کابلی پلاؤ: ہیروئن ٹوپی برقعے میں بھی آزاد

یہ ڈراما ڈرامائی تکنیک، اداکاری، حقیقیت نگاری معاشرے کی عکاسی، ہرطرح سے داد وصول کر چکا ہے اور ان چند ڈراموں میں شامل ہو چکا ہے جو فن کا شاہکار ہوتے ہیں۔

ڈرامے کی خاص بات اس کے جاندار مکالمے ہیں (گرین انٹرٹینمنٹ)

باربینہ ’برقعے میں بھی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔‘ مصنف ظفر معراج نے یہ جملہ اپنی فیس بک وال پہ لکھا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ لباس فیصلہ سازی کا محتاج نہیں ہوتا، حالات کیسے بھی ہوں انسان کا کردار اس کی شناخت بنتا ہے۔

 ڈراما ’کابلی پلاؤ‘ کی خوشبو سرحدوں پار دور دور تک پھیل چکی ہے۔

جنگ اور امن سے معاشرے، انسان، خاندان، تہذیب، نفسیات، معاش، زندگی کس طرح متاثر ہوتی ہے یہ سمجھنا ہو تو کابلی پلاؤ کا ایک ایک مکالمہ آپ کے دل پہ نشتر کا کام کرتا ہے۔

’کابلی پلاؤ‘ ڈرامائی تکنیک، اداکاری، حقیقیت نگاری معاشرے کی عکاسی، ہرطرح سے داد وصول کر چکا ہے اور ان چند ڈراموں میں شامل ہو چکا ہے جو فن کا شاہکار ہوتے ہیں۔

ہم بات کریں گے مکالمہ اور کہانی پہ کیونکہ مختلف تہذبیوں کی بات ہے۔ ایک افغانستای کی تہذیب ہے جہاں جنگ ہو رہی ہے اور لوگ پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں، وہاں سے خیبر پختونخوا کی سرحد پاس ہے تو مہاجرین زیادہ تر وہیں آباد ہوئے۔

خیبر پختونخوا بھی اس اعتبار سے عبوری تہذیب کا حامل ہے، لہٰذا کہانی سیدھا لاہور تک پہنچتی ہے جو بلاشبہ کسی حد تک باقی ملک کی نسبت امن کا گہوارہ ہے۔ اور اگر چلیں اندرون لاہور تو ان کی ایک اپنی ہی دنیا ہے۔

جہاں تک ہمارا مشاہدہ ہے یہ جگہ جذبات کے عروج کا گھر ہے، یہ لوگ ہضم کرنے پہ آئیں تو ہاتھی بھی نگل لیتے ہیں، تسلیم نہ کرنے کی بات ہو تو چیونٹی کو بھی رستہ نہیں دیتے، لہٰذا بات کا بیان یہاں سے زیادہ پرتاثر کہاں ہو گا۔

یہ ریت، یہ رواج، یہ ناز، یہ اطوار سب امن کی علامت ہوتے ہیں۔ امن کا دوسرا مطلب ہوتا ہے بہتر معاش۔ جو یہاں ہے۔ اس لیے ان کو کسی عام پکانے والے کے کھانے میں عیب نظر آتا ہے لیکن جنگ میں دو وقت کا کھانا نعمت لگتا ہے۔ یہ ہر امن پسند جگہ کے رہائشی کی طرح اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تمہید کے بعد بات کرتے ہیں کہانی کی۔ شوکت کہانی کا مرکزی کردار اچانک بن جاتا ہے جب ایک افغان مہاجر لڑکا مردان آئی تبلیغی جماعت میں اپنی بہن کے رشتے کی بات کر تا ہے جو بیوہ ہے۔ شادی کے لیے کوئی نہیں مانتا۔

وہی لڑکا ایک ٹھیلے پہ کابلی پلاؤ فروخت کرتا ہے۔ شوکت وہ کابلی پلاؤ بہت شوق سے کھاتا ہے۔ ایک دن لڑکا ٹھیلا نہیں لگاتا توشوکت سمجھاتا ہے کہ کاروبار میں چھٹی نہیں ہوتی کیونکہ شوکت یعنی حاجی صاحب نے ایک سیلف میڈ انسان کے طور پہ کاروبار کی بنیاد بھی رکھی اور اس کو اتنی وسعت دی کہ کپڑے کے کاروبار میں ان کا ایک نام ایک مقام بن گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ اس نے والدین کے بعد سب بہن بھائیوں کی شادی کی، ان کے کاروبار سیٹ کیے، غیروں کے کاروبار سیٹ کرنے میں مدد کی، زندگی کے اس میلے میں اسے اپنی شادی کا وقت ہی نہیں ملا اور نصف صدی گزار جانے کے بعد اس نے کاروبار، گھر بار بھی چھوٹے بھائی اور اس کے خاندان کے حوالے کیا اور خود تبلیغی جماعت کے ساتھ اللہ کی راہ میں نکل گیا۔

باپ کا انتقال اس کی کم عمری میں ہی ہو گیا تھا۔ بیوہ ماں نے کپڑے سی کر گزارا کیا۔ اسے اپنی ماں کی جوانی کا پل پل یاد ہے اور وہ روز ماں کی قبر پہ جاتا ہے۔

اس کی ایک محلے دار خاتون شمیم اس سے محبت کرتی ہے لیکن شوکت اسے جوانی میں ہی کہہ دیتا ہے کہ وہ شادی کر لے، مگر وہ اس کے انتظار میں شادی نہیں کرتی۔ شمیم نے خود کو خود ہی شوکت کی بیوی مان لیا ہوا ہے۔ ڈراما ہو یا زندگی، محبت کی جنگ میں عورت ہی تنہا رہ جاتی ہے۔

شوکت کے خاندان میں بہن بھائیوں کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔ ایک بہن اپنے گھر میں نارمل زندگی گزار رہی ہے۔ دوسری کا شوہر ذہنی بیمار اور لالچی ہے کہ اس کی بیوی بانجھ ہے اور وہ اسے نکاح میں رکھ کر ان سب پہ احسان کر رہا ہے۔ لیکن ڈراما بتائے گا کہ اس کی بیوی نہیں وہ خود بانجھ ہے کیونکہ جس انسان کے اپنے اندر کمی ہو اسی کی آوازسب سے زیادہ اونچی ہوتی ہے۔

اس سارے منظر نامے سے نکل کر جب شوکت مردان میں اس کابلی پلاؤ فروخت کرنے والے کے گھر پہنچتا ہے وہاں ایک مہاجر گھرانے کی مجبوریاں اور شوکت کے سخی پن کا ظرف مقابل آجاتے ہیں۔ وہ باربینہ کے بھائی کے علاج کے لیے اسے دولاکھ دے دیتا ہے اور یونہی کہہ دیتا ہے کہ اب باربینہ اس کی امانت ہے۔

وہ سمجھ جاتا ہے کہ وہ بیوہ عورت شادی نہیں کرنا چاہتی مگر باربینہ کے سر پہ جو احسان چڑھ جاتا ہے وہ اس کےمطابق فیصلہ کر لیتی ہے کہ وہ شوکت سے ہی نکاح کرے گی۔

یہ وہ پہلا مقام ہے جب برقعے میں لپٹی عورت کی قوت فیصلہ سامنے آتی ہے۔ یہاں بہت سے سین ایسے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپردہ عورت اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے جبکہ لاہور کی ماڈرن مادیت پرست خواتین اپنا فیصلہ آپ نہیں کر سکتیں۔ ان کے گھر کے مرد جو فیصلہ کر دیں وہی ان کی منزل ہے۔

یوں یہ ڈراما برقعے کے ٹیبو کو رد کرتا ہے۔

حالات کی ڈگر سے حاجی صاحب زندگی کے ڈگرمیں بےیقینی سے شامل ہو جاتے ہیں اور باربینہ شوکت کو پوری سچائی کے ساتھ شوہر قبول کر لیتی ہے بلکہ اس کا دل بھی جیت لیتی ہے۔ پھر ہوتا یوں ہے رشتہ اتنا مضبوط اور گہرا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو کہتی ہے کہ اس کے شوکت سے ایک نہیں کئی رشتے ہیں۔ باپ کی کمی کے وقت وہ موجود ہوتا ہے، بھائی کی ضرورت ہو تو موجود ہوتا ہے، دوست بن کر موجود ہوتا ہے۔

یہ میاں بیوی کے رشتے کی اصل وسعت کو سمجھاتا ہوا مکالمہ ہے۔ باربینہ اسے بات کرتے ہوئے کپڑے نہیں لفظ ’لباس‘ استعمال کرتی ہے جو قرآن میں میاں بیوی کے لیےاستعمال ہوا ہے۔ ڈرامے نے میاں بیوی کے روایتی تعلق سے اوپر اٹھ کر اس کو وسعت میں استعارہ کیا ہے۔

کہانی میں عروج و زوال اور پرانے کینے در آنے کا یہی وقت ہے اور افسوس کی بات تو یہی ہے کہ خوشحالی سب سے پہلے اپنے ریت رواج آپ متعین کرتی ہے جس کے مطابق شوکت سب کے لیے مجرم سا بن جاتا ہے۔

'ریل کی سیٹی' کی طرح یہ ڈراما ہمارے ذہنوں پہ اپنے نقش چھوڑ جائے گا۔

ایک اہم نکتہ: پردہ اگر عورت کی عزت و حفاظت کا ضامن ہے تو یہ کہانی اس کی نفی کر رہی ہے۔ پردہ اگر عورت کے لیے قید ہے تو بھی یہ کہانی اس کی نفی کر رہی ہے۔

پاکستانی ڈرامے میں شاید پہلی بیوہ اور ٹوپی برقع پہننے والی ہیروئن دکھائی دی ہے۔  

ایک پورا سچ جو ظفر معراج نے بہت سادگی سے لکھ دیا ہے۔ ’تم قتل کرتے ہو ہم ذلیل کرتے ہیں ایک دوسرے کو۔‘ یہ مکالمہ ہماری تہذیب کی چغلی کھاتا ہے۔ یہ مکالمہ مردان سے چلتا ہے اور اب لاہور سے ہوتا ہوا کراچی تک پہنچا ہے ممکن ہے یہ پورے سماج کے چہرے سے پردہ ہٹا دے۔

کہانی تو منفرد ہے ہی، مکالمے بہت ہی اعلیٰ ہیں، زندگی کے فلسفوں سے بھرپور، تہذبیوں کے تقابل و گہرائی سے بھرے ہوئے ہیں۔

ایک ایک مکالمہ ایک ایک کہانی ہے۔ کابلی پلاؤ کی خوشبو اور ذائقہ تک ڈرامے میں محسوس ہو رہا ہے۔ کہانی کے تقاضوں کے مطابق سکرپٹ تین زبانوں اردو، پشتو اور پنجابی میں لکھا گیا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ ہمارے پاس داد کےالفاظ نہیں ہیں۔ پوری ٹیم نے پوری دنیا سے اتنی داد وصول کر لی ہے لفظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔

بے شمار سماجی ٹیبوز توڑنے، سماج کو اس کا چہرہ دکھانے پہ محبت وداد کو خوشبو سے ہی پہچاننا ہو گا کہ ’کابلی پلاؤ‘ آج کے دور کا ’وار اینڈ پیس‘ ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ