صوبہ خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں منگل کی صبح ایک دھماکے میں سات سے 10 سال کی عمر کے چار بچوں سمیت پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
ایمرجنسی ریسکیو سروسز کے ترجمان بلال احمد فیضی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پشاور کی ایک مصروف سڑک پر منگل کی صبح نو بج کر 10 منٹ پر دیسی ساختہ بم دھماکہ ہوا۔
پشاور کے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ کے ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ زخمی بچوں میں سے دو کی حالت تشویش ناک ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دھماکے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔
پشاور اور صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں اس سے قبل ہونے والے حملوں کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش قبول کرتی رہی ہے۔
نو سال قبل دسمبر 2014 میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کی تاریخ کے مہلک حملے میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس میں 120 سے زائد بچوں سمیت 150 افراد جان سے چلے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لیے فوجی آپریشن بھی کیے گئے لیکن اب بھی عسکریت پسند اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ آٹھ سالوں کی نسبت 2023 میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔