’گرو:‘ معاشرے کی بیمار تصویر

ڈرامے میں معاشرے کی بیمار تصویر دکھائی جا رہی ہے اور جہاں سے تصویر اٹھائی گئی ہے وہاں زیادہ تر کردار بیمار ذہینت اور رویوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

ڈرامے میں سماجی رویوں کا عکس دکھایا گیا ہے (ایکسپریس ٹی وی)

ڈراما سیریل ’گرو‘ جیسے آتے ہی چھا گئی ہے۔ ہر طرف اس کی بات ہو رہی ہے کیوں کہ ایک منفرد بات تو ہوئی ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

جینڈر کے حوالے سے ہم ابھی تک بات راز میں کرتے ہیں۔ پردے داری رکھی جاتی ہے، یہاں پہلا پردہ جو اٹھایا گیا ہے سامنے انسان کھڑا نظر آتا ہے، جو احساس بھی رکھتا ہے اور حساس ہے۔ تیسری جنس، مخنث، خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر کوئی بھی لفظ استعمال کر لیجے، پہلا تعارف انسان ہی کا ہے جس کی تمام تر جبلتیں فطری ہیں۔

ڈرامے میں اسی نکتے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

ٹرانس جینڈر بل پاس ہوا تواس کی بہت مخالفت کی گئی لیکن ایک انسان ہونے کے ناطے صرف کسی ملک میں آپ کا شناختی کارڈ ہی نہ بن سکے تو آپ کے جینے مرنے کے تمام معمے مسائل بن جاتے ہیں۔ مسائل انسان کو مزید حساس کر دیتے ہیں۔

یہ افراد وہ ہیں جن کو سپیشل افراد جتنی قبولیت بھی سماج میں نہیں ملتی، الٹا ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ڈرامے میں گرو اور اس کے چیلوں کو بھی یہ سب سہنا پڑ رہا ہے۔

یہ سماجی رویوں کا عکس ہے۔ یہ معاشرے کی بیمار تصویر ہے جو دکھائی جا رہی ہے۔ جہاں سے تصویر اٹھائی گئی ہے وہاں زیادہ تر کردار بیمار ذہینت و رویوں سے بھرے ہوئے ہیں۔

ایک چھوٹی سی غریب بستی کی کہانی ہے جہاں چھوٹے چھوٹے گھروں میں پہلے ہی بڑی بڑی کہانیاں چل رہی ہوتی ہے لیکن ان بڑی کہانیوں کی بجائے سب کی نظر، نفرت، بغض اس محلے پر ہے جنہیں ہم خواجہ سرا کے نام سے جانتے ہیں۔

ڈراما پہلی ہی قسط میں کہانی کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ پہلے ہی سین میں گرو اور اس کے چیلوں کا سماجی و معاشی پس منظر دکھا دیا جاتا ہے۔ کہانی کی لمبی چوڑی تمہید نہیں باندھی گئی بلکہ سادہ سے دو ٹوک لفظوں میں بتا دیا گیا ہے کہ فاخرہ کے میاں کو اب تیسری بار بیٹی نہیں چاہیے، ورنہ وہ اسے گھرسے نکال دے گا۔ دو جڑواں بچیاں پیدا ہو جاتی ہیں، جن میں سے ایک بچی نرس کے توسط سے گرو کی گود تک آ جاتی ہے۔

گرو نے اس کی ماں کو تلاش کرنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا۔

محلے میں کسی بےاولاد جوڑے کو بھی بچی دے دی لیکن اس عورت کو اولاد سے زیادہ عزیر اپنی سابقہ محبت ہے۔ وہ شوہر کے کام پہ جانے کے بعد اسی پرانے محبوب سے فون پہ گلے شکوے کرنے میں مصروف رہتی ہے، ایسے میں وہ ماں کا منصب کیسے سنبھال سکتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گرو کو مریم یعنی اس بچی سے عشق ہو گیا تھا۔ اس کے عشق کی کیمسٹری فزکس بنی اور وہ روتی بچی کو واپس گھر لے آیا اس نے اسے پالنے کا، قبول کرنے کا اور ڈاکٹر بنانے کا ارادہ کر لیا۔

اس نے ذمہ داری قبول کر لی کہ کوئی بھی انسان ہو بس ایک مضبوط ارادہ ہی کرنا ہوتا ہے اور وہ دنیا کے طوفان جھیلنے کے قابل ہو جاتا ہے۔

کہانی جو ایک ایدھی کے جھولے پہ ختم ہو سکتی تھی، وہ بستیوں کے مکانوں میں کبھی ختم نہیں ہوتی۔ محرومیاں خواب، خواب زندگیاں اور زندگیاں کہانیوں کو جنم دیتی رہتی ہیں۔

گرو کے چیلوں نے بھی اسے سمجھایا کہ وہ غلط کر رہا ہے مگر ایک انسان جب ٹھان ہی لے تو کر ہی گزرتا ہے۔ وہ مخنث سہی انسان تو ہے۔

کہانی کا حاصل کل انسانیت ہے، جس میں زمان جیسے باپ نہ بننے کے قابل مرد، نازو جیسی بےوفا بیوی، فاخرہ جیسی بیٹیاں پیدا کرنے والی وفادار خاتون اور نصیر کی باجی انتہائی غیر صحت مند سماج کے عکاس ہیں۔ وہ سماج جس میں ایک نامکمل مرد یا نامکمل عورت گرو انسانیت کی علامت بنتا ہے مگر اس کے گرد بھی نامکمل انسان شیطانی روپ میں بجلی اور کشش ہیں، جو بچی کو چالاکی سے اٹھا کر لے گئے ہیں۔

ڈراما ایکسپریس ٹی وی سے ہر بدھ کو نشر کیا جا رہا ہے۔ علی رحمٰن خان ہر طرح سے ایک جاندار کردار نبھا رہے ہیں انہوں نے کردار میں روح ڈال دی ہے۔ بلاول حسین عباسی ڈائریکٹر ہیں۔

موسیقی عمدہ ہے جس میں تصوف کا رنگ نظر آتا ہے۔

مصنف کی ذیل میں کسی کے نام کی بجائے صرف ’لکھاری‘ لکھا ہوا ہے۔ لکھاری کی تلاش ایکسپریس کے کونٹینٹ ڈیپارمنٹ تک لے گئی تو معلوم ہوا یہ آئیڈیا علی معین کا تھا۔ علی معین سے رابطہ ہوا تو انہوں ڈرامے اور مصنف کے حوالے سے بتایا کہ ’گروکی کہانی کا جو بین السطور ہے وہ خالصتاً اخلاقی ہے کیوں کہ ایک ایسے معاشرے میں موجود ہیں جہاں انسان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا کیوں کہ ہم مردوں اور عورتوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔

’ایک وجہ یہ بھی تھی کی نیکی کسی خاص جینڈر، کسی خاص طبقے کی میراث نہیں ہے۔ مثال کوئی بھی بن سکتا ہے جیسے اس میں دکھایا ہے کہ ایک ہیجڑا اس میں ایک سڑک سے ملی بچی کو پالتا ہے اس کی تعلیم کے لیے سب کچھ کرتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ’ فروری2021 میں میں نے ایک کمپنی بنائی جس کا نام تھا ’لکھاری۔‘ اس میں یہی خیال تھا کچھ لکھنے والے مل کر کام کریں گے۔ اب یہ ادارہ نہیں ہے لیکن ہم نے چند پروجیکٹ مل کر کیے اور اچھا تجربہ رہا۔

’میرے علاوہ اس میں ابو راشد، ثقلین عباس، سجاد حیدر زیدی تھے جس کا بھی آئیڈیا ہوتا تھا اس پہ مل کر کام کرتے تھے۔ جیسے گرو میرا آئیڈیا ہے تو اس کے سین کی ترتیب میں دے لیتا تھا، پھر ہم سب سین بانٹ لیتے تھے اور جو لیڈ کر رہا ہوتا تھا وہ اس کو فائنل لُک دے کر چینل کی طرف بھیج دیتا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ