرگسیت اور بدزبانی ایک طرف رکھ کے پارٹی کی تشکیل نو کی جائے اور بجائے کسی کے اشارے پہ باقی سیاست دانوں کی پگڑیاں اچھالنے کے ملک میں سیاسی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے اپنے ووٹرز سپورٹرز کے پاس دوبارہ جائیں۔

خان صاحب، آپ نے اپنے ووٹرز کو استعمال کیا اور تنہا چھوڑ دیا۔ گرفتاری کی روایت تو ہماری سیاست میں ایک اعزاز ہے۔ ریڈ لائن آپ کے ووٹرز تھے، آپ خود ریڈ لائن بن بیٹھے۔

سیاسی اغلاط کو درست کیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنی ذاتی انا کو بالائے طاق رکھیے۔ باقی سیاست دانوں کے پاس جائیے، مل کر حل نکالیے۔ اسٹیبلشمنٹ ہی کا دیا ہوا بیانیہ کہ سارے سیاست دان کرپٹ ہیں، دہراتے ہوئے آپ وہیں جا سکتے ہیں جہاں آپ اب کھڑے ہیں۔ ڈٹ کے کھڑا ہونا اچھا ہوتا ہے مگر درست بات پہ ڈٹنا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔

جمہوریت کے لیے جدوجہد سیاست دان مل کے ہی کر سکتے ہیں۔ رہا تخت تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ جیسے کل آپ تخت و تاج اچھال کے پچھلے دروازوں سے حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اسی طرح آپ کا تخت بھی اچھال دیا گیا۔ عوام اور ملک کو ریڈ لائن سمجھیے اور ڈٹ جائیے۔

کل آپ کہتے تھے، آج ہم کہہ رہے ہیں، ’خان صاحب، آپ نے گھبرانا نہیں ہے!‘

نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ