پنجاب میں لائسنس یافتہ دکانوں پر شراب کیوں فروخت نہیں ہو رہی؟

پہلے تو لائسنس کی تجدید میں ضرورت سے زیادہ تاخیر کی گئی اور اس کے بعد ایسے طریقوں سے نظام چلایا جا رہا ہے کہ پرمٹ یافتہ گاہک شراب خریدنے سے گریزاں ہیں، بار مینیجر

تحریک انصاف کی حکومت کو پنجاب میں اس مالی سال کے آغاز پر شراب کی فروخت سے آمدن میں رکاوٹوں کا سامنا ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان کے صوبہ پنجاب میں گذشتہ دو ماہ سے سرکاری لائسنس یافتہ دکانوں پر شراب کی فروخت نہ ہونے کے برابر ہے۔

محکمہ ایکسائز کے اعدادوشمار کے مطابق پنجاب میں دس لائسنس یافتہ دکانیں رجسٹرڈ ہیں جبکہ صرف لاہور میں پرمٹ ہولڈرز کی تعداد نو ہزار کے قریب ہے۔ حکومت ہر سال جولائی کے ماہ میں نئے مالی سال کی آمد پر ان لائسنسوں اور پرمٹوں کی تجدید کرتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم تحریک انصاف کی حکومت کو پنجاب میں اس مالی سال کے آغاز پر شراب کی فروخت سے آمدن میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔

لاہور کے ایک ہوٹل میں قائم لائسنس یافتہ دکان کے مینجر کے مطابق وہ پچھلے دو ماہ سے اپنے دفتر میں نہیں بیٹھے کیونکہ شراب فروخت نہیں ہو رہی۔

ان کا کہنا تھا: ’پہلے تو لائسنس کی تجدید میں ضرورت سے زیادہ تاخیر کی گئی اور اس کے بعد ایسے طریقوں سے نظام چلایا جا رہا ہے کہ پرمٹ یافتہ گاہک شراب خریدنے سے گریزاں ہیں۔‘

مینجر نے انکشاف کیا کہ ’اس وقت جو شراب بلیک مارکیٹ میں موجود ہے، اسکی قیمتوں میں پانچ سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور نو سو روپے میں ملنے والی ووڈکا کی بوتل تین ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔‘

شراب کے بحران کی وجہ کیا؟

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پنجاب نے مالی سال 2018 میں شراب سے کمائی کا ہدف چار ارب 75 لاکھ روپے رکھا تھا، جو مجموعی طور پر 89 فیصد حاصل کیا گیا، یعنی دوسرے لفظوں میں صوبائی حکومت کو تین ارب 60کروڑ روپے سے زائد کی آمدن ہوئی۔

مالی سال 2019کے لیے یہ حدف ساڑھے چار ارب روپے رکھا گیا ہے، جو گذشتہ برس کی نسبت تقریباً 50 کروڑ زیادہ ہے۔ بحران کی یہ کیفیت اُس وقت پیدا ہوئی، جب جولائی کے پہلے ہفتے میں سرکاری اجازت ناموں کی تجدید میں بلاوجہ تاخیر سامنے آئی اور اس دوران سرکاری طور پر شراب کی خریدوفروخت مکمل طور پر بند رہی۔

بار مینجر صادق خان (فرضی نام) کے مطابق اجازت ناموں کی تجدید میں تاخیر کی بظاہر کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، تاہم وہ ایک ماہ تک ایکسائز دفتر جاتے رہے، جس کے بعد جولائی کے آخری ہفتے میں ان کے ہوٹل میں واقع بار کے لائسنس کی تجدید کی گئی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ بعض ایکسائز افسران ان اجازت ناموں کی راہ میں دانستہ رکاوٹ بنے رہے۔ نئے لائسنسوں کے اجرا کے بعد بھی ایکسائز اہلکار ہوٹل کے بار میں تعینات کر دیے گئے، جو اب بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں کی موجودگی کے باعث پرمٹ ہولڈرز بھی شراب کی خریداری سے کتراتے ہیں۔ گذشتہ دو ماہ اور 13 دن سے شراب کی فروخت میں 98 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ پرمٹ ہولڈر جب اجازت نامہ رکھتے ہیں تو خریداری میں رکاوٹ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ چونکہ زیادہ تر پرمٹ ہولڈرز شراب خود پینے کی بجائے فروخت کرنے کے لیے خریدتے ہیں تو جو مقدار ان کے اجازت نامے پر درج ہوتی ہے، انہیں اس سے زیادہ چاہیے ہوتی ہے۔

صادق خان نے بتایا کہ حکومت کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ پرمٹ ہولڈرز مقررہ مقدار سے زیادہ شراب خریدتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہر سال حکومت اپنی آمدن کا ٹارگٹ پہلے سے بھی زیادہ سیٹ کرتی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ ہر تیسرے ماہ ایکسائز کی طرف سے ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے یاددہانی خطوط بھی لکھے جاتے ہیں جن میں باقاعدہ طور پر پرمٹ ہولڈرز کو ’سہولیات‘ دینے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اجازت نامہ رکھنے والوں کو شراب ان کی ڈیمانڈ کے مطابق فراہم کی جائے۔

بحران کا ذمہ دار کون؟

پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانونی طور پر بننے اور فروخت ہونے والی شراب کا ناپید ہونا پاکستان میں واقعی ایک بحران ہے بھی یا نہیں؟

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک سماجی رہنما عبداللہ ملک کے مطابق پاکستان میں شراب کی فروخت کا معاملہ اخلاقی، قانونی اور اقتصادی سطح پر ہمیشہ ہی بحرانی کیفیت کا شکار رہا ہے اور حکومت آج تک نہیں طے کرسکی کہ اس کا حل کیا نکالا جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا: ’موجودہ صورت حال اس لیے بھی سنگین ہے کہ گذشتہ ایک دہائی میں زہریلی شراب سے ہلاکتوں کو کم کرنے کے لیے جو خاموش پالیسی بنائی گئی وہ یہی تھی کہ کم از کم اصل شراب کی دستیابی میں حائل رکاوٹوں کو کم کیا جائے تاکہ جعلی شراب پر انحصار کم کیا جاسکے لیکن ساتھ ہی شراب کی کھپت کم کرنے کے لیے بھی حکومت اقدامات کرتی رہی ہے کیونکہ آئینی طور پر حکومت اس کی پابند بھی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورت حال کو میں اس لیے بھی بحرانی سمجھتا ہوں کہ امیروں کے گھروں میں تو امپورٹڈ شراب دستیاب ہے۔ صرف پانچ سو روپے میں پینے والا عام آدمی اس موجودہ صورت حال سے متاثر ہوا ہے ۔‘

عبداللہ ملک تو اس بحران کا ذمہ دار حکومت کو ٹھہراتے ہیں، تاہم لاہور کے ایک بار مینجر سمجھتے ہیں کہ معاملہ مکمل طور پر اجتماعی حکومتی سوچ کا نہیں، محض چند افسران اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ لاہور کے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ضلعی افسر مسعود وڑائچ جو اجازت ناموں اور فروخت کے عمل کے انچارج تھے، نے ذاتی ایما اور کمیشن کے چکر میں نہ صرف حکومت کو نقصان پہنچایا بلکہ شراب کی قانونی فروخت میں بھی رکاوٹ بنے۔

یاد رہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ای ٹی او لاہور مسعود وڑائچ کو 11 ستمبر کو لاہور کے پوش علاقے میں ایک کیفے پر چھاپے کے دوران شراب برآمد کرکے ریسٹورنٹ کو سیل کروانے کے اقدام پر عہدے سے ہٹایا دیا گیا ہے۔

ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مسعود وڑائچ کی پالیسیاں محکمانہ معاملات میں رکاوٹ سمجھی جاتی تھیں، اس لیے لاہور کیفے کے واقعے کو بنیاد بنا کر انہیں ہٹایا گیا۔

ان الزامات کی تصدیق یا تردید کے لیے جب مسعود بشیر وڑائچ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے رشوت کے الزام کے علاوہ باقی تمام اقدامات کو درست قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا: ‘میں نے جو کچھ بھی کیا، اُس وقت کے سیکرٹری ایکسائز کے حکم پر اور محکمانہ پالیسی کے مطابق کیا۔ محکمے نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ اجازت نامے پر شراب کی مقدار سے زائد فروخت نہیں ہونے دی جائے گی، جس پر لاہور کے ضلعی عمل درآمدی افسر ہونے کے ناطے میں نے عمل درآمد کرایا۔ آپ حیران ہوں گے کہ جولائی 2018 کے مہینے میں شراب کی ایک لاکھ گیارہ ہزار بوتلیں فروخت ہوئیں جبکہ اس سال جولائی میں صرف آٹھ ہزار شراب کی بوتلیں فروخت ہوسکیں۔‘

جب مسعود بشیر وڑائچ سے پوچھا گیا کہ محکمہ خود سالانہ ریونیو کا ٹارگٹ متعین کرتا ہے تو ان کے یہ اقدامات خود محکمانہ پالیسی کی نفی نہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’یہ درست ہے کہ سالانہ اربوں روپے کا ٹارگٹ رکھا جاتا ہے لیکن میں ذاتی طور پر اس پالیسی کے خلاف ہوں کیونکہ ادارے کا کام شراب کی فروخت کو کم کرنا ہے نہ کہ بڑھانا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اصلی شراب کی فروخت کم ہونے سے مارکیٹ میں جعلی شراب کی فراوانی سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، وہ تو صرف قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب سرکاری احکامات کے مطابق پنجاب میں قانونی شراب کی فروخت کے بحران کے مبینہ طور پر ذمہ دار ڈائریکٹر ایکسائز تنویر عباس، ای ٹی او لاہور مسعود بشیر وڑائچ، ایکسائز انسپکٹرز راولپنڈی ریاض ورک اور رشید ڈوگر کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔

جعلی شراب کی بھرمار

لاہور ہی میں شراب فروخت کرنے والے ایک خفیہ ایجنٹ عامر (فرضی نام) جو گذشتہ پانچ سالوں سے پرمٹ پر زیادہ مقدار میں شراب خرید کر لوگوں کو فراہم کرتے ہیں، کا کہنا ہے: ’اس سے زیادہ سختی پہلے نہیں دیکھی۔میں نے تو ہوٹلوں سے شراب لینا بند کر رکھی ہے۔ مارکیٹ میں اُسی کمپنی کی، اُسی نام سے، ویسی ہی پیکنگ میں ہر طرح کی شراب دستیاب ہے جو سستی بھی ہے اور گاہک اعتراض بھی نہیں کرتے۔‘

انہوں نے کہا کہ ان کے پرمٹ پر مہینے میں چھ بوتلوں کے خریدنے کی اجازت ہے جبکہ اتنی تو ایک دن میں فروخت ہوجاتی ہے۔

 انہوں نے انکشاف کیا کہ ’کچھ دن تو ان کے کام میں مندی رہی لیکن اب وہی ڈیمانڈ ہے جو سختی سے پہلے تھی اور وہ ڈیمانڈ جعلی شراب سے پوری ہورہی ہے۔‘

عامر نے مزید بتایا کہ شراب پینے والوں کی زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے، جو ٹھیک طرح سے شراب کے اصل یا نقل ہونے کی پہچان نہیں رکھتے۔ جعلی شراب جو اب باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر رہی ہے، کی فیکٹریاں لگ چکی ہیں اور کسی ماہر کے علاوہ اس شراب کو پہچاننا کافی مشکل ہے۔

بار مینیجر صادق خان کے مطابق موجودہ حکومتی اقدامات کا فائدے کی بجائے نقصان ہو رہا ہے۔ ایک طرف ملک کی اکلوتی کمپنی جو اربوں روپے حکومت کو ٹیکس دیتی ہے، دوسرا وہ کاروباری طبقہ جنہوں نے ہوٹلوں کے لائسنس لے کر اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کر رکھی ہے، سب موجودہ بحران کی زد میں ہیں لیکن نچلی سطح پر شراب کے استعمال میں کمی واقع نہیں ہوسکی کیونکہ لوگوں کو زبردستی نہیں روکا جاسکتا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان