پاکستان کے نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بتایا ہے کہ افغانستان میں اب امن ہے تو سب (پاکستان میں موجود قانونی و غیر قانونی افغان پناہ گزین) کو مرحلہ وار واپس جانا پڑے گا۔
کراچی میں گذشتہ روز بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا تھا کہ ملک میں موجود رجسٹرڈ افغان پناہ گزین کو بھی واپس بھیجا جائے گا۔
اسی حوالے سے جب سرفراز بگٹی سے انڈپینڈنٹ اردو نے پوچھا تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی کوئی ڈیڈ لائن ابھی تک نہیں دی گئی ہے لیکن ان سب کو جانا ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو جانے کے لیے ابھی ڈیڈ لائن نہیں دی گئی ہے لیکن افغانستان اب ایک پر امن ملک ہے اور ظاہری بات ہے ان سب کو (رجسٹرڈ غیر رجسٹرڈ پناہ گزین) کو واپس جانا پڑے گا۔’
اس بیان سے چند روز قبل نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا تھا کہ چند افغان رہنماؤں کے غیرضروری، غیر ذمہ دارانہ، گمراہ کن اور دھمکی آمیز بیانات کے بعد پاکستان دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ معنی خیز ہے۔
اس بیان سے واضح ہے کہ پاکستان پناہ گزینوں کی واپسی کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں سے جوڑ رہا ہے۔
غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے فیصلے کے بعد افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور وزیر دفاع ملا یعقوب سمیت کچھ دیگر رہنماؤں نے اپنے بیانات میں سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ پاکستان کو اس فیصلے کے نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ غیر قانونی تارکین وطن کو ان کی ممالک واپس بھیجنے کا پاکستان کو مکمل قانونی اور اخلاقی حق حاصل ہے۔
کتنے افغان پناہ گزین جا چکے ہیں؟
غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو پاکستان کی جانب سے 31 اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی جس کے بعد سے رضاکارانہ اور جبری انخلا کا عمل جاری ہے لیکن ماہرین کے مطابق موجودہ رفتار سے افغان باشندوں کو نکالنےمیں تقریبا ایک سال لگے گا۔
پاکستان کی حکومت کے احکامات کی روشنی میں افغان پاشندوں سمیت ملک سے تمام غیر قانونی طریقے سے مقیم غیر ملکیوں کا انخلا جاری ہے لیکن جس اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے ممکن ہے کہ تمام غیرملکی افغان پاشندوں کو نکالنے میں تقریبا نو مہینے کا عرصہ لگے گا۔
خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق 17 ستمبر سے نو نومبر تک براستہ طورخم اور وزیرستان کا افغانستان سے متصل بارڈر انگور اڈہ کے راستے 1 لاکھ 97 ہزار سے زائد افغان باشندے افغانستان جا چکے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق واپس جانے والوں میں 14 ہزار 683 خاندان تھے جن میں 55 ہزار سے زائد مرد، 42 ہزار سے زائد خواتین اور 99 ہزار تک بچے شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی کے مطابق نو نومبر تک 80 ہزار افغان باشندے واپس جا چکے ہیں جس میں 26 ہزار صوبہ سندھ سے بھی شامل ہے اور یہ اعدادوشمار تین نومبر کو مجموعی طور پر 50 ہزار تھی۔
اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تین نومبر سے نو نومبر تک 30 ہزار افغان پناہ گزین واپس جا چکے ہیں جس کی روزانہ اوسط پانچ ہزار بنتی ہے۔
روازانہ کی بنیاد پر براستہ طورخم واپس چلے جانے والے افغان باشندوں کی اعدادوشمار پر غور کیا جائے تو 31 اکتوبر کو دی گئی ڈیڈ لائن پر اب سے زیادہ تقریبا 20 ہزار تک افغان باشندے براستہ طورخم واپس جا چکے تھے لیکن اس کے بعد واپسی کا رفتار سست ہوگیا ہے۔
یکم سے نو نومبر تک براستہ طورخم (اسی راستے سے سب سے زیادہ افغان باشندے واپس جا چکے ہیں) کے اعدادوشمار کا تجزیہ کیا جائے تو اب تک روزانہ کی اوسط تقریبا چھ ہزار بنتی ہے اور اگر روزانہ کی بنیاد پر چھ ہزار کا انخلا ممکن بنایا جا سکے تو 17 لاکھ تک غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکالنے میں تقریبا نو مہینے لگیں گے۔
اب اگر طورخم اور چمن بارڈر کی روزانہ کی اوسط نکالا جائے تو روزانہ کی بنیاد پر یکم نومبر سے اب تک یک اوسط روزانہ تقریبا 12 ہزار بنتی ہے اور اسی حساب سے چمن اور طورخم کے راستے رضاکارانہ واپسی میں تقریبا پانچ مہینے لگے گی۔
واپسی کا عمل سست روی کا شکار کیوں ہے؟
طورخم کے راستے جانے والے افغان پناہ گزینوں کے لیے لنڈی کوتل، پشاور اور ہری پور میں ہولڈنگ سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں پر بچوں اور خواتین کے علاوہ تمام جانے والے پناہ گزینوں کی بائیومیٹرک کی جاتی ہے۔
ان ہولڈنگ مراکز میں سب سے مصروف لنڈی کوتل کا ہے کیونکہ وہ ہولڈنگ مرکز طورخم بارڈر کے قریب ہے اعر زیاہ تر پناہ گزین وہاں جا کر رجسٹریشن کر کے براستہ طورخم افغانستان چلے جاتے ہیں۔