پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازعات، یہ نیا معمول نہیں: تجزیہ کار

دفاعی ماہر اور محقق ضیاالحق شمسی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسے نارمل صورتحال نہیں کہہ سکتے۔ کوئی ایٹمی طاقت ایک روز اٹھ کر دوسرے پر الزام نہیں لگا سکتی۔‘

پاکستان رینجرز اور انڈین بارڈر سیکیورٹی فورس کے سپاہی 14 مئی 2025 کو لاہور، پاکستان کے قریب واہگہ بارڈر پر پاکستان انڈیا مشترکہ چیک پوسٹ پر اپنے قومی پرچم اتار رہے ہیں (محسن رضا/ روئٹرز)

ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی کا اعلان تو ہو چکا ہے لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات ’نیو نارمل (نیا معمول)‘ نہیں ہے۔

پاکستان اور انڈیا کے مابین حالات کی کشیدگی کی ایک تاریخ ہے۔ تاہم سال 2025 میں یہ کشیدگی ایک ایسی صورت اختیار کر گئی جہاں انڈیا نے پہلگام واقعے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہراتے ہوئے اس کے مختلف شہروں پر چھ اور سات مئی کی درمیانی شب میزائل داغے۔

اس کے بعد انڈیا پاکستان کے مختلف شہروں میں وقتا فوقتا میزائل اور ڈرون حملے کرتا رہا۔ انڈیا کے اس اقدام کا ردعمل پاکستان نے جوابی کارروائی کر کے 10 مئی کو دیا۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان تو ہو گیا لیکن حالات تاحال پہلے کی طرح معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔

جہاں ایک جانب پاکستان اور انڈیا کے سفارتی روابط تقریبا معطل ہیں وہیں دوسری جانب معمولی سرحدی واقعات سے بھی فوری ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

علاقائی منظر نامہ پر دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا کمزور اور باہمی مذاکرات کے عمل میں تعطل آتا نظر آ رہا ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے مابین کشیدگی کا ’نیو نارمل‘ کیا ہے؟ اور کیا انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو بحال نہ کرنے کا عندیہ اس نئی حقیقت کا حصہ ہے؟ انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین سے بات کر کے ان سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔

ڈاکٹر عادل سلطان ایئر یونیورسٹی کے شعبہ فضائیہ و سٹریٹیجک سٹڈیز کے سربراہ ہیں۔ ان کے مطابق ’فضائی بالادستی نیا معمول ہے جبکہ سندھ طاس معاہدہ ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ انڈیا موجودہ صورتحال سے واپس جاتا نظر نہیں آ رہا اور ہمیں سفارتی و قانونی آپشنز دیکھنا پڑیں گے کیونکہ فوج استعمال کرنا پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔‘

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سندھ طاس معاہدہ کا انحصار بین الاقوامی برادری کی حمایت پر ہے اور اگر پانی بند کیا جاتا ہے تو پاکستان کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔‘

ایئر یونیورسٹی کے استاد نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی یہی کہا تھا کہ اسے شملہ معاہدہ ختم کرنے کا حق حاصل ہے اور اس کا یہی مطلب ہے کہ اس معاملہ کو کسی بھی بین الاقوامی فورم پر اٹھایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا انڈیا کے مطابق یہی نیو نارمل ہے، میرے خیال میں دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان کچھ ’نارمل‘ نہیں، اسی لیے حالیہ دنوں اسرائیل اور ایران کے مابین جنگ بھی اس لیے کشیدہ ہوتی چلی گئی کیونکہ دونوں ایٹمی ریاستیں نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایٹمی ہتھیار نہ ہونے کی وجہ سے جنگ کسی بھی سطح تک بڑھ سکتی ہے لیکن ایٹمی دفاعی صلاحیت کے باعث جنگ نے شدت اختیار نہیں کی۔‘

ڈاکٹر ضیا الحق شمسی ایک دفاعی ماہر اور محقق ہیں جو سینٹر فار ایرو سپیس اور سکیورٹی سٹڈیز کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کوئی نیا معمول نہیں ہے۔

’ہم اسے نارمل صورتحال نہیں کہہ سکتے۔ کوئی ایٹمی طاقت ایک روز اٹھ کر دوسرے پر الزام نہیں لگا سکتی۔‘

انہوں نے سال 2019 میں ہونے والے پلوامہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’اس وقت ایسا ہونا اور آج 2025 میں ہونا نیو نارمل کسی صورت نہیں ہے۔ دو ایٹمی طاقتوں کو کسی صورت میں جنگ میں نہیں جانا چاہیے، پھر چاہے وہ مکمل اور بھرپور جنگ ہو یا چھوٹی جنگ کیونکہ چھوٹی جنگ میں بھی غلطی کی گنجائش ہے اور غلطی ہی سے جنگیں ہوتی ہیں۔‘

ضیا الحق شمسی نے کہا پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بہت چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور اندازوں سے ہوئیں، اس لیے دو ریاستوں میں اتنی گنجائش نہیں ہونی چاہیے کہ کسی ایک کے ’پاگل پن کی وجہ سے پورا خطہ جوہری جنگ کا سامنا کرے۔ اس لیے میں نہیں  سمجھتا کہ یہ کسی بھی صورت میں نارمل تھا۔‘

انہوں نے سندھ طاس معاہدہ سے متعلق کہا کہ انڈیا کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا غیر قانونی ہے، انڈیا کے پاس ابھی اتنی گنجائش بھی نہیں کہ وہ پانی کو ذخیرہ کر سکے یا اسے روک سکے، اسے ہر حال میں پانی کھولنا ہوتا ہے۔

’دراصل یہ سیاسی چال ہے کہ وہ پہلے پانی کو روکے گا اور پھر اچانک پانی کو بغیر ہمیں اطلاع دیے چھوڑ دے گا تو ہمارے علاقے میں سیلاب وغیرہ آ جائے گا۔‘

ڈاکٹر شمسی کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس شملہ معاہدے کا جواز بھی ہوگا تو جب بھی کبھی دونوں ملک آپس میں بیٹھ کے بات چیت شروع کریں گے تب ہی ہم مستقبل کا لائحہ عمل دیکھ سکیں گے۔

نیا معمول کچھ بھی نہیں ہے ’ہم اسے جب یہ کہہ دیں گے تو اس کا مطلب ہم یہ مان رہے ہیں کہ انڈیا جب چاہے وہ ہر دو سال بعد ہمارے اوپر حملہ کر دے گا۔ یہ نارمل صورتحال نہیں ہے کیونکہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان بار بار ایسے واقعات نہیں ہونے چاہییں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان