’جھوک سرکار‘۔۔۔ سسکتے نظام کی کہانی

ڈراما تین زبانوں میں لکھا گیا ہے، اردو، سرائیکی اور پنجابی لیکن پروڈکشن ٹیم نے ایک بات کا خیال نہیں رکھا کہ اگر یہ پنجاب کی زمین کی کہانی ہے تو پولیس کی وردی خاکی ہونی چاہیے تھی۔

کہانی شوکت اور نوری کی باغی محبت سے شروع ہوتی ہے اور حویلی کے توسط سے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں تک کی تصویر کشی کرتی ہے (ہم ٹی وی)

’جھوک سرکار‘ ڈراما مرد و عورت کی کہانی نہیں ہے امیر اور غریب کے نظام پہ بات ہوئی ہے وہ نظام جو غریب کو کھا رہا ہے، وہ نظام جو امیر کو امیر تر کر رہا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

چھوٹی چھوٹی حکومتیں مل کر بڑی حکومت کو کیسے کنٹرول کرتی ہیں۔ بڑی حکومت کیسے مجبور ہوتی ہے۔ ووٹ طاقت کیسے بنتا ہے اور کس کی طاقت ہوتا ہے۔ ووٹر کیسے نظام جمہوریت کا نمائندہ ہے۔ اس میں سرکاری افسران کیسے کام کرتے ہیں، وہ نظام کے ہاتھوں خود کہاں اور کیسے مجبور ہیں اور ان کو کیا کچھ کا سامنا کر کے ملازمت کرنی پڑتی ہے۔

جو کچھ نشر کیا جا سکتا تھا وہ تو کر دیا گیا ہے، باقی نیوز چینلوں کی خبریں، سوشل میڈیا کی کہانیاں جمع تفریق کر کے ضرب دیں لیں تو پورا سسٹم سمجھ میں آ جاتا ہے۔

پیرل سائیں کی حویلی کے اندر سے نظام وزیروں تک کیسے چل رہا ہے۔ ایک وڈیرے نے کیسے انسان کو مجبور اور کنٹرول رکھنے کا چکر چلایا ہوا ہے اور کیسے اس نظام کو مسلسل برقرار رکھا جا رہا ہے۔

کہانی شوکت اور نوری کی باغی محبت سے شروع ہوتی ہے اور حویلی کے توسط سے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں تک کی تصویر کشی کرتی ہے۔

شوکت اور نوری گاؤں سے بھاگ جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اتنے بڑے صحرائی نظام سے پکڑے جاتے ہیں۔ شوکت کو جھوٹی ظاہری کارروائی کے تحت جیل کی سلاخوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور نوری کے باغی حسن پہ پیرل سائیں کا دل آ جاتا ہے وہ اسے شادی کر لیتا ہے جبکہ حویلی میں اس کی دو خاندانی بیویاں پہلے سے موجود ہیں۔

پہلے نوری انکار کرتی ہے مگر پھر اس بات پہ راضی ہو جاتی ہے کہ پیرل سائیں ان کے باپ کا قرضہ معاف کر دے گا اور شوکت کو رہا کروا دے گا۔ وہ پیرل کی بیوی تو بن جاتی ہے مگر رہتی اپنے وقت کی زلیخاں ہی ہے۔

اس سارے قصےمیں ارسلان ایک عام آدمی کا بیٹا مقابلے کا امتحان پاس کر کے نظام کا شکار ہوتے ہوئے جھوک سیال میں ملازمت پہ لگ جاتا ہے۔

جھوک سیال دہشت کی علامت جیسا علاقہ ہے، ارسلان ایک مجبور انسان نے روپ میں اپنی ڈیوٹی کی جگہ کا معائنہ کرتا ہے تو نظام کا آئینہ اس پہ عیاں ہو جاتا ہے۔

سسی ایک غریب باپ کی بیٹی ہے۔ دوسرے گاؤں سے ایف اے کیا ہوا ہے۔ سکول کی ملازمت کے کاغذ بند فائلوں میں پڑے ہیں سکول بھی بند پڑا ہے کہ حویلی کا قانون کہتا ہے یہ باغی پیدا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سسی پہ پیرل کے اکلوتے بیٹے میرل کا دل آ گیا جس کی وجہ سے وہ اس کے بھائی کو ملازمت والی عیاری سے ساتھ ملا کر انسانی سمگلنگ میں ملوث کاروبار میں شامل کرتا ہے۔ ارسلان خود اس آپریشن کو لیڈ کرتا ہے۔ اس کی گولی سے سسی کا بھائی مر جاتا ہے۔

دوسری طرف میرل نے شوکت کو مار دیا ہے۔

نوری بھی جیسے فرعون کی حویلی میں موسی بن کے آئی ہے باپ بیٹے کی سب باتیں سن لیتی ہے اور جا کر سسی کو بتا دیتی ہے۔

حویلی سسی کے بھائی کی موت کو ارسلان اور نظام کے کھاتے میں ڈال کر اپنا موقف افسران بالا تک لے جانا چاہتی ہے، مگر سسی اس روایتی نظام کو اپنے ایک جملے سے پلٹ دیتی ہے۔

اے ایس پی کی مدد سے سکول بھی کھل جاتا ہے۔ سسی پڑھانے بھی لگتی ہے۔ وہ شوکت و نوری کی ساری کہانی بھی ارسلان کو بتا دیتی ہے۔ یہ بھی بتا دیتی ہے کہ شوکت اپنے گھر نہیں پہنچا۔

جب قدرت اپنا فیصلہ کر لے تو انسان بےبس ہو جاتا ہے۔

کہانی بھی یہیں تک آ گئی ہے، پیرل سائیں نے اپنی سی کوشش کر لی ہے مگر ارسلان بھی اپنی سچائی میں ڈٹ گیا ہے۔

 میرل ارسلان سے جو رقابت وہ لے بیٹھا ہے اس میں اپنے ہی پیڑوں پہ کلہاڑی مار لے گا۔ ارسلان جو بھی کر رہا ہے وہ اس کی ملازمت کا حصہ ہے افسروں کی زندگی میں ایسے واقعات و انسان آتے ہی رہتے ہیں مگر سسی کے دل میں اس کے لیے ایک نرم گوشہ ضرور پیدا ہو گیا ہے، لیکن افسر اگر پہلی ہی پوسٹنگ میں فلمی سین بنا لے تو پھر اگلی ساری زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔

ارسلان اپنے کام سے جھوک سیال کی دہشت کو کم کرنے میں اور پولیس کے نظام کو بہتر کرتے میں ضرور کامیاب دکھائی دے گا اور وقت ثابت کرے گا جس نے کام کرنا ہے مشکل جگہ اور جبری پوسٹنگ میں بھی کر جانا ہے۔

ارسلان کا کردار ایک طرف پولیس کے نظام میں موجود مشکلات دکھا رہا ہے تو دوسری طرف اس نظام کی خامیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔

نوری جیسے جیسے پیرل سائیں پہ کھل رہی ہے، وہ اس کی ذہانت سے متاثر ہونے لگا ہے۔ ذہانت کا حسن سے بڑا نشہ ہے مگر یہ وہی جانے جس نے کیا ہو۔ پیرل اپنے بڑھاپے کے عشق سے مارا جائے گا کیوں کہ نوری سے کیے گئے وعدے میں سازش ہو گئی ہے اور تاریخ گواہ ہے عورت اگر انتقام پہ آ جائے تو سلطنتیں ریت ہو جاتی ہیں۔

آصف رضا میر کے کام پہ بات کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے برابر ہے۔ حبا بخاری ہیروئن ہیں مگر ماہم شاہد نے کردار میں روح پھونکی ہوئی ہے۔ فرحان سعید کے لیے شاید یہ کردار عمر بھر کی پہچان بن جائے۔

وہ لڑکیاں جو حویلیوں کے خواب دیکھتی ہیں ان کو یہ ڈراما بھی ضرور دیکھنا چاہیے کیوں کہ ہم نے عمل نہیں بانٹا خواب تقسیم کیے ہیں۔

پوری ٹیم کی آؤٹ ڈور محنت دکھائی دے رہی ہے جو قابل تحسین ہے۔

ڈراما تین زبانوں میں لکھا گیا ہے، اردو، سرائیکی اور پنجابی لیکن پروڈکشن ٹیم نے ایک بات کا خیال نہیں رکھا کہ اگر یہ پنجاب کی زمین کی کہانی ہے تو پولیس کی وردی خاکی ہونی چاہیے تھی۔

’ہم ٹی وی‘ سے ڈراما نشر کیا جا رہا ہے، مومنہ درید پروڈیوسر ہیں۔ ہاشم ندیم نے ڈراما لکھا ہے۔ ان سے ہم نے پوچھا کہ ہمارے یہاں فکشن اور ڈراما دونوں میں مکمل مردانہ کردار نہیں لکھتے، آپ کے ہاں مرد کا ایک بھرپور کردار دکھائی دیتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

انہوں نےکہا کہ ’مضبوط عورت کی کہانی کبھی مکمل نہیں ہو گی جب تک مضبوط مرد کا کردار نہیں لکھا جائے گا۔‘

جھوک سرکار میں نظام کے جس ’پہلو وفا‘ کی طرف اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک نشاندہی کی ہے۔ اس کو مدنظر رکھتے سماج میں بہتری والا خواب مکمل ہو سکتا ہے؟

تو انہوں نے مختصر جواب پہ اکتفا کیا

وفا شرط ہے چاہے نظام ہو یا رشتہ۔ ۔ ۔ باقی بہتری کی امید پہ تو دنیا قائم ہے۔

ہم نے بھی اسی امید کی روشنی میں ہم ٹی وی کی سکرپٹ انچارج سائرہ غلام نبی سے مجموعی کہانی پہ بات کی تو انہوں نے کہا ’ڈرامے کی کہانی بظاہر بہت سادہ ہے لیکن حقیقی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے جیساکہ ہم شہر میں رہنے والوں کو نہیں پتہ چلتا کہ دیہاتوں کے اندر کیا صورت حال ہے۔ قانون موجود ہے مگر لا قانونیت اپنی جگہ مضبوط ہے۔ غریب زور آور کے سامنے ہمیشہ کی طرح مجبور اور بےبس ہے۔‘

بہاولپور کے گرد و نواح میں گرد اور گرمی کی شدت و تپش کی آنچ دیکھنے والے کو محسوس ہوتی ہے۔ مجموعی طور پہ نہ کسی فیک دنیا کی کہانی نہیں ہے یہ ایک حقیقی دنیا کی عکاسی کرتی کہانی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ