اب تو لطیفہ سنانا بھی مشکل ہو گیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ لگتا ہے کہ اگلے چند برسوں کے اندر اندر مزاح کا صفحہ بالکل کورا رہ جائے گا کیوں کہ ہر لطیفے سے کسی نہ کسی طبقے یا گروہ کی دل آزاری کا خدشہ رہے گا۔

آج کل مزاح تخلیق کرنا مشکل ہے مگر آفرین ہے سوشل میڈیا کے مزاح نگاروں پر جو روزانہ ایسے نت نئے چٹکلے (میمز) بناتے ہیں کہ بندہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے (پیکسلز)

وہ زمانے گئے جب لوگ ایک دوسرے کو میراثی، نسلی اور خواتین کے لطیفے بلا روک ٹوک سناتے تھے۔ اب ایسی آزادی نہیں رہی اور لفظ میراثی بولنے سے پہلے بھی 10 مرتبہ سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں دوسرا بندہ آپ کو دقیانوسی نہ سمجھ بیٹھے۔

اسی طرح محفل میں نسلی لطیفے سنانے سے پہلے بھی نظر دوڑانی پڑتی ہے کہ کہیں کوئی ایسا شخص تو نہیں بیٹھا جو بعد میں نسل پرستی کا دعویٰ دائر کر دے گا۔

خواتین سے متعلق تو خیر لطیفہ گوئی کا اب سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ادھر آپ نے ان پر کوئی فقرہ کسا، ادھر آپ پر فتویٰ صادر ہو جائے گا کہ آپ نے سیکسٹ ریمارکس دیے ہیں۔

میں نے قصداً یہاں ایل جی بی ٹی کا ذکر نہیں کیا کیوں کہ ان کے بارے میں لطیفے سنانا پہلے جتنا آسان تھا، اب اتنا ہی مشکل ہے، ہمارے ملک کی تو خیر ہے لیکن مغربی ممالک میں ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ایل جی بی ٹی پر جملہ کستے ہوئے اقوام متحدہ کے کسی میثاق کی خلاف ورزی نہ ہو جائے۔

اصولاً ان حالات میں مزاح تخلیق کرنا مشکل ہو جانا چاہیے، مگر آفرین ہے سوشل میڈیا کے مزاح نگاروں پر جو روزانہ ایسے نت نئے چٹکلے (میمز) بناتے ہیں کہ بندہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

ایل جی بی ٹی کو ہی لے لیں، بظاہر جدید دور میں یہ ایک ’نوگو ایریا‘ ہے لیکن اس پر بھی یار لوگوں نے ایسی ایسی زبردست میمز بنائی ہیں کہ جن سے کسی کی تضحیک کا پہلو بھی نہیں نکلتا اور مزاح بھی بھرپور ہوتا ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ ہو:

اے میری غیر بائنری اولاد!

جی، میرے غیر صنفی والد!

تم کو بتانا تھا کہ رات کا کھانا تیار ہے اگر کھانا چاہو تو۔ ۔ ۔ مگر بےشک اس کے لیے تمہاری پیشگی رضامندی ضروری ہے۔

آہا۔ ۔ ۔ مگر میں رضامند نہیں، ابھی ڈنر کے لیے راضی نہیں۔

اچھی بات ہے مگر شاید ایک آدھ گھنٹے میں تمہارا ارادہ بدل جائے اور تم کھانے کے لیے آمادہ ہو جاؤ، اس دوران تمہارا دوسرا غیر صنفی والد لاؤنج میں بیٹھ کر ذرا سستا لے گا۔ کہیں یہ بات تمہیں گراں تو نہیں گزری!

آں، میں نہیں جانتا کہ یہ بات مجھے گراں گزری یا نہیں، سچ پوچھیں تو مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا محسوس کرتا ہوں۔

یقین کرو، مجھے بھی نہیں پتہ، جانو!

جانو!!! اوہ میرے خدایا کیا تم نے مجھے جانو کہا؟

اوہ میرے خدا، مجھے معاف کر دو۔

یہ تو مجھے ہراساں کرنے کے مترادف ہے۔

پلیز، اس کے بارے میں ٹویٹ مت کرنا۔

وہ تو میں نے کر بھی دی۔

چلو، پھر تو میرا کیریئر برباد ہو گیا۔

ہاں تو آپ کو بات کرنے سے پہلے 20 مرتبہ سوچنا چاہیے تھا۔

ہم سڑک پر آ جائیں گے۔

مجھے اس کی پروا نہیں کیونکہ قطع نظر اس بات سے کہ تم لوگ میری جسمانی راحت کا کس قدر خیال رکھتے ہو، میرے جذبات زیادہ اہم ہیں۔

اوکے، ٹھیک ہے، اب میں لاؤنج میں جا کر رونے لگا ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے مگر تمہیں جواباً مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔

میں کہوں گا بھی نہیں۔

میں نے جتنی مرتبہ بھی یہ کلپ دیکھا ہے تخلیق کار کو داد دیے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس میں جس طرح غیر محسوس طریقے سے جدید دور کی نزاکتوں پر چوٹ کی گئی ہے وہ قابل تحسین ہے۔

مجھے یہ خوش گمانی ہے کہ میں اقلیتوں اور پسے ہوئے طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حساسیت کا خیال رکھتا ہوں، ایل جی بی ٹی افراد بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ non gender specific  یا non binary لوگ شاید اس کلپ کو دیکھ کر محظوظ نہ ہوں اور سمجھیں کہ اس سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اپنی تمام تر مثبت سوچ کے باوجود میں خود کو ایل جی بی ٹی کی اس ’انتہاپسندانہ اپروچ‘ کے ساتھ متفق نہیں پاتا، مجھے لگتا ہے کہ اس ضمن میں وہ مضحکہ خیز حد تک آگے جا چکے ہیں۔

پیئرس مورگن ایک برطانوی صحافی ہیں، انہوں نے ایسے ہی ایک خاندان کا انٹرویو کیا جہاں بچوں کی پرورش اس طریقے سے کی جا رہی ہے کہ جس میں ان کی جنس کا اظہار ہی نہ ہو پائے۔ انٹرویو دینے والی/والے شخص، جس کا نام ہم ایکس تصور کر لیتے ہیں، خود کو غیر بائنری کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ خود کو مرد یا عورت کے طور پر شناخت نہیں کرتا۔

گھر میں اسے ملا کر کل تین افراد ہیں اور تینوں ہی غیر بائنری ہیں، قانونی طور پر ایکس کی شادی ان دونوں میں سے ایک کے ساتھ ہے جبکہ دوسرے کے ساتھ وہ ’ریلیشن شپ‘ میں ہے۔ ان تینوں کے دو بچے ہیں، جن کی پیدائش پر جنس تو معلوم ہے مگر ابھی وہ اسے خفیہ رکھنا چاہتے ہیں تاوقتیکہ بچے بڑے ہو کر خود اس بات کی شناخت نہ کر لیں کہ وہ کیا ہیں۔

میں یہ انٹرویو دیکھنے کے بعد سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بندہ پوچھے کہ اگر تم سب کو اپنی جنس کا علم ہی نہیں یا تم خود کو مرد یا عورت میں سے کچھ بھی نہیں سمجھتے تو پھر بچے کیا آسمان سے ٹپک رہے ہیں؟ اور پھر ان بچوں کا کیا قصور ہے جنہیں تم ’اینٹی جینڈر‘ کہہ کر پکار رہے ہو حالانکہ تمہیں اچھی طرح علم ہے کہ ان کی جنس کیا ہے۔

انٹرویو کے دوران جب ایکس سے یہ سوال پوچھا گیا تو اس نے اعتراف کیا کہ بچوں کی اناٹومی سے ان کی جنس تو معلوم ہے لیکن چونکہ ابھی وہ بچے ہیں لہٰذا جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنی جنسی شناخت کیسے کریں گے۔

ایک دلیل یہ دی جا سکتی ہے کہ ہمیں یہ سب کچھ اس لیے عجیب لگ رہا ہے کیونکہ ہمارے لیے یہ باتیں نئی ہیں، جس طرح کسی زمانے میں ہم جنس پرستی کو ناقابل قبول سمجھا جاتا تھا اور پھر آہستہ آہستہ لوگوں میں یہ شعور آیا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کا کوئی قصور نہیں اور یوں ان کے خلاف نفرت کم ہوئی، اسی طرح جنسی شناخت کے اظہار کے یہ نت نئے طریقے بھی دھیرے دھیرے ہمیں نارمل لگنے لگیں گے۔

ممکن ہے ایسا ہو جائے، لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر اس انفرادیت کا اختتام کیا ہو گا؟ کیا اس کی کوئی حدود بھی متعین کی جائیں گی اور اگر حدود متعین کرنا انسان کی آزادی میں خلل ڈالنے کے مترادف ہے تو پھر ہمیں اس دن کے لیے تیار رہنا چاہیے جب انسان خود کو کتوں کے طور پر شناخت کریں گے اور ٹی وی پر انٹرویو دیتے ہوئے کہیں گے کہ ہمیں he یا she کہنے کی بجائے it کہہ کر بلایا جائے۔

جن لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی، ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ برلن میں انسانوں کے ایک گروہ نے یہ کام شروع بھی کر دیا ہے، یعنی وہ اپنی شناخت کتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ 

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ 

مزاح کے دفاع میں اس تحریر کا یہ مقصد نہیں کہ مادرپدر آزاد ہو لیکن قدغنوں کی بھی ایک حد ہونی چاہیے، ورنہ اگلے چند برسوں کے اندر اندر مزاح کا صفحہ بالکل کورا رہ جائے گا کیوں کہ ہر لطیفے سے کسی نہ کسی طبقے یا گروہ کی دل آزاری کا خدشہ رہے گا۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ