’جن زادہ‘ یا انسان زادہ؟

اس ڈرامے کو اگر آپ علامتی کہانی کے طور پہ دیکھیں کہ جنات دراصل وہ رویے ہیں جو انسانوں کو کھا جاتے ہیں تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔

انسانی کہانیوں سے ہٹ کر جناتی ڈراما ناظرین کو اچھا لگ رہا ہے اور مقبولیت سمیٹ رہا ہے (ہر پل جیو)

’جن زادہ‘ ڈرامے میں ایک جن کے خاندان کا ایک انسانی خاندان سے واسطہ پڑ گیا ہے یا ایک انسان کے خاندان کا جنات کے خاندان سے تعلق بن گیا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

جن نے شادی شدہ انسانی لڑکی ابیہا سے شادی بھی کر لی ہے اور اس کا بچہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔

ڈرامے میں جناتی کردار زیادہ مضبوط اور متحرک ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے جن کی اولاد کی بات ہو رہی ہے اس لیے اس کے بہت سے مناظر اور واقعات کو انسانی عقل کے پیمانوں پہ پرکھا نہیں جا سکتا۔

کہنے سننے کو تو اسے تھرل یا ہارر ڈراما میں شمار کیا جائے گا لیکن پاکستان نے ابھی ڈراما کی صنعت نے ایسی ترقی نہیں کی کہ ایسی کسی کہانی کا بجٹ اورتکنیک دستیاب ہو۔

اسے اگر آپ علامتی کہانی کے طور پہ دیکھیں کہ جن وہ رویے ہیں جو انسانوں کو کھا جاتے ہیں تو لطف دوبالا ہو جائے گا کیونکہ ایک تو کہانی اساطیر جیسی ہے، دوسرے آؤٹ ڈور بہت خوبصورت ہے۔ آؤٹ ڈور ڈراما ہمارے یہاں بہت کم لکھا اور فلمایا جاتا ہے کیونکہ اس کے لیے بجٹ زیادہ درکار ہوتا ہے۔

’جن زادہ‘ میں بھی شروع کی اقساط کے بعد کہانی کو گھر سے گھر تک محدود کر دیا گیا ہے جو کہانی کے مزاج کے خلاف ہے۔

عدنان ایک مکالمہ پہلی ہی قسط میں ہے کہتا ہے: ’ماں وہ ہوائی چیزیں ہوتی ہیں ہوا کے ساتھ ہی اڑ جاتی ہیں۔‘ تو گویا ڈرامے کے سین بھی ہوائی یعنی بیرونی ہی رہنے چاہیے تھے۔

ابیہا کے والد ایک امیر انسان تھے۔ شکار پہ گئے تو ان سے ایک ہرن شکار ہو گیا جو اس وقت ہرن کے روپ میں جن کی بہن تھی۔ وہ مر گئی۔ جن نے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔

ابیہا کی شادی عدنان سے ہو گئی جو گرچہ عدنان کی پسند تھی لیکن اس کے والدین کو دولت کا لالچ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شادی کے بعد ابیہا اور عدنان پاکستان کے شمالی علاقہ جات کی طرف ہنی مون کے لیے جاتے ہیں۔ راستے میں گاڑی خراب ہو جاتی ہے اور ان کو ایک رات اسی ویران وادی میں گزارنا پڑتی ہے۔ پہاڑی سے نیچے ایک مقامی انسان ان دونوں کو ایک وادی میں لے جاتا ہے۔ وہ مقامی انسان اصل میں وہی جن تھا اور وہ سب گھر والے جن کا گھرانہ تھا اور وادی جنات کی وادی تھی۔ جن نے ایک رات میں ہی چمتکار دکھا دیا۔ ابیہا سے شادی بھی کر لی اور وہ امید سے بھی ہو گئی۔

عدنان یہاں پہلے بھی آیا ہوا تھا، اس لیے وہ ہوٹل کے ایک مقامی باشندے زمان کو جانتا تھا۔ جب وہ صبح گاڑی کے مکینک کو لایا تو نہ گاڑی خراب تھی اور زمان کے بقول نہ ہی پہاڑ کے نیچے کوئی بستی آباد ہے۔

عدنان کی اماں نے جلد لالچ دکھاتے ہوئے ابیہا کے سامنے کروڑوں کا مطالبہ بھی رکھ دیا، عدنان کو نوکری کی غرض سے بیرون ملک بھی جانا پڑ گیا ہے۔

ابیہا کے والد اور اس کے اپنے بینک اکاؤنٹ کسی وجہ سے فریز ہو گئے، گویا ابیہا عدنان کے ساتھ نہیں جا سکی اور عدنان کے والدین کا خواب بھی ٹوٹ گیا ہے۔

اب عدنان کے والدین طلاق کا سوچ رہے ہیں اور ایک طلاق یافتہ امیر زادی سے اس کی شادی کروانا چاہ رہے ہیں۔

اس دوران ابیہا کے والدین اسی جن کی وجہ سے زندہ نہ رہے۔ ساس بستر پہ چلی گئی۔ جو جو ابیہا کے قریب تھا، مارا گیا یا بیمار ہو گیا۔

ابیہا بےبس ہو کر واپس شمالی علاقہ جات والے گھر میں چلی جاتی ہے جہاں جن اس کا ملازم بن کے ساری ذمہ داریاں اٹھا لیتا ہے اور وہ اپنے چند ماہ کے بیٹے کو کسی طور چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔

اب یہاں غور کریں تو جناتی رشتے اخلاقی اعتبار سے انسانی رشتوں پہ فوقیت لے گئے ہیں۔ جن بہن سے بھی پیار کرتا ہے، بیوی اور بچے سے بھی مخلص ہے لیکن وہ شر کی علامت بھی ہے۔

عدنان واپس آتا ہے تو حالات دیکھ کر ابیہا پر بہتان لگا دیتا ہے۔ دل صاف کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حالات نے ابیہا کو جن زاد کے پاس رہنے کے لیے بےبس کر دیا ہے۔

بچے کا دل میڈیکل رپورٹ میں منفرد نظر آتا ہے۔ ڈرامے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، لیکن ڈرامے کو واپس آؤٹ دوڑ پہ لے آنا چاہیے ورنہ اپنی مقبولیت اور کہانی کی تاثیر کھو دے گا۔

اسے باقاعدہ ہارر ڈراما نہیں کہا جا سکتا، نہ ہی اس طرح کے ڈراموں والے جن اس میں ہیں کہ خوف آئے۔ نہ بہت سے مناظر خوف زدہ کرتے ہیں، بس جن کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں۔ یہاں بھی نظر بد والی علامت بن سکتی ہے۔

ابیہا کا کردار جیسا تھا اس کے ساتھ جو واقعات ہو رہے ہیں اسے ڈر لگنا چاہیے تھا مگر اس نے اداکاری میں کہیں کوئی خاص تاثر نہیں دیا، وہ بالکل روانی میں چلی ہے جیسے اس پہ پہلے سے جن کا سایہ تھا جیسے وہ جنات کو پہلے سے جانتی تھی اور پھنس انسانوں میں گئی ہے یا اداکاری کرتے ہوئے نازش جہانگیر کسی آؤٹ ڈور کیف میں تھی۔

مرکزی کردار اس کے بعد سید جبران کا رہ جاتا ہے جو فیروز اور برہان کے روپ میں نظر آ رہا ہے۔ کبھی شیطانی قوت لگتا ہے، کبھی فرشتہ صفت لگتا ہے لیکن کردار کا حق ادا ہو رہا ہے۔

ڈراما جیو ٹی وی سے نشر کیا جا رہا ہے۔ محبت اور انتقام کی اساطیری اور داستانی قسم کی جمالیاتی کہانی سید نبیل اور شاہد نظامی نے مل کر لکھی ہے۔ ڈائریکٹر نجف بلگرامی ہیں جب کہ پروڈیوسر حسن ضیا ہیں۔

انسانی کہانیوں سے ہٹ کر جناتی ڈراما ناظرین کو اچھا لگ رہا ہے اور مقبولیت سمیٹ رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ