صدیوں پہلے، جب مغربی طاقتیں دنیا پر غالب تھیں، انہوں نے اپنی سامراجی کارروائیوں کو ’سفید فام آدمی کا بوجھ‘ اور ’ظاہر تقدیر‘ جیسے تصورات سے جائز قرار دیا۔ آج، اسرائیل جیسے علاقائی غلبہ رکھنے والے ممالک اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کے لیے زیادہ نرم اور مہذب زبان استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے 2009 میں اپنے نوبیل امن انعام کی تقریر میں کہا تھا: ’تاریخ کے آغاز میں، جنگ کی اخلاقیات پر سوال نہیں اٹھایا جاتا تھا؛ یہ صرف ایک حقیقت تھی، جیسے خشک سالی یا بیماری۔‘
اس کے برعکس، آج کے رہنما اور پالیسی ساز جنگ پر واضح اخلاقی بنیادوں پر بات کرتے ہیں۔ خاص طور پر کئی ممالک، بشمول امریکہ، ایک اخلاقی نظریہ استعمال کرتے ہیں جسے Just War Theory یا جائز جنگ کا نظریہ کہا جاتا ہے، تاکہ وہ بیرونِ ملک اپنی فوجی کارروائیوں کو جواز دے سکیں۔ حالیہ برسوں میں ہم نے اس نظریے کو خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں لاگو ہوتے دیکھا ہے۔
امریکی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل جیمز ایم ڈوبک نے کہا: ’جنگ، مختلف صورتوں میں، مستقبل قریب میں ہمارے سٹریٹجک ماحول کی ایک حالت بنی رہے گی۔ اگر ہم دنیا میں کم از کم کسی حد تک امن برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انسانوں کی تکلیف کو محدود کرنا چاہتے ہیں، تو ضروری ہے کہ اسرائیل جیسی عالمی طاقتیں جنگ سے متعلق اخلاقی نظریات کا غلط استعمال نہ کریں اور ایسے غیر ذمہ دارانہ فیصلے نہ کریں جو مشرقِ وسطیٰ اور دیگر جگہوں پر عام شہریوں کو متاثر کریں۔‘
جسٹ وار تھیوری کا نظریہ صدیوں پرانا ہے جس کا مقصد جنگ کی ہولناکیوں کو محدود کرنا ہے۔ اس کے دو اہم حصے ہیں:
جنگ چھیڑنے کے اصول (Jus Ad Bellum):
- جائز وجہ (Just Cause): جنگ صرف اپنے دفاع کے لیے یا کسی بے بس قوم کو بچانے کے لیے جائز ہے۔ جارحیت، انتقام، یا ملک پر قبضہ کرنا جائز وجوہات نہیں ہیں۔
- درست اختیار (Legitimate Authority): جنگ کا فیصلہ صرف ملک کی جائز حکومت یا اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کر سکتے ہیں۔
- صحیح ارادہ (Right Intention): جنگ کا اصل مقصد امن قائم کرنا ہونا چاہیے، نہ کہ نقصان پہنچانا یا زمین ہتھیانا۔
- آخری حربہ (Last Resort): جنگ سے پہلے بات چیت، پابندیاں، اور دباؤ جیسے تمام پرامن طریقے آزما لینے چاہئیں۔
- کامیابی کا امکان (Probability of Success): جنگ سے کچھ حاصل ہونے کا معقول امکان ہونا چاہیے۔ بے نتیجہ جنگ جائز نہیں۔
- تناسب (Proportionality): جنگ سے حاصل ہونے والے فائدے، جنگ کی وجہ سے ہونے والی تباہی (جانی نقصان، ملبہ، تکلیف) سے کہیں زیادہ ہونے چاہئیں۔
جنگ کے اصول (Jus In Bello):
- فرق کرنا (Discrimination): فوجی اور عام شہریوں میں واضح فرق کرنا ضروری ہے۔ جان بوجھ کر شہریوں، ہسپتالوں، سکولوں یا مذہبی مقامات کو نشانہ بنانا سختی سے منع ہے۔ ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ عام لوگوں کو نقصان نہ پہنچے۔
- حد سے زیادہ طاقت نہ استعمال کرنا (Proportionality): کسی فوجی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اتنی ہی طاقت استعمال کرنی چاہیے جتنی ضروری ہو۔ عام لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچانا یا بے تحاشا تباہی مچانا منع ہے۔
- اگر جسٹ وار کے ان اصولوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ایران نے اسرائیل پر حملہ نہیں کیا بلکہ اسرائیل نے محض اس خدشے پر ایران پر حملہ کیا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے قریب ہے اور ایک بار اس کے پاس نیوکلیئر بم آ گیا تو وہ اسرائیل پر حملہ کر سکتا ہے۔
- اس کے علاوہ آخری حربے کو نظر انداز کیا گیا۔ حملے سے پہلے امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے لیے سخت محنت کر رہا تھا۔ اسرائیل نے ان سفارتی کوششوں کو کامیاب ہونے کا موقع دیے بغیر فوجی کارروائی کر کے ’آخری حربے‘ کے اصول کو پامال کیا۔
- اس کے علاوہ اسرائیل نے خطرناک تناسب کا خیال نہیں رکھا۔ اسرائیلی حملے سے پورے مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ پھوٹنے کا بہت بڑا خطرہ ہے۔ اپنی انا اور ضد کے لیے خطے کو تباہ کن جنگ کی بھٹی میں ڈال دینے کا خطرہ مول لینا تناسب کے اصول کے بالکل خلاف ہے۔
- جسٹ وار کے اصولوں کی دھجیاں اڑانا صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان مسلح تصادم تک ہی محدود نہیں ہے۔ غزہ میں جاری جنگ نے جسٹ وار تھیوری کے ہر اصول کو روند ڈالا ہے، خاص طور پر جنگ کے اصول۔
عام شہریوں کا بے دریغ قتل عام:
- اب تک 35,000 سے زیادہ فلسطینی شہری مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 14,000 سے زیادہ بچے ہیں۔
- 75,000 سے زیادہ زخمی ہیں، جن میں سے بہت سے معذور ہو چکے ہیں۔
- غزہ کے 70% سے زیادہ گھر، سکول، ہسپتال، مساجد، یونیورسٹیاں اور مارکیٹیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔
حد سے زیادہ طاقت کا استعمال:
- حماس کے چند جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کے لیے پورے پورے محلے ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے ہیں۔ یہ بالکل تناسب کے خلاف ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
- دنیا کے انتہائی گنجان آباد علاقے میں 2,000 پاؤنڈ وزنی بموں کا استعمال کیا گیا ہے، جن سے پورے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔
- شہریوں پر سفید فاسفورس جیسے جلا دینے والے ہتھیاروں کے استعمال کے ٹھوس ثبوت سامنے آئے ہیں۔
فوجی اور شہری میں کوئی فرق نہ کرنا:
- بھوکے لوگوں پر اس وقت گولہ باری کی گئی جب وہ خوراک کے تھیلے لینے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔
- اسرائیل کی طرف سے بتائے گئے محفوظ علاقوں (جیسے کہ رفح شہر) پر بھی مسلسل بمباری کی گئی۔
- غزہ میں داخلے کے تمام راستے بند کر دیے گئے، جس سے خوراک، پانی، دوائیوں اور ایندھن کی شدید قلت ہو گئی۔ یہ اجتماعی سزا ہے جو جنگی اصولوں میں سختی سے منع ہے۔
- ہسپتالوں (جیسے الشفا ہسپتال) پر فوجی چھاپے مارے گئے، جن کی وجہ سے زخمیوں اور ڈاکٹروں کی اموات ہوئیں۔ اسرائیل کا یہ کہنا کہ حماس ان ہسپتالوں کا استعمال کر رہا تھا، ہسپتالوں کو مکمل تباہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
جنگ کے اصل مقصد سے انحراف:
کچھ اسرائیلی وزرا اور اراکین پارلیمنٹ نے کھلم کھلا فلسطینیوں کو غزہ سے زبردستی نکالنے اور غربِ اردن (مغربی کنارے) میں مزید غاصب یہودی بستیاں بسانے کی بات کی ہے۔ اس سے ’صحیح ارادے‘ کے اصول پر سوال اٹھتا ہے۔
اسرائیل کے حالیہ اقدامات – ایران پر حملہ، غزہ میں جاری قتل عام، اور لبنان کی سرحد پر جارحیت – واضح کرتے ہیں کہ ایک تو اسرائیل انتقامی کارروائیوں کو دفاع کا نام دے رہا ہے اور اپنی کارروائیوں میں وہ بے گناہ شہریوں کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا۔
اسرائیل کی جانب سے کی گئی کارروائیوں سے پہلے وہ بات چیت اور سفارتکاری کو صحیح طریقے سے آزمانے سے انکاری رہا ہے اور وہ عالمی برادری کی تنبیہات اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو یکسر نظر انداز کر رہا ہے۔
جسٹ وار تھیوری کوئی فرضی اصول نہیں ہے۔ یہ انسانی تہذیب کی اس کوشش کا حصہ ہے کہ جنگ کی وحشت کو کچھ اخلاقی حدوں میں باندھا جائے۔ اسرائیل کا ایران پر حملہ اور غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے، وہ ان اخلاقی حدوں کا صریحاً انہدام ہے۔
اسرائیلی فوج کی کارروائیاں نہ صرف غزہ کیتباہی پھیلا رہی ہیں، بلکہ پورے خطے کو ایک ایسی آگ میں دھکیل رہی ہیں جس کے نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا کی خاموشی اور امریکہ سمیت کچھ طاقتوں کی حمایت، تاریخ کے صفحے پر ایک سیاہ دھبہ بن چکی ہے۔ یہ المیہ صرف ایرانیوں اور فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری انسانیت کی اخلاقی شکست ہے۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔