افغانستان کے علاقے پکتیا سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ سپیځلى زاځۍ طالبان کی حکومت آنے کے بعد اپنی بیٹیوں کے ہمراہ پشاور منتقل ہوئیں، تاکہ انہیں کام اور تعلیم کے مواقعے مل سکیں، لیکن اب وہ پاکستان سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجے جانے کے فیصلے سے پریشان ہیں۔
ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اور وہ کہتی ہیں کہ افغانستان میں خواتین پر بغیرمحرم (مرد) کے باہر جانے پر پابندی ہے، اگر انہیں افغانستان واپس بھیج دیا گیا تو وہ گھر میں بیٹھ کر بھوکے مر جائیں گے۔
سپیځلى زاځۍ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی ایک بیٹی افغانستان میں ملازمت کر رہی تھی جبکہ دو چھوٹی بیٹیاں پڑھ رہی تھیں، طالبان حکومت آنے کے بعد تینوں بیٹیاں گھر پر بیٹھ گئیں اور پھر پانچ ماہ گزرنے کے بعد انہوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ طورخم بارڈر کے راستے پاکستان کے شہر پشاور آئے اور اب یہاں رہائش پذیر ہیں۔
سپیځلى زاځۍ نے بتایا کہ وہ گھر کا خرچہ اور ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے خود بھی پشاور میں کام کرتی ہیں تاکہ کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ اس سال ان کی ایک بیٹی چوتھی کلاس سے پاس ہو کر پانچویں کلاس میں گئی ہے اور دوسری بیٹی آٹھویں سے نویں جماعت میں چلی گئی ہے اور اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی ہے۔
’میری بڑی بیٹی جو افغانستان میں بھی ملازمت کرتی تھی اور گھر کا خرچہ میری اور میری بیٹی کی ذمے داری ہے۔ میری بیٹی یہاں پر بھی ایک نجی کمپنی میں کام کر رہی ہے۔ صبح جاتی ہے اور عصر کے وقت واپس گھر آجاتی ہے۔ میں خود بھی کام کرتی ہوں اور اپنے گھر کا خرچہ پورا کرتی ہوں تاکہ ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کر سکیں اور کسی سے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور اپنی زندگی کو آگے لے کر جائیں۔‘
سپیځلى زاځۍ نے کہا کہ پاکستان میں آسانی کے ساتھ انہوں نے اپنی بچیوں کو سرکاری سکول میں داخل کروا رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اگر افغانستان واپس چلی جائیں تو ان کی طرح دوسری خواتین، جن کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہے اور اپنے خاندان کے اخراجات ان کے ذمے ہوتی ہیں، مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔
سپیځلى زاځۍ کے مطابق: ’وہاں جانے سے خصوصاً لڑکیاں جو تعلیم حاصل کر رہی ہیں، مشکلات کا سامنا کریں گی۔ وہاں پر تعلیم نہیں ہو گی اور مجھے کام کی اجازت نہیں ہو گی اور میری بیٹی ملازمت نہیں کرسکے گی، یعنی ہم اپنے گھر کا خرچہ بھی پورا نہیں کر سکیں گے۔‘