سرفراز بگٹی کتنے بااختیار وزیراعلیٰ ہیں؟

جب تک سرفراز بگٹی خود پر لگے اسٹیبلشمنٹ نواز اور بے اختیار ہونے کے لیبل نہیں ہٹاتے تب تک وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ ثابت نہیں ہوں گے۔

 24 نومبر 2023 کی اس تصویر میں سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی انڈپینڈنٹ کو دیے جانے والے ایک انٹرویو کے دوران (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

اب وہ زمانہ نہیں رہا جب کسی سیاست دان کو ’اسٹیبلشمنٹ نواز‘ کہا جاتا تو وہ برا مان جاتے۔ اب تو وہ برجستہ کہتے ہیں ’بھئی، یہ ہندوستان کی فوج اوراسٹیبلشمنٹ تو نہیں ہیں۔ ہماری ہی تو ہیں۔ ہاں ہم اپنی ہی اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہیں، دشمن ملک کے تو نہیں۔‘

بلوچستان کے نو منتخب وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی بھی یہی الزام سن سن کر تھک گئے ہوں گے۔ جب وہ سینیٹر بنے تو کہا گیا کہ ان کی کامیابی کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ جب بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو بھی یہ الزام دہرایا گیا کہ اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔

جب انہیں انوارالحق کاکڑ کی نگران کابینہ میں نگران وفاقی وزیر داخلہ بنایا گیا تو کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اگر اپنے مرضی کا نگران وزیراعظم تعینات کروایا تو نگران وزیر داخلہ بھی وہی شخص بن سکتا ہے جو انہیں قابلِ قبول ہو۔ اب جب کہ وہ بظاہر تاریخی اعتبار سے ایک اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) کے پلیٹ فارم پر بلا مقابلہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے ہیں، یہ الزامات و تاثرات جانے کا نام نہیں لے رہے کہ وہ کیسے راتوں رات پی پی پی میں شامل ہوئے اور چند مہینوں کے اندر اندر پارٹی کے وزارت< اعلیٰ کے امیدوار بھی بن گئے جب کہ صوبے میں ایسے جیالوں کی کمی نہیں جو 70 کی دہائی سے پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں۔

ویسے اگرہم اسٹیبلشمنٹ نواز اور مخالف کے تعارف میں لگ جائیں تو بات لمبی ہو جائے گی لیکن ایک بات جو اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے عموماً سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مخالف جماعتیں (جن سے عموماً مراد بلوچ اورپشتون قوم پرست جماعتیں ہوتی ہیں) مبینہ طور پر ترقی مخالف ہیں اور نہیں چاہتیں کہ بلوچستان ترقی کرے، صوبے میں نئی تعمیرات ہوں اورروزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔

چونکہ بلوچستان ترقی کے اعتبار سے ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے اور انسانی ترقی کے تمام اشاروں کے زمرے میں ملک کے دیگر صوبوں سے پیچھے ہے، اسی لیے ’ترقی‘ کا معاملہ صوبے کی سیاست میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترقیاتی معاملات (مثلاً گوادر پورٹ، ریکوڈک وغیرہ) اس حد تک متنازع ہیں کہ ان کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں عوام کو موبلائز کرکے بڑے بڑے جلسے جلوس کرتی ہیں۔

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے منصب پرزیادہ تر اسٹیبلشمنٹ کے حامی ہی فائز رہے ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ محض اپنے حلقہ انتخاب کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ پورے صوبے کا سربراہ ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات وزیراعلیٰ کی ناکام یا غیر تسلی بخش کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ ان کے اپنے انتخابی حلقے میں کتنی ترقی ہوئی ہے۔

ویسے یہ کسی وزیراعلیٰ کی کامیابی کا پیمانہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر کسی کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کے علاقے میں زبردست ترقی آئے تو اس سے یہ گمان ہو گا کہ انہوں نے باقی صوبے کو نظر انداز کر کے صرف اپنے ہی علاقے پر توجہ مرکوز کی اور وہاں اس لیے ترقیاتی کام کیے تاکہ آئندہ انتخابات میں لوگ انہیں دوبارہ منتخب کریں۔

سرفراز بگٹی کا تعلق بھی ایک ایسے ہی حلقے سے ہے، جو ترقی کے اعتبار سے بے حد پسماندہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ اپنی حکومت کی ترجیحات سامنے لاتے ہیں تو اس میں کون کون سے معاملات سرفہرست ہوں گے۔

اگر وہ ترقی ہی کو اپنی وزارتِ اعلیٰ کا ایک بنیادی ستون بناتے ہیں تو ان سے بھی یہی سوال پوچھا جائے گا کہ خود ان کا حلقہ انتخاب اتنا پسماندہ کیوں ہے۔ اگر وہ ترقی مخالف نہیں ہیں تو ان ہی کی سابقہ جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی پچھلی حکومت میں ڈیرہ بگٹی سمیت بلوچستان بھر میں کوئی خاطر خواہ ترقی کیوں نہیں ہوئی؟

دراصل ’ترقی‘ کا نعرہ بلوچستان کی سیاست میں محض ایک سیاسی نعرہ بن کر رہ گیا ہے جب کہ اگر اس سے مراد عوام کی زندگی میں بہتری لانا اوربہتر سڑکوں، سکول اور ہسپتالوں کا قیام ہے تو اس سلسلے میں تمام سیاسی رہنماؤں کی کارکردگی یکساں مایوس کن ہے۔

 

بلوچستان کے ہر نئے وزیراعلیٰ سے متعلق جو سوال سب سے پہلے اور سب سے زیادہ پوچھا جاتا ہے وہ یہ کہ وہ کس حد تک آزاد، خود مختار اور با اختیار ہے اور رہے گا۔ جہاں ایک طرف وزیراعلیٰ پر مسلسل یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سمیت ملک کی بڑی جماعتوں کو خوش رکھیں، وہاں دوسری طرف اندرونی طور پر ان کی بقا اس بات پر منحصر ہے کہ وہ صوبے میں اپنے سیاسی و قبائلی اتحادیوں کو کس حد تک اپنے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔

وزیراعلیٰ بننے کے بعد بگٹی صاحب کو قدرتی آفات سے نمٹنا پڑا ہے، بلکہ حال ہی میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے مکران میں جو یکے بعد دیگرے ناکام حملے کیے ہیں اگر وہ کامیاب ہوتے تو یقیناً بڑے نقصانات پر منتج ہوتے۔

تاہم بگٹی صاحب ابھی تک یہ تاثر دینے میں ناکام رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں کے حوالے سے بااختیار ہیں۔ ان کی کابینہ کی تشکیل میں جو تاخیر دیکھنے میں آ رہی ہے، اس سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ وہ ایک ایسے وزیراعلیٰ نہیں ہیں جو حالات کو سمجھ کر فوری طور پراپنی کابینہ تشکیل دیں تا کہ جو رکن اسمبلی جس وزارت کا صیح حقدار ہے اسے اس محکمے کی ذمہ داری دی جائے اور صوبے میں ایک اچھی اور فعال حکومت کی بنیاد ڈالی جائے۔

جو صوبہ شورش زدہ ہو، جہاں سیلاب زدگان امداد کے فوری طلب گار ہوں، جہاں مائیں اور بہنیں لاپتہ افراد کے اتنظار میں بیٹھی ہوں اور جہاں تعلیم و صحت کے شعبہ جات فوری توجہ کے متقاضی ہوں وہاں صوبائی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر نئی حکومت کی غیر سنجیدگی اور بے اختیاری کی عکاس ہے۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے فوری بعد جب انہوں نے بلوچ علیحدگی پسندوں کو ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی تو ان کی پیشکش کو کسی نے بھی سنجیدگی سےنہیں لیا۔

ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب حکومت کی طرف سے ایسی پیشکش ہوتی تو اس پر اچھا خاصا بحث مباحثہ ہوتا لیکن بگٹی صاحب کی پیشکش کو اس سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جو ایک با اختیار وزیراعلیٰ کی پیشکش کو لیا جانا چاہیے۔

جب تک بگٹی صاحب خود پر لگے اسٹیبلشمنٹ نواز اور بے اختیار ہونے کے لیبل نہیں ہٹاتے، تب تک وہ ایک کامیاب وزیراعلیٰ ثابت نہیں ہوں گے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر