تارکین وطن: کیا سندھ میں صرف افغان شہریوں کے خلاف کارروائی؟

انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق سندھ میں مقیم برمی، بنگالی، افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں میں سے صرف افغان شہریوں کو حراست میں لے کر واپس بھیجا جا رہا ہے۔ 

مارچ 2023 کی اس تصویر میں کراچی کی افغان بستی میں مقیم ایک افغان شہری اپنا شناختی کارڈ دکھاتے ہوئے(انڈپینڈنٹ اردو/امر گُرڑو)

پاکستان حکومت کی جانب سے ملک میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لیے شروع کیے گئے آپریشن کے دوران انڈپینڈنٹ اردو کی تحقیق کے مطابق سندھ میں مقیم برمی، بنگالی، افغان اور دیگر ممالک کے شہریوں میں سے صرف افغان شہریوں کو حراست میں لے کر واپس بھیجا جا رہا ہے۔ 

حال ہی میں پاکستان حکومت نے ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو پاکستان سے واپس ان کے وطن بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملک میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کے رضاکارانہ انخلا کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈلائن دی گئی۔

ڈیڈلائین ختم ہونے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں کئی ہولڈنگ سینٹر قائم کیے گئے ہیں جن میں تارکین وطن کو حراست میں لینے کے بعد ان مراکز پر لانے اور ان کی معلومات لینے کے بعد انہیں واپس ان کے وطن بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ 

سندھ کے نگران وزیر داخلہ بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے گزشتہ روز میڈیا ٹاک میں کہا تھا کہ صوبے میں تین ہولڈنگ مراکز قائم کیے ہیں، جن میں دو مراکز کراچی میں اور ایک حیدرآباد میں قائم کیا گیا ہے۔ 

وفاقی حکومت کی ہدایت کے بعد سندھ میں تارکین وطن کے انخلا کے لیے آپریشن شروع کرنے کے لیے سندھ ہوم ڈپارٹمنٹ نے ایک تفصیلی پلان بنایا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی اس پلان ’اللیگل فارنرز ریپیٹریئیشن پلان (آئی ایف آر پی)‘ میں سندھ ہوم ڈپارٹمنٹ کی جانب سے صوبے میں مقیم برمی، بنگالی اور افغان شہریوں میں سے صرف افغان شہریوں کی وطن واپسی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ 

پلان کے مطابق معاشی وسائل کی کمی کے باعث سندھ میں غیر قانونی تارکین وطن کی صوبے میں موجودگی کو برداست نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ تارکین وطن کی موجودگی کے باعث صوبے کی سکیورٹی، معیشت، زمین اورڈیموگرافی پر منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

پلان میں بتایا گیا کہ سندھ کی صوبائی اپیپکس کمیٹی کی 29 جون 2021 کو ہونے والے اجلاس میں بھی ان باتوں کے خدشات ظاہر کیے گئے تھے۔ 

آئی ایف آر پی پلان کے مطابق سندھ میں اس وقت ’پروف آف رجسٹریشن‘ یا پی اور آر رکھنے والے 73 ہزار افغان شہری ہیں اور 68 ہزار کے قریب افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر ہیں۔ اس کے علاوہ پلان کے مطابق صوبے میں ہزاروں غیر رجسٹرڈ افغان، برمی اور بنگالی شہری مقیم ہیں۔ 

رپورٹ کے مطابق سندھ میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن میں ایک ہزار نو سو 80 برمی اور 26 ہزار آٹھ سو 20 بنگالی اور ایک لاکھ 50 ہزار افغانی ہیں۔ 

اس تفصیلی پلان میں سندھ میں مقیم غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے وطن واپس بھیجنے کے لیے جو انتظامات کیے گئے ہیں وہ صرف افغان شہریوں کے انخلا کے ہیں۔

منصوبے کے مطابق افغان شہریوں کو کراچی اور حیدرآباد سے بذریعہ جیکب آباد بلوچستان بھیجا جائے گا اور بلوچستان میں چمن بارڈر سے انہیں واپس افغانستان بھیجا جائے گا۔ پلان میں صوبے میں مقیم برمی اور بنگالی شہریوں کو کیسے واپس بھیجا جائے گا یہ نہیں بتایا گیا۔ 

اس سلسلے میں سندھ ہوم ڈپارٹمنٹ کا موقف جاننے کے لیے ایڈیشنل سیکریٹری (جوڈیشل) سندھ ہوم ڈپارٹمنٹ شازیہ قاضی سے ٹیلی فون اور واٹس ایپ کے علاوہ ان کی آفس کے نمبر پر رابطہ کیا گیا تو آپریٹر نے کہا کہ وہ میٹنگ میں ہیں اور جلد آپ سے رابطہ کریں گی۔ مگر اس خبر کے فائل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں آیا۔ 

کراچی میں غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے وطن واپس پھیجنے سے پہلے عارضی طور رکھنے والے دو ہولڈنگ مراکز کے فوکل پرسن اور ضلع کیماڑی کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) جنید اقبال نے تصدیق کی کہ غیر قانونی  تارکین وطن کو دی گئی ڈیڈ لائین 31 اکتوبر ختم ہونے کے تین دن بعد تک صرف افغان شہریوں کو ہی پکڑا گیا، کسی اور ملک کے شہری کو تاحال نہیں پکڑا گیا۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جنید اقبال نے بتایا کہ کراچی کے دونوں ہولڈنگ مراکز بشمول 250 لوگوں کو رکھنے کی گنجائش والے امین ہاؤس، بوائز سکاؤٹ ہاسٹل ہولڈنگ مرکز اور 500 افراد کی گنجائش رکھنے والے حاجی کیمپ سلطان آباد ہولڈنگ مرکز میں تاحال صرف افغان شہریوں کو ہی لایا گیا ہے۔

جنید اقبال کے مطابق : ’جمعے تک ان دونوں مراکز میں 112 افغان شہریوں کو لایا گیا تھا، جن کو جلد ان کے وطن واپس بھیجا جائے گا۔ ہمارے دونوں مراکز پر تاحال برمی، بنگالی یا کراچی میں مقیم کسی اور ملک کے تارکین وطن کو نہیں لایا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اس کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں موجود غیر قانونی تارکین وطن کو ان کے اپنے وطن واپس بھیجنے کے لیے شروع کیے گئے اس آپریشن کے پہلے مرحلے میں صرف ان غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑا جاررہا ہے، جن کے پاس کسی قسم کی کوئی بھی قانونی دستاویز نہیں ہے۔‘

جنید اقبال کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں مقیم بنگالی، برمی اور دیگر ممالک کے شہری گذشتہ کئی دہائیوں سے مقیم ہیں اس لیے ان کے پاس کسی نہ کسی قسم کی دستاویز موجود ہیں۔

’اس لیے آپریشن کے پہلے مرحلے میں صرف کسی بھی ادارے کے ساتھ رجسٹر نہ ہونے والے افراد کو پکڑا جا رہا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ان افراد کے خلاف کارروائی ہوگی جن کے پاس دستاویز ہیں۔‘

ان سے پوچھا گیا کہ پہلا مرحلہ کب تک چلے گا اور دوسرا مرحلہ کب شروع ہوگا؟ جس پر ان کا کہنا تھا: ’ہم تو حکومتی پالیسی کے تحت کام کررہے ہیں۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ پہلا مرحلہ کب تک چلے گا اور دوسرا مرحلہ کب شروع ہوگا۔ جیسے نئی پالیسی آتی ہے، ہم اس کے تحت مزید کارروائی کریں گے۔‘

کراچی کے بعد حیدرآباد میں بھی افغان تارکین وطن کے ساتھ برمی اور بنگالی شہریوں کی بڑی تعداد ہے، مگر حیدرآباد میں بھی تاحال صرف افغان تارکین وطن کو ہی پکڑا گیا۔ 

حیدرآباد کے لطیف آباد میں قائم ہولڈنگ مرکز کے فوکل پرسن اور حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) طارق احمد قریشی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں افغان شہریوں کی گرفتاری کے متعلق میڈیا سے بات کرنے کی ممانعت ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حیدرآباد میں تاحال تک صرف افغان شہریوں کو ہی حراست میں لیا گیا ہے اور کسی اور شہریت کے حامل شخص کو ہولڈنگ مرکز میں نہیں لایا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان