افغان شہریوں کو ’انتہائی خراب حالت میں‘ جبری واپس بھیجا گیا: کابل

جنوبی صوبہ قندھار میں محکمہ برائے مہاجرین کے افسر نقیب اللہ مومن نے اے ایف پی سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ ’واپس لوٹنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کو زبردستی بھیجا گیا، انہیں مارا پیٹا گیا، ان کا سامان ضبط کر لیا گیا اور ان کے پیسے لے لیے گئے۔‘

چار نومبر 2023 کو افغان پناہ گزین افغانستان روانگی سے قبل چمن بارڈر پر پہنچ رہے ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

طالبان حکام نے اتوار کو کہا کہ یکم نومبر سے پاکستان میں مقیم ہزاروں افغان شہریوں کو ’انتہائی خراب حالت میں‘ زبردستی ان کے ملک واپس بھیجا جا چکا ہے۔

پاکستان کے سرحدی حکام کا کہنا ہے کہ دو لاکھ سے زائد افراد پاکستان سے افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر افغان شہری رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ چکے ہیں، لیکن کابل کا اصرار ہے کہ یکم نومبر کی ڈیڈ لائن کے بعد سے اکثریت کو زبردستی وطن واپس بھیجا گیا۔

جنوبی صوبہ قندھار میں محکمہ برائے مہاجرین کے افسر نقیب اللہ مومن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ ’واپس لوٹنے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کو زبردستی بھیجا گیا، انہیں مارا پیٹا گیا، ان کا سامان ضبط کر لیا گیا اور ان کے پیسے لے لیے گئے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ پناہ گزین انتہائی خراب حالت میں سپن بولدک پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ چار دنوں میں سپن بولدک کے مقام پر 21 ہزار 600 سے زائد افراد سرحد پار کر چکے ہیں، تاہم طالبان حکام کراسنگ پر لوگوں کا اندراج کرتے وقت ملک بدری اور رضاکارانہ واپسی میں فرق نہیں کرتے۔

دوسری جانب واپس لوٹنے والے چند افغانوں نے بھی سہولیات فراہم نہ کیے جانے کی شکایت کی ہے۔ 

 

پاکستان کا کہنا ہے کہ سپن بولدک اور دوسرے اہم مقام طورخم جہاں سے زیادہ تر لوگوں نے سرحد پار کی، وہاں پہنچنے والے زیادہ تر افراد کو گرفتار یا حراست میں نہیں لیا گیا۔

صوبہ بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان اچکزئی نے کہا کہ صوبے میں کسی بھی افغان شہری کو ذلت کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اب بھی ہم ان لوگوں پر زور دے رہے ہیں جن کے پاس مناسب دستاویزات نہیں کہ وہ رضاکارانہ طور پر چلے جائیں۔‘

طالبان کے اعلیٰ حکام نے حالیہ دنوں میں افغان شہریوں کے ساتھ ’ظالمانہ‘ سلوک پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ’نتائج‘ کا انتباہ دیا ہے۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے طالبان حکام نے افغان شہریوں پر زور دیا ہے کہ وہ وطن واپس آ جائیں، لیکن وہ پاکستان کے اقدامات کی یہ کہتے ہوئے مذمت کرتے ہیں کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان کشیدگی کی سزا شہریوں کو دی جا رہی ہے، اور وہ لوگوں کو چھوڑنے کے لیے مزید وقت دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ ملک بدری کا عمل اس کی ’فلاح و بہبود اور سلامتی‘ کے تحفظ کے لیے ہے کیونکہ دہشت گردی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد ان دہشت گردی کے کئی واقعات کو افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں سے جوڑتا ہے۔ تاہم کابل اس الزام کی تردید کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا