اس سفر کو لعنت زدوں کا سفر کہا گیا۔ 936 مروں، خواتین اور بچوں کا سفر، جن کا "جرم" تھا کہ وہ یہودی پیدا ہوئے۔ نازی جرمنی سے فرار ہونے کے لیےایک بحری جہاز میں ٹھنس کر ان لوگوں نے جس کسی ملک کا رخ کیا، پناہ ملنے کی بجائے انکار ملا۔
ایس ایس لوئی کے پناہ گزینوں کے ٹھکرائے جانے کا یہ سلسلہ "آخری حل کا اجازت نامہ" کہلایا، ایک "بہانہ" جس کی ہٹلر کو تلاش تھی تاکہ وہ ہجرت کی بجائے، مار ڈالنے کو جرمنی کے "یہودی مسئلے" کا واحد حل قرار دے سکے۔
بحری جہاز کے مسافروں کی سرگزشت پر1976 میں "وائیج آف دی ڈیمنڈ (لعنت زدوں کا سفر)" کے نام سے فلم بنائی گئی جو آسکر انعام کے لیے نامزد ہوئی۔
جون 1939 میں ایسے زرائع ابلاغ نہیں تھے جن کے ذریعے بیالیس سالہ رِچرڈ ڈریسل اپنے حالات کی خبر دے سکتے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی تکلیف کے اظہار کے لیے قدیم طریقہ اپنایا جب کیوبا میں صدر فریدریکو برو کی حکومت نے بحری جہاز کے مسافروں کو ہوانا میں پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ کپڑے کے تاجراور پناہ گزین ڈریسل، چھ ماہ کی بچی زِلہ کے والد تھے جو بحری جہاز کی سب سے کم عمر مسافر تھیں۔
اُنہوں ایک پرچی پر فریاد لکھی، "صدر برو! مہربانی کرو، میری مدد کرو، ورنہ ہم کھو جائیں گے"۔ پھر یہ پرچی ایک بوتل میں ڈال کر اُسے سمندر میں پھینک دیا۔
کوئی نہیں جانتا کہ یہ فریاد صدر برو نہ پڑھی یا نہیں البتہ ڈریسل کی پرچی 2003 میں برطانیہ کے شہر باتھ میں کاروں میں لگائے گئے ایک بازار میں منظرعام پر آئی۔ بوتل کی بجائے یہ پرچی 1974 میں شائع ہونے والی کتاب وائیج آف دی ڈیمنڈ کے اندر رکھی ہوئی تھی جس سے متاثر ہو کر 1976 میں فلم بنائی گئی۔
اُس وقت ڈریسل کی بیٹی زِلہ برطانیہ میں نیو کاسل کے علاقے گاسفورتھ میں رہائش پذیر تھیں۔
اُنہوں نے اپنے والد کی پرچی وینر لائبریری کو عطیہ کر دی۔ لندن میں قائم یہ لائبریری ہولوکاسٹ اور یہودیوں کے قتلِ عام پر کیے گئے مطالعات کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ وہاں گزشتہ سال کینیڈا کے وزیرِاعظم جسٹن ٹروڈو نے باضابطہ معافی مانگی تھی کیونکہ اُن کے ملک نے بھی سینٹ لوئی بحری جہاز میں سوار مہاجروں کو پناہ دینے سے انکار کیا تھا۔
اسی سالہ زِلہ جو اب پوتے پوتیوں والی ہیں، نے وزیرِاعظم ٹروڈو کی جانب سے معافی کی تقریب میں سکائپ کے ذریعے شرکت کی۔ وہ آجکل ازدواجی نام مِسز کورش سے جانی جاتی ہیں۔ اُنہوں نے کینیڈا کی معافی کو خوش آئند قرار دیا۔
جن دنوں وزیرِاعظم ٹروڈو پناہ گزینوں کے ساتھ اپنے ملک کے ماضی کے سلوک پر معافی مانگ رہے تھے، اُنہی دنوں ہمسایہ ملک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنوبی امریکہ سے آنے والے تارکینِ وطن کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ اُن کے قافلوں میں "مشرقِ وسطیٰ کے نامعلوم باشندے" بھی شامل ہیں چنانچہ انہیں پناہ تو درکنار، اُن میں سے کسی نے سرحد پار پتھر بھی پھینکے تو امریکی فوجی گولیاں چلا دیں گے۔
بحرِاوقیانوس کے دوسرے پار مِسز کورش فکرمند ہیں کہ اُن کے ہاں انگلینڈ میں یہود دشمنی سر اٹھا رہی ہے اور یورپ بھر میں پناہ گزین مخالف دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں بڑھ رہی ہیں۔
سینٹ لوئی بحری جہاز کے مسافروں میں سے زندہ بچ جانے والی سب سے کم عمر خاتون کی نظر میں غریب کو ٹھکرانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
"اپنے غریب اور تھکے ہارے لوگ ہمیں دے دو۔ ضرورت کے وقتوں میں ایسے نہیں ہوتا۔ ہمارے لیے ہوا نہ جنوبی امریکہ کے غریب لوگوں کے لیے ہو رہا ہے۔"
"دُنیا بہت ظالم جگہ بن گئی ہے۔"
دی انڈیپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے مِسز کورش نے مایوسی کا اظہار کیا اور کہا کہ "اگر کینیڈا کی معافی سے باقی دنیا پر فرق پڑتا تو زبردست ہوتا۔ لیکن آجکل جیسے حالات ہیں، اُن میں مثبت سوچنا مشکل ہے۔"
وہ مسلمانوں کے متعلق پھیلے ہوئے خوف اور کبھی کبھار یہودیوں کے ساتھ ناروا سلوک کا موازنہ ماضی سے کرتی ہیں۔
"جب اُنہیں چند انتہا پسندوں کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے۔"
جس انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جنوبی امریکہ کے مہاجروں کے قافلوں میں جرائم پیشہ لوگ اور "مشرقِ وسطیٰ" کے باشندے شامل ہیں جو داعش کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہوں گے، مِسز کورش ایسی سوچ کی مزمت کرتی ہیں۔
ٹرمپ کہتا ہے "اُن میں جرائم پیشہ لوگ شامل ہیں۔ شاید ہوں بھی۔ ہو سکتا ہے سینٹ لوئی بحری جہاز میں بھی چند جرائم پیشہ مسافر ہوں لیکن زیادہ تر عام لوگ تھے۔ جیسا کہ چھ ماہ کی بچی کے ساتھ ایک ماں اور ایک باپ۔"
"لوگوں کو چاہیے کہ خود کو اُن حالات میں ڈال کر دیکھیں جن سے امریکہ پہنچنے کی کوشش کرنے والے تارکینِ وطن دوچار ہیں۔ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ وہ کتنے مجبورہوں گے۔ انہوں نے جو راستہ پکڑا ہے، وہ آسان نہیں۔ انتہا کی مجبوریوں نے اُن سے یہ قدم اٹھوایا ہو گا۔"
"اُن کی حالت اتنی بری نہیں ہو گی جتنی کہ ہماری تھی لیکن ان کے بچوں کی زندگیوں اور روزگار کا دارومدارایسی جگہ پہنچنے پر ہے جہاں وہ روزی کمانے کی کم سے کم کوشش تو کر سکیں۔"
1939 میں شاید باہر کی دنیا کو ہولوکاسٹ کی مکمل دہشت اور مِسز کورش کے سفر کی تکالیف کا اندزہ نہ ہو سکا البتہ جرمنی میں یہودیوں کی صورتحال پر کسی کو شبہ نہیں تھا جو مِسز کورش کے بقول "بدترین" تھے۔
زِلہ کی پیدائش سے ایک ہفتہ پہلے، نومبر 1938 میں نازیوں نے کریستل ناخت کا آغاز کیا۔ اِس مہم کو "دی نائٹ آف بروکن گلاس" یعنی ٹوٹے ہوئے شیشے کی شب کہا جاتا ہے۔ نو اور دس نومبر کی درمیانی رات کو یہودیوں کی دکانیں، مکان اور کاروبار ملیامیٹ کر دیے گئے۔
رِچرڈ ڈریسل اور اُن کے بڑے بھائی ایلفرڈ چُھپ گئے تاکہ اُن تیس ہزار مردوں میں شامل نہ ہوں جنہیں نازیوں نے گرفتار کر لیا تھا۔
زِلہ کی ستائیس سالہ ماں رتھ، بریسلا کے ایک یہودی ہسپتال سے نومولود بچی کے ہمراہ لوٹیں تو ہمسایوں نے بتایا کہ اُن کے شوہر کی تلاش میں لوگ اُن کے گھرپر آئے تھے۔
تیرہ مئی 1939 کو ایندھن سے چلنے والا ایس ایس سینٹ لوئی نامی بحری جہاز جرمن بندرگاہ سے روانہ ہوا تو رِچرڈ، رتھ، زِلہ اور ایلفرڈ ڈریسل اُس پر سوار تھے۔
وائیج آف دی ڈیمنڈ کتاب کے مصنفین گورڈن ٹھومس اور میکس مارگن وِٹس نے واضح کیا ہے کہ اِس سفرکی اجازت نازی اعلیٰ کمان نے برلن کے ہوٹل ایڈلان میں ایک دعوتی ظہرانے کے دوران دی۔ ہِٹلر کے پراپیگنڈہ کے سربراہ جوزف گوبل کے خیال میں سینٹ لوئی کے سفر کے ذریعے دنیا کو دکھایا جا سکے گا کہ رحمدل نازی حکومت یہودیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ اُنہیں مرضی سے جرمنی چھوڑنے کی بھی اجازت ہے۔
جمعہ چھبیس مئی کو جب بحری جہاز فلوریڈا کے ساحل کے قریب سے گزرا تو چند مضطرب مسافروں نے رشتہ داروں کو ٹیلی گراف بھیجے کہ وہ "خیریت سے پہنچ گئے ہیں"۔
ستائیس مئی کو علی الصبح، ایس ایس سینٹ لوئس ہوانا کے پانیوں میں پہنچا تو آرکیسٹرا پر دھنیں بج رہیں تھیں، "خوش رہو کہ زندہ ہو"۔
شروع میں کچھ مسافروں کو لگا کہ وہ بندرگاہ میں اس لیے داخل نہیں ہو پا رہے کیونکہ سینٹ لوئی جیسے بڑے بحری جہاز کے لیے پانی کی گہرائی کم ہے۔
پھر حقیقت آشکار ہوئی۔ اُنہیں بندرگاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔
سینٹ لوئی کا سفر شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے صدر برو نے حکمنامہ نمبر 937 جاری کیا جس کے تحت کیوبا میں داخلے کو دو حکومتی وزراء کے تحریری اجازت نامے اور 500 ڈالر کے مچلکوں کی وصولی سے مشروط کر دیا گیا تھا۔
کیوبا میں مشکل معاشی حالات کے باعث وہاں کے شہری، یہودی مہاجروں کو نوکریوں کے حصول کے لیے اپنے مدمقابل سمجھنے لگے تھے۔
جب ہیمبرگ سے سینٹ لوئی کی روانگی کی تیاری کی خبر پھیلی تو آٹھ مئی 1939 کو کیوبا کی تاریخ کا سب سے بڑا یہودی مخالف احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ اس دوران سابق صدر گرا سین مارٹن کے ترجمان نے مظاہرین کو کہا کہ "یہودیوں سے لڑو جب تک آخری یہودی نکال باہر نہ کیا جائے"۔
تارکینِ وطن کے خلاف پُراشتعال ماحول میں ایک یہودی مہاجر اور کپڑے کے تاجر رِچرڈ ڈریسل کی جانب سے پرچی پر لکھی ہوئی التجا صدر برو پڑھ بھی لیتے تو بھی دادرسی کا ارادہ نہ کرتے۔
ایک موقعے پر سینٹ لوئی کے سائرن کی آواز نے صدر برو کے قیلولے میں خلل ڈالا تو اُنہوں پیغام بھیجا کہ مہاجرین "احتجاج" کرتے رہیں، تو بھی اُن کے ارادے نہیں بدلیں گے۔
کیوبا کی حکومت نے 936 میں سے صرف اٹھائیس مسافروں کو جہاز سے اترنے کی اجازت دی۔ انتیسویں مسافر نے خودکشی کی کوشش کی تو اسے تیس مئی کو ہوانا کے ہسپتال پہنچا دیا گیا۔
باقی سب پناہ گزین بحری جہاز میں ہی سوارتھے جب دو جون کو صدر برو نے سینٹ لوئی کو کیوبا کے پانیوں سے نکل جانے کا حکم دیا۔
چار جون کی صبح سینٹ لوئی کے مہاجرین میامی کے قریب پہنچے تو کپتان گوستاو شروڈر نے مدد کے لیے امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ کو کیبل کے ذریعے پیغام بھیجا۔
روزویلٹ نے کبھی جواب نہ دیا۔
اپریل 1939 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کے قوانین کو نرم کرنے کے خلاف تھے۔ اور روزویلٹ کو 1940 میں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنا تھا۔
سینٹ لوئی کے میامی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی امریکی حکومت نے طے کر لیا تھا کہ وہ 1924 کے امیگریشن ایکٹ کی پابند رہے گی جس کے تحت ہر ملک سے تارکینِ وطن کا سالانہ کوٹہ مقرر تھا۔
ہٹلر سے خوف سے ہجرت کے باعث جرمنی کے لیے 25957 تارکینِ وطن کا سالانہ کوٹہ پہلے سے پورا ہو چکا تھا۔
چھ جون 1939 کو کپتان شروڈر نے اس نتیجے پر پہنچے کہ اُن کے پاس سینٹ لوئی کا رُخ واپس یورپ کی جانب موڑ دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
پانچ نومبر 1940 کو روزویلٹ باآسانی دوبارہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔
پھر کینیڈا کی طرف سے سینٹ لوئی کے مہاجروں کو ٹھکرانے کی باری آئی۔
سات جون کو جب یہ بحری جہاز کینیڈا کے ساحل سے صرف دو دن کی مسافت پر تھا تو ٹورنٹو کے چالیس نامور شہریوں نے وزیرِاعظم ولیم لیان مکینزی کنگ سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودی مہاجروں پر رحم کریں۔
لیکن کینیڈا کے وزیرِ انصاف نے مہاجروں کو پناہ دینے کی "بھرپور مخالفت" کی۔ کینیڈا میں امیگریشن کے قوانین کا تعین کرنے والے محکمے کے سربراہ فریڈرک بلیئر نے اعلان کیا کہ "کوئی بھی ملک اپنے دروازے اتنے نہیں کھول سکتا کہ یورپ چھوڑنے والے سینکڑوں ہزاروں یہودیوں کو آنے دے۔ کہیں تو لکیر کھینچنا پڑے گی۔"
مکینزی کِنگ نے اپنے وزراء سے اتفاق کیا۔ اُس سے ایک سال پہلے اُنہوں نے ذاتی ڈائری میں لکھا تھا کہ "ہمیں براعظم کے اِس حصے (شمالی امریکہ) کو بدامنی اور بیرونی نسلوں کے خون سے پاک رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر ہم یہودیوں کی بڑی تعداد کو آنے کی اجازت دینے پر متفق ہو گئے تو ہمارے ہاں ہنگامے شروع ہو جائیں گے۔"
گزشتہ سال جسٹن ٹروڈو نے اعتراف کیا ہے کہ کینیڈا سینٹ لوئی کے مہاجروں کو پناہ دینے سے انکار کرنے والا تیسرا ملک تھا۔
انکار نے شاید ہٹلر کو فائدہ پہنچایا۔ گابلز نے اپنی پراپیگنڈہ مشین کے ذریعے سوال اٹھایا کہ باقی دنیا نازی حکومت کے یہودیوں کے ساتھ برتاؤ پر کیسے تنقید کر سکتی ہے جب یہ تمام ملک بھی اُنہیں اپنی سرزمین پر نہیں چاہتے۔
جس دن کینیڈا نے بحری جہاز کے مسافروں کو پناہ دینے سے انکار کیا، اس دن جرمن ریڈیو سٹیشنوں پر اعلان ہوا: "چونکہ کوئی بھی سینٹ لوئی کے غلیظ یہودیوں کو قبول نہیں کر رہا، ہمیں اُنہیں واپس لینا ہو گا اور سہارا دینا ہو گا۔"
ان اطلاعات سے مطلب نکلتا ہے کہ اب جرمنی اپنے "یہودی مسئلے" سے کیسے جان چھڑائے گا؟
شاید اسی لیے حیرانی کی بات نہیں کہ دو ہزار گیارہ میں ایک یادگاری تقریب کے دوران روڈالف جیکب سن، جو بحری جہاز کے چھ سالہ مسافر تھے، نے حاضرین سے التماس کی کہ "سینٹ لوئی کے سفر کی اہمیت کو یاد رکھیں۔ اُس نے نازیوں کو آخری حل کی اجازت دی۔"
مِسز کورش کہتی ہیں کہ یہ رائے "خاصی درست ہے۔ اگرچہ ایک طرف یہ خیال آتا ہے کہ قتل و غارت گری کے لیے ہِٹلر کو کسی جواز کی ضرورت نہیں تھی لیکن ہاں، دوسری طرف میں یہ بھی سوچتی ہوں کہ وہ دکھانا چاہتا تھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ یہودیوں کا کہیں استقبال نہیں کیا جایا اور درحقیقت اُنہیں کم تر انسان سمجھا جاتا ہے۔"
سترہ جون 1939 کو تھکے ہارے تارکینِ وطن واپس یورپ پہنچ گئے۔
البتہ وہ جرمنی کی بجائے بیلجیئم کے علاقے اینٹ ورپ میں تھے۔
آخرکارایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت برطانیہ کو 288، فرانس کو 224، بیلجیم کو 214 اور ہالینڈ کو 181 مہاجرین رکھنے تھے۔
یورپی ملکوں کی رحمدلی میں مبالغہ آرائی ہو سکتی ہے۔
وائیج آف دی ڈیمنڈ میں یاددہانی کرائی گئی ہے کہ کس طرح قومی نمائندے ڈھکے چھپے انداز میں ایسے مہاجرین کوچننے کی مقابلہ بازی کر رہے تھے جو امریکہ نقل مکانی کے منتظر لوگوں کی فہرست میں شامل ہوں اور جلد از جلد اُن کے ملک چھوڑ دیں۔
ہالینڈ کے نمائندے کے تسلیم کیا کہ "کہا جا سکتا ہے کہ ہم نے وہی لوگ حاصل کرنے کی کوشش کی جن سے جلد از جلد جان چھڑائی جا سکے۔"
سینٹ لوئی کے مسافروں کو انداہ نہیں تھا کہ یہ بانٹ اُنہیں دو گروہوں میں تقسیم کرنے کی مشق ثابت ہو گی۔ ایک وہ جو نازیوں کے قبضے میں آنے والے یورپ میں قائم ہٹلر کے عقوبت خانوں کی نذر ہو گئے اور دوسرے جنہیں برطانیہ میں نسبتاً تحفظ ملا۔
اندازوں کے مطابق، تقسیم کے بعد سینٹ لوئی کے 254 مسافروں کو ہولوکاسٹ کے دوران قتل کیا گیا۔
رِچرڈ ڈریسل واحد مسافر تھے جنہیں خود فیصلہ کرنے کا موقع ملا کہ وہ اور اُن کا خاندان کہاں جائے گا۔
مِسز کورش وضاحت کرتی ہیں کہ " جب طے شدہ ملک بتانے کے لیے سب لوگوں کو سینٹ لوئی کے بال روم میں جمع کیا گیا تو میرے والد نے اپنا نام نہ سنا۔ وہ حوالدار کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے میرا نام نہیں پکارا۔"
"جواب میں حوالدار نے پوچھا کہ آپ کہاں جانا پسند کریں گے؟"
"میری والدہ فرانس جانا چاہتی تھیں۔ اُنہیں بتایا گیا تھا کہ وہ حیرت انگیز ہے۔ موسم بہتر ہے۔ خوراک بہتر ہے"
"لیکن میرے والد بضد تھے۔ وہ انگریزوں کو سراہتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ انگلینڈ اور جرمنی کے درمیان سمندر ہونے کی وجہ سے وہ محفوظ ہو گا۔
"اُنہوں نے انگلینڈ چنا حالانکہ کے اُن کے بھائی ایلفرڈ فرانس جا رہے تھے۔"
اکیس جون 1939 کو ڈریسل خاندان سینٹ لوئی ہی میں سوار تھا جب وہ ساؤتھیمپٹن میں لنگرانداز ہوا۔
بحری جہازوں کے سائرن کی گونج اور ہوا میں اونچے فوارے چھوڑنے والی کشتیوں نے سینٹ لوئی کا استقبال کیا گیا۔ بندرگاہ پر بادشاہ جارج ششم کے دورے کی مشقیں ہو رہی تھیں جو اگلے روز وہاں آنے والے تھے۔
ڈریسل خاندان نے ڈرہم کاؤنٹی میں ڈریسٹو موڈز کے نام سے کپڑوں کی دکان کھول لی۔ ترقی کرتے ہوئے پانچ چھوٹی شاخیں کھل گئیں جنہیں مِسز کورش اور اُن کے شوہر چلاتے تھے۔
اُن کے تایا ایلفرڈ اتنے خوش قسمت نہ تھے۔ سینٹ لوئی چھوڑنے کے تین سال بعد، 1942 میں سینتالیس سالہ ایلفرڈ نازی قبضے میں آنے والے فرانسیسی علاقے سے گرفتار کر لیے گئے۔ وہیں کے ایک عارضی قید خانے سے بھیجے گئے پوسٹ کارڈ میں ایلفرڈ نے رِچرڈ، رتھ اور زِلہ کو یقین دہانی کرائی کہ "میرے پیارو! امن کا دن آنا ہے اور ہم پھر سے اکٹھے ہو جائیں گے"۔
لیکن ایسا نہیں ہونا تھا۔ اُسی سال ایلفرڈ کو آشوِٹز کے عقوبت خانے میں بھیج دیا گیا۔
مِسز کورش نے اپنے والدین سے کبھی تفصیلاً نہیں پوچھا کہ سینٹ لوئی کے سفراور اُس کے بعد ہولوکاست کے دوران کیا ہوا۔ اُنہیں بوتل میں بھیجے گئے "دل شکن" پیغام کا تبھی پتہ چلا جب اس کی پرچی دو ہزار تین میں ملی۔
اُس وقت تک اُن کے والد کی وفات کو پچیس سال گزر چکے تھے۔ وہ 1978 میں اکاسی سال کی عمر اپنی بیٹی کو بتائے بغیر ہی انتقال کر گئے کہ ایک دھتکارے ہوئے خوفزدہ تارکِ وطن کو مجبوری میں کیا کرنا پڑا۔
مِسز کورش کہتی ہیں کہ شاید انہوں نے ایک دفعہ ہی اپنے والد سے سینٹ لوئی کے متعلق پوچھا۔ صرف ایک دفعہ۔
اُن کے بقول "بچپن میں ہی آپ سیکھ جاتے ہیں کہ والدین سے وہ سوال دوبارہ نہ پوچھا جائے جو اُنہیں پریشان کر دے"۔