منٹو کے آخری دن کیسے گزرے؟ ایک سائیکائٹرسٹ کے انکشافات

کیا منٹو کو بجلی کے جھٹکے لگتے تھے، کیا وہ پاگل پن کا شکار ہو گئے تھے؟ ملیے منٹو کا علاج کرنے والے ڈاکٹر سے جو خود بھی عمدہ ادیب ہیں۔

سعادت حسن منٹو صرف 43 سال کی عمر دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اردو ادب کو لازوال افسانوں اور خاکوں کا تحفہ دے گئے (پبلک ڈومین)

سعادت حسن منٹو کی زندگی اور فن کے مختلف پہلوؤں پر سینکڑوں ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں، لیکن ان کی زندگی پر ایک ایسے سائیکائٹرسٹ کے خیالات شاید پہلے سامنے نہیں آئے جنہوں نے منٹو کے آخری ایام میں ان کا علاج بھی کیا تھا۔

یہ سائیکائٹرسٹ بھی کوئی عام معالجِ امراضِ دماغ نہیں بلکہ حسن منظر ہیں، جو خود بھی صفِ اول کی فکشن لکھتے ہیں۔

کیا منٹو کو بجلی کے جھٹکے لگتے تھے، کیا وہ پاگل پن کا شکار تھے؟ ہسپتال میں ان کا رویہ کیا تھا؟ ان کا علاج کیسے کیا جاتا تھا، ڈاکٹر حسن منظر منٹو سے زیادہ طویل گفتگو کیوں نہیں کرتے تھے؟ منٹو نے کون کون سے افسانے کہاں سے سرقہ کیے، اس جیسے کئی اہم اور دلچسپ سوالوں کے جواب ہمیں حسن منظر نے فراہم کیے۔

ڈاکٹر حسن منظر، کم گو، ادبی حلقوں سے لاتعلق لیکن 89 سال کی عمر میں بھی فعال اور نابغۂ روزگار فکشن نگار۔ 2021 کی ملاقات میں انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں تھے جب منٹو لاہور کے میو ہسپتال کے نفسیاتی وارڈ میں زیر علاج تھے جسے اس وقت پاگل خانہ بھی کہا جاتا تھا۔

پہلی ملاقات تھی سو زیادہ کرید نہ کی مگر چند ہفتے پہلے جب ان سے ملاقات ہوئی تو نفسیات اور سب سے بڑھ کر انسانی رویوں کے طالب علم ہونے کے ناطے کرید تھی کہ شراب نے منٹو کو بیمار بنا ڈالا یا بیمار منٹو نے اپنا علاج شراب میں ڈھونڈا۔

منٹو سا شخص ذہنی بیماروں کے درمیان خود آتا تھا یا لایا جاتا تھا؟ وہاں اس کا برتاؤ کیسا ہوتا تھا؟ جو عمارت شراب اور غم ڈھا رہے تھے، ڈھتے ہوئے کیسی تھی؟ اس وقت کے مسیحا علاج کے محدود طریقوں میں رہ کر کیسے فکشن کے اس ناخدا کی مدد کرتے تھے؟ اس کے ذہن و جسم میں کیا چلتا تھا؟

اور پھر 18 جنوری 1955 کو منٹو کی سانس تھم گئی اور اس کی جاندار مٹی لاہور کی بےجان مٹی میں ملا دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حسن منظر اس وقت میڈیکل کے طالب علم تھے اور بعد میں ماہر نفسیات بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ منٹو کبھی بھی سائیکوٹک نہیں تھے یعنی ان کا حقیقت سے رابطہ منقطع نہیں ہوا تھا البتہ ہو سکتا ہے جگر کے سروسس کی وجہ سے ان پر نیم بےہوشی کی کیفیت آتی ہو۔ اسی قسم کی کیفیت شراب کے عادی افراد میں بھی آتی ہے اور delirium tremens کہلاتی ہے۔

ان دونوں ملتی جلتی کیفیات میں عارضی سائیکوٹک فیز آتا ہے۔ حامد جلال نے بھی ان سائیکوٹک دوروں کا ذکر کیا ہے۔ خاص طور پر رات کے وقت۔ قسم قسم کے visual hallucinations ان دوروں کا خاصہ ہوتی تھیں۔ حامد جلال نے اس بابت میں تفصیل سے لکھ رکھا ہے۔

جگر سے متعلق دماغی خلل کی بھی یہی علامات ہوتی تھیں۔ مریض کا سونے جاگنے کا معمول الٹ ہو جاتا اور منٹو رات کے وقت زیادہ چڑچڑے ہو جاتے۔ سو یہ جو قسط وار دیوانگی تھی، ایک مجموعی فرزانگی کے بیچ، اس کا ماخز جگر کا سروسس اور الکحل کا خمار اترنا ہو سکتے ہیں۔

مکمل سائیکوسس کے بارے میں ڈاکٹر حسن منظر کا موقف درست معلوم ہوتا ہے کہ اس دوران افسانے بھی لکھے جا رہے تھے، بیوی بچوں کی فکر بھی مانع تھی اور زندگی کی گاڑی گھسٹ گھسٹ کر ہی سہی، چل رہی تھی۔ حامد جلال نے اس کے بارے میں بھی لکھا ہے، خاص کر جو آٹھ مہینے انہوں نے شراب چھوڑے رکھی، اس میں وہ کافی فعال رہے۔

مظفر علی سید نے اپنی یادوں میں ہسپتال میں لکھے افسانوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر علی ہاشمی نے تو اپنے مضمون میں 127 کا ہندسہ بھی درج کیا، وہ افسانے جو لاہور میں شراب میں سمو جانے کے بعد لکھے گئے۔

ڈاکٹر حسن منظر نے اپنے میو ہسپتال کے دوروں کا احوال سناتے ہوئے بتایا کہ وہ ان کو وزٹ کرتے تھے، حال چال پوچھتے تھے، مسز منٹو سے بھی احوال لیتے تھے اور کسی چیز میں مدد درکار ہوتی تھی تو کر دیتے تھے۔

حسن منظر نے بتایا کہ وہ منٹو سے طویل گفتگو اور ہسپتال اور علاج پر بات کرنے سے گریز کرتے تھے کہ ’اس دور میں منٹو ہر بات میں افسانوی رنگ ڈال کر افسانہ لکھ ڈالتے تھے۔ بعد میں آپ جتنے مرضی جواز دیتے رہیں کہ میں نے یہ بات منٹو صاحب سے ایسے نہیں کی تھی۔‘

حامد جلال نے جو رشتے داروں کے ان سے کنی کترانے کا ذکر کیا ہے، اس کے پیچھے بھی یہ وجہ کارفرما ہوسکتی ہے۔ تارڑ صاحب نے بھی راکھ میں اس بات کا ذکر افسانوی رنگ میں کیا ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر نے منٹو کے شراب زدہ دور کی disinhibition (رکاوٹیں توڑنے کا عمل) کو بھی اچھے الفاظ میں یاد نہ کیا۔ فرمایا، ’ادیب پہ معاشرتی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ بڑے ادیب کو زیب نہیں دیتا کہ وہ معاشرے میں ذومعنی جملے زبان زد عام کرائے۔ کچھ منٹو کی شخصیت اور کچھ مے نوشی نے دماغ کی فرنٹل لوب کو متاثر کیا۔ ان کا دماغ تیل اور پانی کا فرق بھول گیا۔

’سوچا ہوا ہر خیال بنا فلٹر کے اگلا جانے لگا۔ الکحل کے بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے۔ ’بہت پھینٹ چکا، پتہ پھینک‘ اور اس قسم کے جملوں کا منچلے نوجوان انتظار کرتے تھے۔ اسی کیفیت میں انہوں نے کردار کشی کی حد تک لوگوں کے بارے میں غلط باتیں بھی لکھیں۔

’وی ایس ڈیسائی کو کہا کہ وہ ایک سطر کا مکالمہ نہیں بول سکتا تھا۔ نور جہاں کا بھی ایک متنازع خاکہ لکھ ڈالا۔ کامیڈینز کو بھی روند ڈالا۔‘

یہی بات حامد جلال نے اپنے ماموں کے بارے میں بھی لکھی کہ دوستوں میں اور دوستوں کے بارے میں عجیب و غریب باتیں پھیلانے میں منٹو کا کوئی ثانی نہ تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ لوگ ان کی باتوں کو سچ بھی مان لیتے تھے۔

بقول ڈاکٹر منظر، ’منٹو کے اندر کا فلمی صحافی شراب کے اثر میں سچائی سے بےحد دور ہو جاتا تھا۔‘

 ڈاکٹر منظر نے اس موقعے پر چند مثالیں بھی دیں کہ منٹو نے اس دور میں عالمی ادب کے فن پاروں سے سرقہ کر کے انہیں اپنی تخلیقات میں استعمال کیا ہے۔

مرتضیٰ جیلانی نے منٹو کا چکنے کاغذ پر ٹائپ کیا ہوا سکرپٹ ڈاکٹر حسن منظر کو دکھایا جس میں ایک سین تھا کہ خط کے لفافے کو کتے کی زبان کے تھوک سے بند کیا جاتا ہے۔ بقول حسن منظر کے یہ چارلی چیپلن کی فلم ’دا گریٹ ڈکٹیٹر‘ کے سین کا چربہ ہے۔ مگر یہ بات کچھ ذہن کو نہیں لگتی۔

اس فلم میں کوئی کتا نہیں ہے، البتہ ہٹلر خط لکھنے کے بعد سیکریٹری سے کہتے ہیں کہ وہ زبان باہر نکالے اور وہ اس سے لفافہ رگڑ کر بند کرتے ہیں۔

یہ بات بتانے کہ بعد ڈاکٹر صاحب میرا امتحان لینے کے درپے ہو گئے اور ایک سین سنایا جس میں پادری سرحد پر کھڑا کنفیوژن کا مارا ادھر ادھر دیکھتا تھا کہ میں کدھر جاؤں۔ میری سمجھ پر چھوڑا کہ اس سین کو منٹو نے کس افسانے میں شامل کیا ہے۔ افسانہ میرا پسندیدہ تھا اس لیے نہ کہتے بن رہی تھی، نہ چپ رہتے۔ کیا یہ فیضان نظر تھا یا الکحل کی کرامت؟

البتہ ڈاکٹر صاحب کو یاد نہیں رہا کہ منٹو نے چیخوف کے ایک شاہکار افسانے، جس کا انگریزی عنوان Sleepy ہے، کا تقریباً ہوبہو سرقہ کر کے افسانہ لکھا ہے۔

ہم نے ڈاکٹر صاحب سے منٹو کی شخصیت اور طرزِ عمل کے بارے میں پوچھا۔ یادیں ان کے لاہور کے اولین دنوں سے شروع ہوئیں۔ کیمل کلر کا اوور کوٹ، سفید شلوار کرتے پر۔ لکشمی چوک سے تانگے پر بیٹھتے تھے اور رائل پارک میں فلم والوں کے علاقے میں غائب ہو جاتے تھے۔

احمد راہی نے ڈاکٹر منظر کو بتایا کہ یہ منٹو ہیں اور بمبئی سے لاہور آ چکے ہیں۔ ’مرلی کی دھن‘ اسی زمانے کا افسانہ ہے۔ نیا ادارہ، بھاٹی گیٹ کے اندر، مدیر کی کرسی پر منٹو براجمان ہوتے تھے اور رائٹنگ پیڈ پر لکھتے رہتے تھے۔ بیچ میں کچھ دیر کے لیے غائب بھی ہو جاتے تھے۔ ڈاکٹر حسن منظر صاحب سے ایسے ہی ان کی جان پہچان بڑھی۔

ایک روز معلوم ہوا کہ منٹو اب تانگے پر نہیں بلکہ ڈاکٹر پیرزادہ کے وارڈ میں ملیں گے۔ شراب نوشی نے ان کے جسم و دماغ پر قبضہ جما لیا تھا زندگی موت کی جانب سرکنا شروع ہو گئی تھی۔

ہسپتال میں مسز منٹو کو جب ڈاکٹر منظر نے مرزا غالب کی زندگی پر بننے والی فلم ’مرزا غالب‘ دیکھنے کا بتایا تو وہ بولیں کہ ’منٹو کہتے ہیں کہ امرتسر میں جب لگے گی تو میں خود دیکھنے جاؤں گا۔‘

کھنچی ہوئی لکیر کی حقیقت سے شاید ان کے کردار آشنا تھے لیکن وہ ڈینائل میں تھے۔ یا پھر الکوحل اور سروسس سے متعلق دماغی خلل آنے لگا تھا۔ احمد راہی کو بھی منٹو نے کہا کہ ’میں ویکھنا چاھندا کہ بیدی نے میرے سکرین پلے نال کی کیتا اے۔‘

ڈاکٹر حسن منظر بھی مجھ سے متفق تھے۔ ’صبح سے شام تک مجھے لکھ کے دینا ہے، تب میری بوتل کی قیمت پوری ہو گی۔ یہ بوتل تھی جس نے منٹو کو مارا۔‘

اسی ضمن میں مجاز اور جوش کا بھی ساتھ ہی ذکر ہوا۔ مظفر علی سید نے الکوحل کی ایک اور کامپلیکیشن کے بارے میں لکھا کہ ان کی زبان پھولنے لگی تھی۔ افسانہ بھی مکمل پڑھ نہیں پاتے تھے۔ زیادہ شراب نوشی براہِ راست زبان اور منہ کی لائننگ کو بھی متاثر کرتی ہے اور وٹامن کی کمی بھی کرتی ہے جس سے زبان پھول جاتی ہے اور بولنا اور کھانا دوبھر ہو جاتا ہے، ساتھ ہی جینا بھی۔ دبے پاؤں زندگی کی نارمل روٹین اور صحت رخصت ہوتی جاتی ہے۔ منٹو یرقان کے لیے ہسپتال آئے اور شراب سے جگر فیل ہونے کی خبر ساتھ داخل ہونا پڑا۔

 اب آتے ہیں داخلے کے دوران، ہسپتال میں ان کی حالت زار پہ۔ خاص کر جب قویٰ بالکل ہی مضمحل ہو گئے۔

ڈاکٹر منظر نے بتایا کہ وارڈ میں ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود منٹو کا چلنا پھرنا اور متحرک رہنے کی مقدور بھر کوشش کرنا قابل ذکر ہے۔ اس وقت بھی ہڈیوں کے اس ڈھانچے کو اپنی وضع کا اتنا خیال تھا کہ کھرچ کھرچ کے شیو بنوائی جا رہی ہوتی تھی۔ حامد جلال نے اس منظر کو دیکھ کر یہی سوچا تھا کہ یہ منٹو کے کسی افسانے کا منظر ہے۔

پھر ڈاکٹر حسن منظر نے ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مسز منٹو کو ڈاکٹر نے منٹو کے لیے کچھ دواؤں کا بتایا جو مارکیٹ میں کمیاب تھیں۔ ڈاکٹر حسن منظر کو معلوم ہوا تو انہوں نے سیمپلز وغیرہ فراہم کرنے کی آفر کی جس پر مسز منٹو نے معذرت کر لی کہ منٹو امدادی دوائی قبول نہ کریں گے۔

بقول ڈاکٹر منظر، کثرت مے نوشی نے ابھی پندار کا صنم کدہ ویران نہ کیا تھا جو اکثر شراب نوشی کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ مظفر علی سید نے بھی اپنے مضمون میں ان کے ظرف کی تعریف کر رکھی ہے کہ منٹو صاحب نے کبھی پی کر غل غپاڑہ نہ کیا۔

 حامد جلال نے وہ دور بھی بیان کیا کہ جب منٹو مرضی سے ہسپتال داخل ہوئے اور علاج میں مکمل تعاون کیا۔ مظفر علی سید نے لکھا کہ ہسپتال داخلے کے لیے پہلے پہل وہ فیل مچاتے تھے مگر بعد میں تعاون کر لیتے تھے۔

ڈاکٹر منظر کا کہنا ہے کہ جب مے نوشی کا معاملہ حد سے بڑھ جاتا تھا تو عموماً انہیں عزیز وغیرہ لے کر آتے تھے۔

سبط حسن بھی اس زمانے میں میو ہسپتال میں داخل ہوتے تھے مگر وی آئی پی وارڈ میں۔ منٹو کا نصیب عوامی وارڈ ہی ٹھہرتا تھا۔ اسی وارڈ میں اختر شیرانی اور مولانا باری دنیا سے منہ موڑا کیے تھے۔ اس زمانے میں جنرل وارڈ کی حالت زار آج سے کئی گنا بہتر ہوتی تھی۔

پروفیسر اسلم پیرزادہ قابل ڈاکٹر تھے اور منٹو کو اس وقت میسر بہترین علاج ملتا تھا۔ یہ الگ بات کہ اس زمانے میں اچھی درد کشا ادویات، اینٹی بائیوٹکس، وٹامن، وغیرہ کچھ بھی تو آج جیسا نہ تھا۔ آج ان سب کے باوجود ودڈرال کی علامات کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔ مریض بہرحال ایک تکلیف سے گزرتا ہے۔ اس وقت منٹو کی تکلیف کا کیا عالم ہو گا۔

صرف barbiturates and bromides موجود تھے۔ ڈاکٹر منظر کا قیاس یہی ہے کہ یا انہیں برومائڈز پر رکھا گیا ہو گا یا فینوباربیٹون پر۔ اسی لیے تو اتنی تکلیف ان کا مقدر بنی۔

چسکیوں کی صورت شراب کی اجازت نجانے ڈاکٹر کی طرف سے تھی بھی یا نہیں۔ اگر تھی تو شاید اس ودڈرال کے عمل کو آسان اور بہتر کرنے کے لیے تھی۔

شاید اگر بہتر ادویات ہوتیں تو یہ کہانی کار اور جی پاتا؟ مگر وہ تو شاید اور جینا چاہتا ہی نہیں تھا۔ ہاں شاید وہ آخری دن کچھ آسان ہو جاتے، ان کے لیے بھی ان ان کے اہل خانہ کے لیے بھی۔ گھر رہ کر بھی مے نوشی کا علاج ہو سکتا تھا؟ اگر انہیں اس وقت گھر کے لیے کسی شے پر رکھا جاتا تو وہ افیم ہوتی اور وہ مزید مسائل کا انبار لے آتی۔

ایک آدھ قصے، فلم یا ڈرامے میں انہیں ای سی ٹی یعنی بجلی کا علاج لگتا بھی دکھایا گیا۔ نفسیاتی امراض کے علاج کا یہ طریقہ 1930 سے شروع ہوا تھا اور آج بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ہاں 80 کی دہائی میں نئی، موثر اور محفوظ ادویات کے آنے کے بعد اس کا استعمال کم ہو گیا ہے۔ مگر جتنا بھی موثر ہو، شراب یا منشیات کے علاج میں اس کا کردار نہ کبھی تھا اور نہ ہے۔ ڈاکٹر منظرنے بھی اس امر کی تردید کی کہ منٹو کو بجلی کے جھٹکے لگتے تھے۔  

عموماً مے نوش خاص کر آج کل کے، صرف شراب پر اکتفا نہیں کرتے اور چرس، افیم، ہیروئن، آئس اور نجانے کیا کیا استعمال میں لانا شروع کر دیتے ہیں۔ منٹو کے بارے میں میں نے ڈاکٹر منظر کو بہت کریدا مگر ایسی کوئی معلومات نہ ملی۔

صرف شراب ہی تھی جو پہلے منٹو کے فن کو، پھر جگر کو اور آخر میں ان کو کھا پی گئی۔ اک اور اہم اور متنازع چیز جو ڈاکٹر منظر نے کرشن چندر اور بذات خود منٹو کی بات کو نقل کر کے بتائی کہ منٹو کو سیکس ورکرز کا چسکا تھا۔ ممکن ہے انہوں نے کوئی جنسی انفیکشن وہاں سے لیا ہو۔ اس زمانے میں ایسی بیماریاں عام ہو رہی تھیں۔ اس پر شاید کچھ کام ہونا چاہیے۔ ممکن ہے ذہن پر اثرات اور کثرت مے نوشی میں اس کا بھی کوئی دخل ہو۔      

ڈاکٹر حسن منظر سے میں نے سوال کیا کہ انہیں اس عمر میں اندازہ تھا کہ نفسیاتی مریضوں کے وارڈ میں کثرت مے نوشی کے باعث داخل یہ آدمی کتنا عظیم کہانی کار ہے؟

جواب میں انہوں نے کہا کہ منٹو اس وقت اچھے رسالوں میں چھپ رہے تھے اور وہ (ڈاکٹر منظر) بھی اچھے رسالوں میں چھپنا شروع ہو چکے تھے۔ منٹو کی کچھ کہانیاں انہیں پسند تھیں لیکن انہیں معلوم تھا کہ ضروریات پوری کرنے کے لیے منٹو خود کو دہراتے ہیں۔

منٹو کی زندگی اور موت کو سمجھنے کے لیے مسز منٹو کے کردار کا جائزہ بھی بےحد ضروری ہے۔ جس طرح لوگوں نے عینی بی بی کی اماں جان پر مضمون لکھے، فیض احمد فیض کی اہلیہ ایلس فیض کو گلیمرائز کیا، مسز صفیہ منٹو کو بھی ایک لیجنڈ کو لیجنڈ رکھنے کا ڈیو کریڈٹ ملنا چاہیے۔

منٹو سے متعلق ہر مضمون اور یادداشت میں صفیہ بی بی کا ذکر آنا لازمی ہے۔

ڈاکٹر حسن منظر نے بتایا کہ ’1954 کے میو ہسپتال کے جب میں ’شرابیوں کے وارڈ‘ میں ورچوئل راؤنڈ کر رہا ہوتا تھا تو کئی بار صفیہ بیگم نظر آتی تھیں۔ اچھی اور مدبر خاتون کے طور پر، مردوں کے وارڈ کے باہر کھڑی ہوئی۔ شوہر کی فکر کرتی ہوئی، بیٹیوں کو تن تنہا پالتی ہوئی، شوہر کی شہرت اور لمحہ لمحہ موت کو جھیلتی ہوئی۔‘

ڈاکٹر منظر سے گفتگو کر کے ایسا معلوم ہوا جیسے صفیہ بی بی منٹو کی زندگی میں ایسے ہی شامل رہیں جیسے فلموں میں ایک معاون کردار ہوتا ہے، جو ہیرو کے پس منظر میں دبا رہتا ہے، مگر جسے ہٹا دیں تو فلم نامکمل رہتی ہے۔

مشہور فقرہ ’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے،‘ بےشک کلیشے کا درجہ اختیار کر گیا ہو، مگر جتنا یہ صفیہ بی بی پر فٹ بیٹھتا ہے، شاید ہی کسی اور خاتون پر۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی