اٹلی کے شہر پیسا میں واقع مینار کی طرح بولونیا کا گاریسنڈا ٹاور جو سن 1100 کے آپس پاس گھیبلین (سیاسی دھڑے) سے تعلق رکھنے والے منی چینجر خاندان کے لیے تعمیر کیا گیا بہت طویل عرصے سے ایک جانب جھکا ہوا ہے۔
اطالوی شاعر دانتے نے 14 ویں صدی کی دوسری دہائی میں لکھی گئی نظم (دا ڈیوائن کامیڈی) کے پہلے حصے’انفرنو‘ میں اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا: ’جب کوئی گاریسنڈا نامی ٹاور کو اس کے جھکے ہوئے حصے کے نیچے سے دیکھتا ہے اور پھر ایک بادل اس کے اوپر سے گزرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ مزید جھک گیا ہے۔‘
اکتوبر سے گاریسنڈا ٹاور لوگوں کے لیے بند ہے۔ سٹی کونسل کو ڈر ہے کہ ٹاور آخر کار بہت زیادہ جھک چکا ہے اور ہو سکتا ہے کہ گرنے کے قریب ہو۔ چوں کہ یہ ٹاور پرانے شہر کے مرکز میں واقع ہے اور اس کے چاروں طرف عمارتیں ہیں جن میں اتنا ہی اہم اور زیادہ بلند آنسینلی ٹاور بھی شامل ہے، گاریسنڈا ٹاور گرنے سے تباہی پھیل سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی ٹاور کو گرتے نہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسے تزئین و آرائش کے طویل اور مہنگے پراجیکٹ کے تحت مضبوط بنانے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔
اطالوی زبان میں لا ٹریٹا یا میناروں کا شہر کہلانے والے بولونیا میں بچ جانے والی 20 کے لگ بھگ دوسری ’بلندوبالا عمارتیں‘ بھی ہیں جن کا تعلق قرون وسطیٰ کے ساتھ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بولونیا کو دانتے کے زمانے میں اپنی 80 بلکہ ایک سو عمارتوں پر فخر رہا ہو۔ ممکن ہے کہ آٹھ سو سال قدیم بولونیا قرون وسطیٰ کے مین ہیٹن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بلکہ میں تو کہوں گا کہ مانچسٹر کے طور پر۔
رواں ماہ مانچسٹر کے اب تک کے بلند ترین ٹاور کی تعمیرومرمت کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ 76 منزلہ اس ٹاور کی اونچائی 750 فٹ ہے اور اس میں رہائشی فلیٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہ ٹاور تعیراتی کمپنی سمپسن ہوف کے ماہر تعمیرات نے سالبوائے نامی مقامی ڈولپر کے لیے ڈیزائن کیا۔ سالبوائے نے اس ٹاور کو ’مانچسٹر کے محنتی ماضی اور شہر کی جدید اور پرآسائش رہائش کے امتزاج کی حامل خصوصی رہائشی عمارت‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔
جدید مانچسٹر کے مکین اس وقت خوشحالی اور ترقی کے دور سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شہر میں اب 20 نئے بلند ٹاور ہیں جن میں سے ہر ایک کی بلندی 330 فٹ ہے۔ مزید ایک درجن ٹاور تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ کسی خارپشت کی طرح مانچسٹر کا نیا نظارہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ لندن یا قرون وسطیٰ کا بولونیا جہاں کئی ٹاورز موجود ہیں۔
اس سے آگے کیا ہے؟ شاید لاس ویگس کی طرح شہر کو مستقبل کے سالبوائے ٹاور جیسے بلند ہوٹل کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ ویگس میں کرسمس کے موقع پر 67 منزلہ عمارت فونٹین بلیو کھول دی گئی ہے۔ اس عمارت میں کُل تین ہزار 644 کمرے 36 بارز اور ریستوران ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ یہاں جوئے کی کتنی میزیں اور سلاٹ مشینیں ہیں۔
اس صحرائی شہر میں یہ سب سے زیادہ بلند رہائشی عمارت ہے۔ شاندار عمارت۔ بہرحال ہم امریکی رجحانات کی پیروی کرتے ہیں خواہ وہ بلند و بالا عمارتیں یا تفریحی سہولیات یا دونوں ہو جیسا کہ 737 فٹ بلند فونٹین بلیو۔
شہروں میں اونچی عمارتیں بنانے کی خواہش طویل عرصے سے بھرپور چلی آ رہی ہے۔ زمین سے فائدہ اٹھانے کی سوچ ایک طرف رہی، اگر زمین پر جگہ محدود ہو تو آسمان کی طرف جائیں یعنی بلند عمارتیں ہالی وڈ اداکار جمی کیگنی کے انداز میں بلند آواز سے پکارنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ (وائٹ ہیٹ نامی فلم میں کیگنی نے آئل ریفائنری کے ٹاور پر کھڑے ہو کر کہاتھا) ’میں کامیاب رہا!‘
اگر گھبلائنز (12 ویں اور 13 صدی کے سیاسی گروپ کے لوگ) بلند عمارتیں تعمیر کرتے ہیں تو آپ پورے اعتماد کے ساتھ شرط لگا سکتے ہیں کہ گیوویلفس (12 ویں اور 13 صدی کا مخالف سیاسی گروپ کے لوگ) بھی بلند عمارتیں بنائیں گے۔ یہی صورت حال آج ہے کہ ہوشیار پراپرٹی ڈولپر سٹی کونسلوں کے مالی مشکلات کا شکار ہونے یا ان کے احمقانہ فیصلوں یا تعمیراتی شعبے میں نئے آنے والوں کے شوق کی بدولت ’بلند سے بلند‘ عمارتیں بنانے پر زور دے رہے ہیں۔
صدیوں میں جو چیز نمایاں طور پر تبدیل ہوئی ہے وہ شہر کے ٹاوروں کا مقصد ہے۔ بولونیا کے ٹاور ہو ں سان جمی نینو کے ٹاور، 230 فٹ بلند 72 ٹاوروں نے طاعون کی وبا سے پہلے کے برسوں نے ان شہروں کا حلیہ بگاڑ دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹاور ان شہروں میں رہنے والے ایک دوسرے کے مخالف خاندانوں کی طاقت اور دولت کے اظہار کے لیے تعمیر کیے گئے۔ اگر ٹاوروں کا نگرانی کے لیے استعمال ہونے والی عمارتوں کے طور پر دفاع ہو بھی جائے تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان کے مالکوں کو ایک دوسرے کے سامنے موجود اینٹوں کے ڈھیر سے بڑھ کر کچھ نظر آیا ہو۔
جوں جوں ٹاوروں کی تعمیر عروج پر پہنچی، بلندی گرجا گھر بنانے والوں کا بھی جنون بن گئی۔ مثال کے طور پر آج بھی لنکن، ناروچ اور یارک کی بلند ترین عمارتیں ان کے قرون وسطیٰ کے گرجا گھر ہیں۔ 1311 سے 1549 تک لنکن کیتھیڈرل دنیا کی بلند ترین عمارت تھی یہاں تک کہ اس کی چھت کا بلند حصہ طوفان میں گر گیا۔
برطانیہ میں سالسبری کا گرجا گھر ولٹ شائر کے آسمان میں 404 فٹ بلند ہے۔ اگرچہ عمارت کی بلندی میٹروں میں ناپی جاتی ہے۔ اس گرجا گھر کو روسی جوڑے کو نووی چوک نامی روسی زہر دیے جانے کے بعد شہرت ملی۔ گرجا گھر دیکھنے کا شوقین جوڑا ایک بدقسمت روز یہ چرچ دیکھنے گیا۔
سالسبری گرجا گھر کے سپائر کی تعمیر مکمل ہونے کے فوراً بعد سیئنا کا پلازو پبلیکو کا بیل ٹاور شہر کے پیازا ڈیل کیمپو سکوائر میں بلند ہوا۔ چوک کو یکساں اونچائی کے ساتھ گھیرے میں لیے ہونے یہ عظیم الشان پلازہ شہر کے طاقتور ترین خاندانوں کی ملکیت تھا۔ ان خاندانوں نے اپنے حریف ٹاوروں سے نیچے اتر کر سٹی کونسل کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ علامتی ہم آہنگی کے ساتھ رہنے پر اتفاق کیا۔ اس وقت بلند تعمیرات کے معاملے میں سٹی کونسل کا حکم چلتا تھا۔ یہ شہری اور تعمیراتی تاریخ میں ایک اہم لمحہ تھا۔ شہری عمارتیں بلند ہو گئیں لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکی۔
85 سال تک مانچسٹر کا نیو گوتھک ٹاؤن ہال جسے الفریڈ واٹر ہاؤس نے ڈیزائن کیا اور وہ 1877 میں مکمل ہوا، شہر کی سب سے اونچی عمارت رہی۔ اس کا ٹاور 285 فٹ تک پہنچ گیا۔ 1962 میں اس کے اہم ترین حصہ پر سی آئی ایس (کوآپریٹو انشورنس) قابض ہو گئی۔ عمارت کا یہ قیمتی ترین حصہ شیشے اور فولاد سے بنا ہوا 387 فٹ بلند ٹاور پر مشتمل تھا جسے گورڈن ٹیٹ اینڈ جی ایس ہے نے تعمیر کیا۔
60 کی دہائی کے مانچسٹر کی نئی شکل 50 کی دہائی کا مین ہیٹن تھی۔ یہ بڑی بات ہے۔ یہ مین ہیٹن ہی تھا جس نے شہر کے مراکز کے بارے میں ہمارے خیال کو نئی شکل دی۔ یہاں تجارت نے فروغ پایا۔ تجاری سرگرمیاں ایسی عمارتوں میں جاری رہیں جن کے سامنے دنیا کے دوسرے شہروں کی عمارتیں بہت چھوٹی دکھائی دیں۔
سال 2000 میں نیویارک اور شکاگو پر بی بی سی ریڈیو کے لیے دستاویزی فلم بنانے کے دوران ایک اور پروگرام میں ہم نے لیورپول اور مانچسٹر کو دیکھا۔ میرے پروڈیوسر جین بیرسفورڈ نے ایلس آئی لینڈ میوزیم سے آڈیو آرکائیو تلاش کیا۔ بحر اوقیانوس کے پار سے آنے والے تارکین وطن نے ایک صدی پہلے کا بہترین وقت میں پہلی عالمی کے قریب نیو یارک پہنچنے پر کن حالات کا سامنا کیا؟
ہم نے آئرلینڈ کے ایک نوجوان شہری کو ’زمین آ گئی‘ کہتے ہوئے غور سے سنا۔ وہ بحری جہاز پر ایک طرف سے بھاگ رہے تھے۔ انہیں مجسمہ آزادی دکھائی دے رہا تھا جس کا وعدہ تھا کہ وہ قبول کرے گا۔ ’ان ایک دوسرے میں گھسے ہوئے لوگوں جو آزاد فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔‘ لیکن ان لوگوں کو مجسمہ آزادی کی بجائے انہیں پہلے بالائی حصہ اور پھر گھوتھ طرز کی نئی تعمیر شدہ 792 فٹ بلند کا باقی ماندہ حصہ نظر آیا۔ یہ دنیا کی بلند ترین عمارت تھی۔ اب امریکہ جہاں نیویارک واقع تھا، خوشی سے نہال ہمارے 18 سالہ آئرش شہری سے باتیں کر رہا تھا۔ یہاں آزادی سے سانس لینےکا موقع تھا اور گھومنے پھرنے کی آزادی تھی۔
چونے کے پتھر اور آگ میں پکائی گئی مٹی سے بنے ہوئے گوتھ طرز تعمیر کے پرنالوں، مینارچوں اور میناروں سجی وول ورتھ بلڈنگ کو ’کیتھیڈرل آف کامرس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ عمارت پانچ اور 10 سینٹ مالیت کی اشیا فروخت کرنے والے سٹوروں کے مالک فرینک ونفیلڈ وول ورتھ نے بنوائی جنہوں نے ذاتی محنت سے مقام حاصل کیا۔ کیس گلبرٹ نے عمارت ڈیزائن کی۔
اس عمارت میں زمین سے لے کر چوٹی تک کرائے کے دستیاب دفاتر موجود تھے۔ تعمیر کے لحاظ سے اس عمارت نے مذہبی اور شہری عمارتوں پر یکساں غلبہ حاصل کیا۔ اس کے بعد سے بلند عمارتوں کی تعمیر کی دوڑ میں اتنی ہی تیزی آئی جتنا زیادہ تجارتی خطرہ بڑھا۔ ضمنی قواعد نے بلند عمارتیں بنانے کی اجازت دی۔
1930 کی 1046 فٹ بلند کرائسلر بلڈنگ عمارت میں دفاتر قائم تھے۔ یہ شاندار عمارت ولیئم وین ایلن نے والٹر کرائسلر کے لیے ڈیزائن کی۔ 1250 فٹ بلند ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کی تکمیل سے قبل گیارہ ماہ تک یہ دنیا کی بلند ترین عمارت رہی۔ ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ ایک شاندار عمارت تھی جس میں دفاتر بنے۔ چھت پر مستول کی شکل کی خالی تعمیر نے اس عمارت کو مزید بلند کر دیا جس پر کھڑے ہو کر سر چکرا جاتا ہے۔
ففتھ ایونیو کے ساتھ بنی اس عمارت کے انتہائی بلند اور تیز ہوا کا سامنا کرنے والے مقام پر ایئر شپ سٹیشن قائم کرنے کی غیر روائتی تجویز سامنے آئی۔ امریکی سٹاک مارکیٹ کریش کر جانے کے بعد ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے نام سے مشہور عمارت ’ایمپٹی سٹیٹ بلڈنگ‘ کہلانی لگی حتیٰ کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران یہاں سرکاری اداروں اور متعلقہ کمپنیوں کے دفاتر قائم ہو گئے۔
اس کے بعد سے شہر کی کامیابی اور علامت ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کا مقابلہ 20 ویں صدی میں نیو یارک میں صرف ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹوئن ٹاورز سے کیا گیا۔ ٹوئن ٹاورز جو 1973 میں مکمل ہوئے انہیں مینورو یاماساکی نے ڈیزائن کیا۔ یہ ایک رئیل سٹیٹ پروجیکٹ تھا جس کا انتظام نیو یارک اور نیو جرسی کی پورٹ اتھارٹی نے کیا۔ یہاں بے شمار دفاتر قائم ہوئے۔
امریکہ کی زیر قیادت عالمگیریت کی علامت ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو 24 جولائی 2001 میں نیویارک کے پراپرٹی ٹائیکون لیری سلورسٹین کو فروخت کر دیا گیا۔ دو ماہ سے بھی کم عرصے کے بعد مجھے اخبار میں دو ہزار الفاظ پر مشتمل مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا۔ ’کیا یہ فلک بوس عمارت کا اختتام ہے؟‘ اگرچہ غور کرنے کے لیے بہت کچھ تھا ، لیکن میرے جواب کا خلاصہ صرف ایک لفظ میں کیا جاسکتا تھا یعنی نہیں۔
اس کے بعد سے جو چیز دیکھنے کے لیے دلچسپ رہی ہے وہ نہ صرف 21 ویں صدی کی عالمی فلک بوس عمارت کا شاندار اور بڑی حد تک سادہ ڈیزائن ہے بلکہ یہ حقیقت بھی ہے کہ اتنی بلند عمارتیں کاروباری یا شہری مقاصد جیسے کہ دفاتر کے لیے استعمال کیے جانے کی بجائے رہائشی ہیں۔ ہائی جیک کیے گئے طیاروں کو اونچی عمارتوں کے ساتھ ٹکرانے والے نفسیاتی مریضوں کے لمحہ بھر کے خوف کے باوجود، جو لوگ ایسا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ شہر کی گلیوں سے کہیں بلندی پر رہنے کا لطف اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
یہ ایک عجیب و غریب رواج ہے۔ نیو یارک میں انتہائی بلند اور انتہائی پتلی فلک بوس عمارتیں قائم ہیں جن میں ہر منزل پر اتنے کم اپارٹمنٹس جتنے کم ہونا ممکن ہے۔ شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ فلک بوس عمارت کا پورا فلور بھی اپنے لیے حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ عمارتیں ان امیر لوگوں کی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں جو پرتعیش طرز زندگی کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ان عمارتوں میں ہاٹ ٹب کی سہولت ہے۔ ان مخصوص عمارتوں میں ایک میں رہائش کے اخراجات ایک کروڑ سے تین کروڑ ڈالر ہیں۔
میں نے پہلی بار یہ پرکشش سہولتیں 432 ایونیوپارک میں دیکھیں۔ یہ عمارت 1396 فٹ بلند ہے۔ اسے آرکیٹکٹ رافیئل ونیولی نے تعمیر کیا۔ اس کی تعمیر 2015 میں مکمل ہوئی۔ تب میں مجھے گاریسنڈا ٹاور کو دیکھنے کے دانتے کے تجربے کا احساس ہوا۔ اڑتے ہوئے بادلوں سے یہ تاثر ملا کہ پینسل کی طرح پتلی عمارت جھکی ہوئی ہے۔
بعد ازاں میں نے پڑھا کہ 432 پارک لین میں سے غرانے اور چرچرانے کی آوازیں آتی تھیں۔ پانی رِستا تھا اور عمارت بجلی کے مسائل کا شکار تھیں اور لفٹیں پھنس جاتی تھیں۔
ونیولی نے میڈیا کو بتایا کہ ٹاور کی مربعوں اور تکونوں سے آراستہ ساخت کو اخبارات نے وہ ’کوڑا دان‘ قرار دیا تھا جو ویانا کے آرکیٹکٹ جوزف ہوف مین نے 1906 میں ڈیزائن کیا۔ اگرچہ ہوف مین کا بنایا ہوا کوڑا دان عمدہ ہے لیکن خاص طور پر کچھ ایسے لوگ جو پارک ایونیو میں واقع خوبصورت اپارٹمنٹ خریدنے کے لیے بڑی رقم خرچ کرنا چاہتے ہیں، وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے گھر کا موازنہ ’کوڑا دان‘ کے ساتھ کیا جائے۔
میں صرف تصور ہی کر سکتا ہوں کہ ایک پتلی فلک بوس عمارت میں زندگی کیسی ہوتی ہے۔ میں نے طوفانی موسم میں شکاگو کے ایک ٹاور میں بیت الخلا کے بیسن میں ایک طرف سے دوسری طرف پانی بہتے ہوئے دیکھا ہے۔ اپارٹمنٹ کی مالکن نے کہا کہ ان کی بلیوں کو اس کے ساتھ کھیلنا پسند ہے۔ یہاں تک کہ خراب موسم میں شکاگو کے ڈارتھ ویڈر کی طرز کے جان ہینکوک سینٹر کے 96 منزل پر واقع بار جو اب بند ہو چکا ہے میرا ڈرائی مارٹینی سے بھرا جام اگر ہلایا نہیں گیا تھا تو اپنے آپ ہل کر رہ گیا کسی بارٹینڈر کی مدد کے بغیر۔
دنیا کا سب سے اونچا خالص رہائشی ٹاور، جس کی اونچائی 1550 فٹ ہے، اس وقت مین ہیٹن کا سینٹرل پارک ٹاور ہے۔ تاہم دیگر عمارتیں چاہے وہ دبئی میں ہوں یا مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں کہیں اور شاید انڈیا اور روس میں، جلد ہی اس کا مقابلہ کرنے لگیں گی یا آگے نکل جائیں گی۔ بلندی کو ایک طرف رکھ کر ان عمارتوں کے ڈیزائن سادہ ہونا ہیں انہیں ارادتاً ممتاز بنایا جانا ہے۔ اگر وہ بولونیا اور سان جی مینانو کے ٹاوروں کی طرح طوفانوں، زلزلوں یا جنگوں کے اثرات کے نتیجے میں غائب ہو گئیں تو کیا ہم ان کی تعمیر نو کرنا چاہیں گے؟
جولائی 1902 میں جس دن سینٹ مارکس کا بیل ٹاور منہدم ہوا جس میں اکیلی رہنے والی بلی جان سے گئی، اسی دن وینس شہر نے اعلان کیا کہ عمارت کو حصہ بہ حصہ اسی مٹیریل کی مدد سے دوبارہ تعمیر کیا جائے گا جس سے وہ پہلے بنا ہوا تھا۔ وینس اپنے سب سے اونچے اور عظیم ترین بیل ٹاو جو پہلی بار 1514 میں مکمل ہوا، کے بغیر ناقابل تصور ہوگا۔ 1995 میں اس ٹاور کو جھکا ہوا پایا گیا۔ 2013 میں مکمل ہونے والے تعمیرومرمت کے پانچ سالہ پروگرام میں ٹاور کی بنیادوں کو درست حالت میں رکھنے والے ٹائٹینیم دھات سے بنے رسے شامل ہیں جنہیں ضرورت کے مطابق حرکت دی جا سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جہاں تک شہر کی بلند و بالا فلک بوس عمارتوں کے مستقبل کا تعلق ہے، چاہے وہ تجارتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بنائی گئی ہوں یا بہت زیادہ شوقین مزاج گھر مالکان کے لیے تو اس صورت میں پیرس کو دیکھنا بنتا ہے۔
1973 میں 689 فٹ بلند اور کسی چوکیدار کی طرح نظر آنے والے اور انتہائی متنازع موں پارناس ٹاور کی تکمیل کے بعد شہر کے مرکز میں نئی عمارتوں پر 121 فٹ سے بلند ہونے پابندی عائد کردی گئی۔ اس پانبدی کے تحت 12 سے زیادہ منازل نہیں بنائی جا سکتی تھیں۔ 2010 میں میئر برنارد دیلانوئی کی جانب سے یہ پابندی ختم کر کے 180 میٹر (590 فٹ) کی نئی حد مقرر کر دی گئی۔ مستقبل کے لا تور ٹرائی اینگل جسے سوئس ماہرین تعمیرات ہرزوگ اور ڈی میروں نے ڈیزائن کیا، ایک غیر روائتی کارٹون کی طرح نظر دکھائی دینے والا ٹاور ہے جو پیرس 15 میں واقع ہے۔ اس عمارت میں پیرس کے شہریوں کی تعلیم اور فائدے کے لیے دفاتر، ’پرتعیش ہوٹل‘ دکانیں، کانفرنس مرکز اور ثقافتی مرکز وغیرہ قائم ہیں۔ یہ عمارت اس حد تک بلند ہے جس کی اجازت دی گئی۔ اس طرح کی دوسری عمارتوں کی تعمیر روکنے کے لیے پورے وسطی پیرس میں 37 میٹر کی حد دوبارہ مقرر کر دی گئی۔
شہر کے مرکز کے عین مغرب میں خصوصی تجارتی علاقہ لا دیفینس فلک بوس عمارتوں سے بھرا ہوا ہے۔ اس علاقے کو شہر کا وہ حصہ بنایا گیا ہے جہاں ماہرین تعمیرات نشیب میں واقع مرکزی شہر پیرس کو نقصان پہنچائے بغیر مختلف طرز کی عمارتیں تعمیر کرنے کے تجربات کر سکتے ہیں۔
بولونیا کا قرون وسطیٰ کے جھکے ہوئے ٹاور کو بحال کرنا درست ہے۔ اس کے باوجود ہمیں سوچنا ہو گا کہ آیا ہم اپنے شہروں کو مزید اور زیادہ بلند عمارتوں سے بھرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر ان میں سے زیادہ تر عمارتیں رہائشی یا تجارتی مقاصد کے لیے ہوں اور ان میں شہریوں کے مفاد پر توجہ مرکوز نہ ہو؟ یہ وہ سوال ہے جس ہمیں سامنا کرنے ضرورت ہے اسی طرح جیسے سات سو سال قبل دانتے نے کیا تھا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent