وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے سینیئر صحافی شاہد رند کو اپنا ترجمان مقرر کر کے ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ دی ہے کہ کیا صحافیوں کو حکومتی عہدے قبول کرنے چاہییں یا نہیں۔
اس موضوع پر سنجیدہ بحث اس لیے بھی نہیں ہوتی کہ ناقدین فوری طور پر یہ الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم سے کسی صحافی دوست کی ’ترقی‘ برداشت نہیں ہوتی۔
چلو مان لیتے ہیں کہ آپ کو یہاں جلنے کی بو آ رہی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ اس کے باوجود اس موضوع پر بحث ہو۔
مُلک میں ایسے صحافیوں کی فہرست طویل تر ہوتی جا رہی ہے جنہوں نے صحافت کو بطور زینہ استعمال کر کے وزارتیں، سفارتی عہدے اور نگران حکومتوں میں ہم مناصب حاصل کیے، لیکن بلوچستان میں یہ روایت نسبتاً نئی ہے۔
گذشتہ دو دہائی بلوچستان کے صحافیوں پر انتہائی کرب ناک رہے ہیں جن کے تحت کئی صحافی بشمول ان کے اہل خانہ کے اراکین جان سے مار دیے گئے، کئی زخمی ہوئے اور کئی صحافت کا شعبہ، صوبہ اور حتیٰ کہ مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئے، لیکن اس کے باوجود بلوچستان کے صحافی اس بات پر فخر کر سکتے ہیں کہ وہ ان مشکل حالات میں بھی بااختیار قوتوں کے سامنے جھکے نہیں۔ انہوں نے مقتدرہ حلقوں کا ساتھ دیا اور نہ ہی وہ کسی کے دباو یا لالچ میں آ کر اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے دستبردار ہوئے۔
صوبہ کے صحافیوں نے مفلسی اور دھمکیوں کے باوجود اپنے لیے یہ بات باعث افتخار و اطمینان سمجھی کہ معاشرے میں لوگ ان کی اس لیے قدر کرتے ہیں کہ وہ ایمانداری سے عوام کے مسائل اجاگر کرتے ہیں۔ مجموعی طور پرجو لوگ بلوچستان کی مشکل زندگی سے آگاہ ہیں، وہ صحافیوں کو درپیش مشکلات کا بھی اعتراف کرتے ہیں اور صحافیوں کو ان نامساعد حالات میں بھی اپنا کام جاری رکھنے پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
بطورِ رول ماڈل
آج سے غالباً 18 سال پہلے جب شاہد رند کراچی سے کوئٹہ منتقل ہوئے تاکہ صوبے کے صحافتی افق پر اپنا لوہا منوائیں۔ اس وقت نیوز چینلوں میں بلوچ صحافی نہ ہونے کے برابر تھے۔ انہوں نے ایک نجی نیوز چینل کے ساتھ بطور رپورٹر کام کرتے ہوئے اپنی محنت اورعمدہ رپورٹنگ کی وجہ سے بہت کم وقت میں نام کمایا۔
وہ خاص کر ان بلوچ نوجوانوں کے لیے ایک رول ماڈل بن گئے جو ٹیلی ویژن میں کام کرنا چاہتے تھے کیونکہ پرنٹ صحافت میں اگرچہ چند صحافیوں نے پہلے ہی سے نام پیدا کیا تھا لیکن براڈ کاسٹ میں مقامی نوجوانوں کے لیے ایسا کوئی رول ماڈل نہیں تھا جس کی وہ راہ پر چلتے۔
وہ صرف وہ ایک اچھے رپورٹر ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو بلوچستان کے صحافتی منظرنامے پر بطور سنجیدہ اور قابل اعتبار اینکر اور کالم نویس بھی متعارف کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شاہد رند بلوچستان میں بدترین حالات میں ڈی ایس این جی وین کے سامنے کھڑے ہو کر بم دھماکوں کے جائے وقوع، تاریخی جلسوں اور انتخابی پولنگ سٹیشن کے باہر سے لائیو رپورٹنگ کرتے ہوئے بلوچستان بھر میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئے اس وقت تک سرفراز بگٹی کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔
آج ہمیں ایک منجھے صحافی کی ایک ایسے وزیراعلیٰ کا ترجمان بننے پر ملال ہے جن کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ وہ اپنی محنت سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اس عہدے پر پہنچے ہیں۔ شاہد رند ہمیں سرفراز بگٹی کا ترجمان بننے کے بجائے کسی بھی سٹیج یا ٹی وی شو پر ان کے برابر بیٹھ کر ان کی کارکردگی پر تبصرہ اور تجزیہ کرتے ہوئے بہتر لگتے کیونکہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے اس مقام پر یہی ان کا مناسب مقام ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صحافی بمقابلہ ترجمان
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک صحافی جو کئی سالوں تک دن رات محنت کر کے اپنے شعبہ میں نام اور مقام بناتا ہے وہ اسے ایک عارضی حکومتی (اور وہ بھی ترجمان کے) عہدے کے عوض کیوں ترک کرتا ہے؟
چونکہ ہر بالغ انسان اپنے فیصلے خود کرتا ہے اور اس کے نتائج کا بھی خود ذمہ دار اور جواب طلب ہوتا ہے، ہم یہاں کسی کی نیت یا ارادوں پر شک نہیں کریں گے اور نہ ہی یہ قیاس آرائی کریں گے کہ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایک صحافی اپنا شعبہ چھوڑ کر اس گروہ کو جوائن کرتا ہے جن کی نگرانی اور احتساب اس کی پیشہ ورانہ زندگی کا بنیادی جُز ہوتا ہے۔
البتہ یہاں پر یہ کہنا لازمی ہے کہ صحافیوں کوعام شہریوں سے زیادہ بااختیار افراد اور اداروں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر صحافی ایک لمحے کے لیے بھی اپنی پیشہ وارانہ وابستگی بھول کر ان افراد میں رچ بس جائے جن کی کوریج اس کی ذمہ داری ہوتی ہے تو اس کا پھسلنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اگرچہ صحافیوں کو گورنر سے لے کر وزرا، ٹاپ بیوروکریٹ اور مشیروں کےساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے اور گھل ملنے کا موقع ملتا ہے لیکن اس دوران صحافی کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم کس مقصد کے لیے ان شخصیات کے ساتھ بیٹھتے ہیں۔
اگر صحافی کو اپنے شعبہ کی قوت اور اپنی پیشہ ورانہ اہمیت پر اعتماد نہ ہو تو وہ فوری طور پر اس احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے کہ اصل عزت اور اختیار تو دوسری طرف ہے۔ یہی وہ موقع ہے جب کچھ صحافی خود اعتمادی کی کمی کی وجہ سے پھسل جاتے ہیں اور جو مواقع انہیں اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہاں سے وہ رپورٹنگ کریں وہ انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ بااختیار قوتوں کے ساتھ ذاتی تعلقات استوار کریں تاکہ وہ صحافت کو بطور سیڑھی استعمال کر کے حکومتی عہدوں تک رسائی حاصل کریں۔
اس کا فائدہ وقتی طور پر ایک شخص کو تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا مجموعی نقصان صحافتی برادری کو ہوتا ہے کیونکہ اس سے حکومت کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ باقی صحافیوں کی پیشہ وارانہ کمٹمنٹ اور ایمانداری پر بھی شک کرے اور یہ سمجھنا شروع کرے کہ ہر صحافی کو حکومتی مراعات کی مدد سے قابو کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کی صحیح ’قیمت‘ لگائی جائے۔
باہمی فوائد
ایک صحافی وہ ہوتا ہے جس سےبااختیار لوگ پوچھتے ہیں، ’ایک اور کپ چائے ہو جائے؟‘
جواب آتا ہے، ’جی سر، ضرور۔‘
دوسرا صحافی وہ ہوتا ہے جو کہتا ہے، ’نو تھینک یو سر، یہ میری سٹوری فائل کرنے کا وقت ہے۔ مجھے اب دفتر جانا چاہیے۔‘
صحافی کو اپنی خبر سے محبت ہونی چاہیے نہ کہ ان افراد سے جو ان خبروں کے ذرائع ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، میڈیا میں پیش آنے والی حالیہ تبدیلیوں اور بگڑتی معاشی حالات بھی ایک وجہ ہو سکتی ہیں کہ صحافی اپنے شعبہ کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں قدم رکھنے کی تیاری کرتے ہیں تاکہ اگر کل کو میڈیا میں نوکری چلی جاتی ہے تو ان کے پاس روزگار کا کوئی اور ذریعہ بھی ہو۔
صحافتی اداروں کی جانب سے ایسی کوئی واضح رہنمائی موجود نہیں ہے کہ کیا کوئی صحافی ایک روز بطور صحافی کام اور اگلے روز بطور ترجمان کام کر سکتا ہے۔ اس بات پر بھی اتفاق نہیں ہے کہ کیا ایک شخص سرکاری نوکری کرنے کے بعد اگر صحافت کے شعبہ میں دوبارہ آنا چاہے تو کیا اسے اسی طرح دوبارہ گرمجوشی سے ویلکم کرنا چاہیے۔
صحافی اپنے ہی کسی ساتھی کے سرکاری عہدے پر فائز ہونے پر وقتی طور پر تو حیرت کا اظہار کرتے ہیں لیکن وہ فوری طور پر اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ساتھی صحافی سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ترجمان کا کام صرف اور صرف میڈیا بریفنگ دینا ہوتا ہے لیکن پس منظر میں اس کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت جن ’نازک معاملات‘ کی کوریج نہیں چاہتی ان کے حوالے سے صحافیوں اور میڈیا مالکان کو فون کر کے یہ بتائیں کہ اس معاملے پر ’ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھیں۔‘
چند اخبارات کے مالکان اور مدیران فوری طورپر اس بات پر لگ جاتے ہیں کہ کیسے مذکورہ صحافی سے بہتر تعلقات رکھے جائیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ سرکاری اشتہارات ملیں۔ وزیر اعلیٰ کے ترجمان کا اتنا اثر و رسوخ ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر کسی اخبار کی مالی صورت حال پر سرکاری اشتہارات کی مدد سے بڑے حد تک اثر انداز ہو۔
کچھ صحافی یہ سوچ کر بھی اپنے ساتھی کی تعیناتی کی دبے الفاظ میں حمایت کرتے ہیں کہ شاید انہیں وزیراعلیٰ یا اعلیٰ سرکاری عہدہ داروں سے انٹرویوز کرنے اور سرکاری دوروں میں شامل ہونے کے مواقع ملیں۔
اعتماد کی بحالی
سرفراز بگٹی نے اپنے تمام سابقہ ہم منصب کے برعکس ایک ورکنگ جرنلسٹ کو اپنا ترجمان رکھنے کا فیصلہ بظاہر اس لیے کیا ہے کہ وہ اپنے متعلق میڈیا کوریج کو کسی حد تک کنٹرول کریں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ترجمان کا کام صرف اور صرف میڈیا بریفنگ دینا ہوتا ہے لیکن پس منظر میں اس کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت جن ’نازک معاملات‘ کی کوریج نہیں چاہتی ان کے حوالے سے صحافیوں اور میڈیا مالکان کو فون کر کے یہ بتائیں کہ اس معاملہ پر ’ہاتھ تھوڑا ہلکا رکھیں‘ جو دبے الفاظ میں یہ گزارش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر خبریں یا مضامین شائع نہ کریں یا اس معاملہ میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے نرمی اور احتیاط برتیں۔
چونکہ صحافیوں کے حکومتی عہدے قبول کرنے پر صحافتی برادری کی طرف سے سخت مخالفت نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان صحافیوں کے لیے حکومتی نوکری جانے کے بعد بھی واپسی کے دروازے کھلے ہوں گے۔
اب چونکہ اسٹبیلشمنٹ نواز چینلوں کی تعداد زیادہ ہے، کسی بھی ترجمان کے لیے وہاں بطور اینکر یا تجزیہ نگار نوکری حاصل کرنا مشکل نہیں ۔ اب ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی صحافی حکومت میں شامل ہو جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اس نے اپنی صحافتی کشتیاں جلا دی ہیں۔
نوکری تو مل جاتی ہے لیکن کیا لوگ بعد میں اس صحافی پر اتنا ہی اعتماد کریں گے جتنا وہ اس کے حکومت میں شامل ہونے سے پہلے کرتے تھے؟ یقیناً نہیں۔
کٹھن منصب
ضروری نہیں کہ ایک لائق صحافی اچھا حکومتی ترجمان بھی ثابت ہو کیونکہ دونوں کی تربیت اور کام کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ایک صحافی اپنی پوری زندگی حکومت سےسوال کرتے گزارتا ہے جب کہ ترجمان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ حکومت کی ہر، بشمول غیر مقبول، پالیسی کی دفاع کرے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان کے ترجمان کی ذمہ داری اس لیے بھی ایک مشکل کام ہے کہ ابھی تک یہ بات واضح طور پر طے نہیں ہے کہ صوبہ میں اصل اختیارات کس کے پاس ہیں۔ جس صوبہ میں ماضی میں یہ دیکھا گیا ہو کہ وزیراعلیٰ کہے کہ انہیں صوبائی بجٹ کے بارے میں اس کے پیش ہونے تک کوئی پیشگی خبر نہیں تھی وہاں ترجمان کے لیے یہ دعویٰ کرنا کہ اسے سب پتہ ہے، دراصل ہر طرف سے خود پر تنقید کو دعوت دینے والی بات ہو گی۔
اس بات سے قطع نظر کہ کون سی جماعت بلوچستان میں اقتدار میں رہی ہے، پچھلے چند سالوں سے ہر حکومت پر مختلف غیر مقبول پالسیوں کے وجہ سےعوام کا اعتماد کم ہو گیا ہے۔ جہاں وزیر اعلیٰ شاید کئی ہفتوں میں بمشکل ایک بار بھی میڈیا کے سامنے آ کر حکومت کا موقف بیان کریں، وہاں ترجمان کو روزانہ میڈیا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مسائل کا انبار
شاہد رند ایک ایسے وقت پر وزیراعلیٰ کے ترجمان بن رہے ہیں جب سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مطابق صوبہ میں اس سال کے پہلے سہ ماہی میں تشدد میں حیران کن طور پر 96 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
صوبائی حکومت اس وقت متعدد ایسے مسائل سے دوچار ہے جن کے حل کے لیے اس کے پاس سرے سے کوئی حکمت عملی ہی نہیں ہے۔ بلوچستان کی کوئی بھی نئی حکومت لاپتہ افراد کے معاملے کو نظر انداز نہیں کر سکتی اور نہ ہی لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کو ’دہشت گرد‘ یا ’دہشت گردوں کا سہولت کار‘ کہنے سے یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جائے گا۔
وزیراعلیٰ اور ان کی ٹیم اس معاملہ کو چند ہفتوں تک تو میڈیا سے دور رکھ سکتے ہیں لیکن بالآخر یہ ایشو پھر کبھی مزید شدت کے ساتھ سامنے آئے گا۔ اسی طرح چمن میں چھ مہینے سے جاری مظاہروں کو حکومت اس لیے بھی نظر انداز کر رہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس ان کے مطالبات کا کوئی ٹھوس حل موجود نہیں۔
پاک افغان سرحد پر مقیم پشتون چاہتے ہیں کہ حکومت سرحد کے دونوں اطراف آمد و رفت پر سختیوں میں نرمی کرے کیونکہ یہ لوگ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے سے آسانی سے ملتے آ رہے ہیں اور مقامی معیشت کا بھی بڑی حد تک انحصار دوطرفہ غیررسمی کاروبار پر ہے۔
یہ لاکھوں شہریوں کی زندگی اور ذرائع آمدن کا معاملہ ہے جسےنظر انداز کرنے یا اس کے حل میں تاخیر سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ایک اور محاذ جامعہ بلوچستان کے نا ختم ہونے والے مالی مسائل ہیں جہاں جامعہ کے اساتذہ اور سٹاف تنخواہیں نہ ملنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ صوبائی حکومت کے پاس صوبہ کے سب سےبڑے تعلیمی ادارے کے مالی مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے کا علاج موجود نہیں ہے۔ یہ معاملہ بھی ہر چند سال کے بعد سر اٹھاتا ہے اور حکومتیں عارضی حل پر اکتفا کرتی ہیں۔
مثبت صحافت
بلوچستان کی جنگ بیانیہ کی جنگ ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا شاہد رند میڈیا میں سرفراز بگٹی حکومت کا ’مثبت پہلو‘ اجاگر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا چند ہفتوں کے بعد مایوس ہو کر اُلٹا صحافیوں کو یہ لیکچر دینا شروع کر دیں گے کہ خدارا ’مثبت صحافت‘ کریں، گلاس آدھا خالی نہیں بلکہ آدھا بھرا ہوا ہے، عوام میں مایوسی نہ پھیلائیں۔ فیک نیوز سے اجتناب کریں اور حکومت کی ناکامیوں سے زیادہ کامیابیوں پر فوکس کریں۔
بظاہر تو یہ ہر ترجمان کی التجا ہوتی ہے لیکن خود ترجمان کی کامیابی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ صحافی ان کی کتنی شُنوائی کریں گے۔ ایک ایسا صوبہ جہاں صحافیوں نے اپنی جان کی قربانی تو دی ہے لیکن سچ بولنے اور لکھنے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں وہاں نہیں لگتا کہ نئے ترجمان کی ہر بات پہ لبیک کہا جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔