’محبت گمشدہ میری،‘ محبت یا کشش؟

اسلام آباد کے جدید کلچر میں نوجوانوں کے جذباتی مسائل اجاگر کرنے والا ڈراما حبس زدہ ماحول میں ناظرین کے دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔

ڈراما حبس زدہ ماحول میں نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے (ہم ٹی وی)

وقت نے جس رفتار سے سفر کیا ہے اس میں بہت کچھ نارملائز ہو رہا ہے، یہ الگ بات کہ ہم اس حقیقت کو اپنی روایت پسندی میں مان نہیں رہے۔

ڈراما ’محبت گم شدہ میری‘ نے اس سچائی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ڈراما نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے اس کی شہرت سرحد پار تک سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ایک بار ہماری اس ٹین ایجر نسل کی بات تو سنیں۔

یہ تو ففتھ جنریشن وار کی بات ہوئی ہے لیکن جوانی ہمیشہ اتنی ہی طاقت سے آتی ہے کہ سمجھنے سمجھانے کا موقع نہیں ملتا۔

 ڈراما اسلام آباد کے جدید کلچر میں نوجوانوں کے جذباتی مسائل اور ان کے والدین کے تجرباتی مصائب دکھا رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ والدین نے حالات کے مطابق لچک دکھائی ہے۔ ایک جواز پر مبنی مکالمہ ہو رہا ہے جس میں دونوں نسلوں کی مجبوریاں سامنے آ رہی ہیں۔

دونوں ہی نسلیں سچائی پیش کر رہی ہیں لیکن دونوں کی سچائی اپنے اپنے وقت کی سچائی ہے۔

صائم کالج میں پڑھ رہا ہے، شاعر ہے، گلوکار ہے۔ کالج کے لڑکوں نے مل کر ایک میوزیکل بینڈ بنا رکھا ہے۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب لڑکوں کو یونہی اپنا آپ ہیرو ہیرو لگتا ہے اور صائم تو شاعر و گلوکار بھی ہے۔ حساس انسان ہے۔ زندگی کو جذبات سے سمجھنا اس کی فطری مجبوری ہے۔ وہ گلو کار بننا چاہتا ہے مگر اس والدین چاہتے ہیں وہ کسی مناسب فیلڈ میں اپنا کیریئر بنائے۔

صائم کے پڑوس میں زوبی کا خاندان بھی رہتا ہے صائم اور زوبی ساتھ کھیل کر جوان ہوئے ہیں۔ زوبی بھی فرسٹ ایئر میں پڑھ رہی ہے۔

اس لیے دونوں ٹین ایجر نسل کے نمائندہ ہیں۔

زوبی کا خاندان روایتی ہے اس کے تایا اور ابا کا خاندان ایک مثالی روایتی زندگی گزار رہا ہے۔ زوبی کی بہن روشنا کی منگنی بچپن میں ہی اپنےاکلوتے تایا زاد دانیال سے ہو گئی تھی جو شادی کے بعد رشتے میں بدل گئی ہے۔ اس طرح اب دانیال اس کا بہنوئی اور تایا زاد بھائی مل کر ایک مردانہ ذمہ داری والا روایتی کردار بنتا ہے۔

یوں ایک ہی گھر میں روایت اور جدت آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔

اسلام آباد کا کلچر اپنے بھرپور جوبن پر نظر آ رہا ہے۔ اس شہر کا جو نشہ ایک نوجوان شاعر اور آرٹسٹ لڑکی پر ہو سکتا ہے وہ دکھایا گیا ہے، لیکن بچپن کے چھوٹے چھوٹے ایڈونچرز مل کر ان کی دوستی محبت میں کب بدل گئی دونوں کو اندازہ تب ہوا جب صائم کا ایک دوست رقیب بن کر درمیان میں آتا ہے۔

پھر صائم کی والدہ بارش میں اسے زوبی کو انگوٹھی پہناتے دیکھ لیتی ہیں۔ کبھی دونوں کو ٹیرس پہ باتیں کرتے روشنا اور دانیال پکڑ لیتے ہیں تو دونوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ بڑے ہو گئے ہیں اب یہ سب نامناسب ہے۔

یہ پہلا انکشاف اور پابندی ہر نوجوان کی طرح انہیں اندر سے توڑپھوڑ دیتی ہے وہ چھپ کے ملنے لگتے ہیں۔

یہاں سے زندگی بغاوت کی راہ دیکھ لیتی ہے۔ ایک دوسرے کے گھر داخلہ ممنوع ہو جاتا ہے تو ایک دراڑ محبت کو جنون میں بدل دیتی ہے اور وہی سب ہوتا ہے جو جنون میں ہو سکتا ہے۔

دونوں پر پابندیاں بڑھتی ہیں تو جدید دور کی ویڈیو کال ساتھ بن جاتی ہے۔ صائم گھر چھوڑ کے چلا جاتا ہے، ڈاکو رات کو حملہ کر دیتے ہیں، گولی چلتی ہے وہ بچ جاتا ہے مگر صائم کے والدین اکلوتے لاڈلے بیٹے کی ضد کو تدبیر میں بدل دیتے ہیں اور اس کا رشتہ زوبی کے گھر لے کر چلے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زوبی اسے وعدہ کرتی ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے سامنے اس کا ساتھ دے گی۔ ان سب واقعات کی حقیقت روشنا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

روشنا اور زوبی میں کردار کا جو فرق ہے وہ یہی سے شروع ہو جاتا ہے کہ اسے بچپن سے علم تھا کہ دانیال اس کا ہمسفر ہے اس لیے اس کے جذبے روانی سے چلے۔ زوبی ایسے کسی بندھن میں نہیں تھی لہٰذا اس نے صائم کے ساتھ جو بچپن گزارا، اس کا تقاضا کافی حد تک یہی تھا کہ صائم اس کا ایڈونچر پارٹنر رہا تھا تو زندگی کا ساتھی بھی بن سکتا ہے۔

یوں بھی پہلی پہلی محبت آس پاس ہی ہوتی ہے اور جنونی ہوتی ہے۔

صائم زوبی کے لیے شاعری کرنے لگا، اس کو گیت سنانے لگا۔ لڑکیوں کو بھی اس عمر میں چاہے جانا اچھا لگتا ہے لیکن روایت پسند گھرانے کا دباؤ، ان سے جذبے چھین لیتا ہے۔ جذبے رنگ بدل لیتے ہیں اور راہ فرار نکال لیتے ہیں۔

صائم کے والدین رشتہ لے کر زوبی کے گھر چلے تو گئے ہیں مگر زوبی کے گھر والوں نے انکار کر دیا ہے۔ صائم کی ماں نے حقیقت سامنے رکھ دی ہے۔ بات زوبی پہ آ کر رکی ہے کہ اب وہ صائم سے محبت کا اظہار کر پاتی ہے نہیں؟

کہانی بہت تیز رفتاری سے سفر کر رہی ہے۔ تجسس کا ایک لمحہ گزرتا ہے تو دوسرا واقعہ اچانک رونما ہو جاتا ہے۔ ردعمل کا فلسفہ مقابل آ جاتا ہے جس سے پھر کہانی اٹھان بھر لیتی ہے۔

دیکھتے ہیں گمشدہ محبت کو منزل ملتی ہے یا کہیں رستوں میں ہی کھو جاتی ہے، سمجھتے ہیں یہ محبت ہے یا عمر کا تقاضا اور کشش؟

نوجوانوں کو ڈراما دیکھتے رہنا چاہیے کہ کچھ حقائق جذبات اور محبت سے بڑے ہوتے ہیں۔

راحت جبین مصنفہ ہیں، شاہد شفاعت ڈائریکٹر ہیں۔ ہم ٹی وی سے یہ ڈراما حبس زدہ ماحول میں نوجوانوں کے دل کی دھڑکن بنا ہوا ہے۔

موسیقی دل کو چھو لینے والی ہے، ہونی بھی چاہیے کہ ہیرو گلوکار دکھایا گیا ہے۔ شاعری کہانی اور ماحول کے عین مطابق ہے۔ سبط حسن شاعر و موسیقار ہیں۔

 نوجوان کاسٹ ہے اور اپنے فن کا لوہا منوا رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ