افغان باشندوں کی واپسی: کیا گھروں کے کرایوں پر اثر پڑے گا؟

جن افغان پناہ گزینوں کے آنے سے مکانات کے کرایوں میں اضافہ ہوا تھا کیا ان کے جانے سے مکانات کے کرایوں میں کمی بھی ہوگی؟

افغان پناہ گزین سات بومبر 2023 کو چمن میں پاکستان-افغانستان بارڈر پر ٹرک میں سوار ہو رہے ہیں (اے ایف پی)

افغانستان اور سویت یونین کے مابین جنگ کے بعد جب لاکھوں افغان پناہ گزین افغانستان چھوڑ کر پاکستان منتقل ہوئے تو پاکستان کے پاس افغان پناہ گزینوں کو رہائش دینے کا کوئی باقاعدہ منصوبہ موجود نہیں تھا۔

جب لاکھوں کی تعداد میں یہ پناہ گزین یہاں منتقل ہوئے تو اس وقت جرنل آف ہیومینیٹیز، سوشل اینڈ مینیجمنٹ سائنسز میں شائع 2021 میں ایک مقالے کے مطابق 80 کی دہائی میں پناہ گزین کیمپ نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ شہری علاقوں اور مقامی آبادیوں میں کرائے کے مکانوں میں رہنا شروع ہو گئے۔

اس وقت سے اب تک افغان پناہ گزینوں کی بہت ہی کم تعداد نے کیمپوں میں رہائش اختیار کی جبکہ زیادہ تر افغانوں نے مقامی آبادی کا رخ کیا جس میں بڑی تعداد پشاور میں موجود ہے۔ 1980 میں جب افغان پناہ گزین پشاور میں آباد ہونا شروع ہوئے تو اس وقت مکان کا کرایہ تقریباً پانچ ہزار روپے تھا۔

تحقیقی مقالے کے مطابق پانچ سال بعد کرائے کے مکانات کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا اور کرایہ پانچ ہزار سے بڑھ کر تقریباً 15 ہزار تک پہنچ گیا۔

پناہ گزین پشاور کے علاقے حیات آباد، بورڈ بازار، دانش آباد ، افغان کالونی سمیت آس پاس کے علاقوں میں رہنا شروع ہوگئے۔

اسی طرح شہری علاقوں کے ساتھ وہ افغان پناہ گزین جو معاشی طور پر کمزور تھے، انہوں نے دیہی علاقوں کا رخ کیا کیونکہ وہاں پر شہری علاقوں کے مقابلے میں کرائے کم تھے اور یا زیادہ تر دیہی علاقوں میں وہ کسی کے گھر میں مفت رہ کر مالک مکان کے لیے کام کرتے تھے۔

پناہ گزینوں کے آنے کی وجہ سے اس تحقیقی مقالے کے مطابق کرائے میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس وقت پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے لگا کیونکہ پناہ گزینوں میں جن کے پاس سرمایہ موجود تھا، انہوں نے یہاں پر غیر قانونی طریقے سے زمین خرید کر اپنا گھر تعمیر کرنا شروع کردیا۔

یو این ایچ سی آر کے جون 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 13 لاکھ رجسٹرڈ افغان پناہ گزین آباد ہیں جن میں سات لاکھ کے قریب پشاور، تین لاکھ بلوچستان جبکہ باقی ملک کے دیگر شہروں میں آباد ہیں۔

تاہم رجسٹرڈ کے علاوہ افغان سییٹیزن کارڈ (یہ کارڈ 2017 میں نادرا کی جانب سے نئے آنے والے افغان پناہ گزینوں کو جاری کیا گیا تھا) رکھنے والے پناہ گزینوں کی تعداد چار لاکھ تک ہے۔ تو یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن کے پاس رہائشی اسناد موجود ہیں۔

وفاقی وزارت داخلہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 17 لاکھ تک افغان پناہ گزین غیر قانونی طور پر پاکستان میں آباد ہیں جنہیں یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے جانے کا کہا گیا تھا۔

اس ڈیڈ لائن کے ختم ہونے پر اب پناہ گزینوں کے خلاف مختلف علاقوں میں آپریشن شروع کر دیے گئے ہیں اور اب تک محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کے مطابق طورخم کے راستے ایک لاکھ 74 ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان پناہ گزین واپس جا چکے ہیں۔

اب یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جن افغان پناہ گزینوں کے آنے سے مکانات کے کرایوں میں اضافہ ہوا تھا کیا ان کے جانے سے مکانات کے کرایوں میں کمی بھی ہوگی؟

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پشاور میں کچھ پراپرٹی ڈیلرز سے بات کی اور یہی جاننے کی کوشش کی کہ اب پراپرٹی اور کرایوں کی کیا صورت حال ہے۔

پشاور پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سراج الحق یوسفزئی کی یونین نے گذشتہ ہفتے پشاور کے تمام پراپرٹی ڈیلرز کو غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو کرائے کے مکانات سے نکالنے کی ہدایت جاری کی ہے۔

سراج الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پشاور کی بات کی جائے تو حیات آباد سمیت شہر کے مختلف علاقوں میں 30 سے 50 فیصد رہائشی افغان باشندے ہیں جن میں زیادہ تر کرائے کے مکان جبکہ بعض نے گھر خرید رکھے ہیں۔ تاہم ان کی وجہ سے کرایوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ڈیمانڈ میں اضافے کی وجہ سے ظاہری بات ہے کہ کرایوں میں اضافہ ہوتا ہے اور اب جب سے افغان باشندوں کے نکلنے کا عمل شروع ہوا ہے، تو کرایوں میں واضح کمی دیکھی گئی ہے جبکہ کرائے کے مکانات بھی خالی ہوگئے ہیں۔‘

تاہم سراج الحق کے خیال میں اب رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں جن کا پروف آف ریزڈنس (پی او ار) کارڈ یا افغان سیٹیزن جارڈ کی معیاد یکم جنوری کو ختم ہونے کے بعد کرایوں پر بہت بڑا اثر پڑے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’پشاور میں حیات آباد، دانش آباد، بورڈ، ناصر باض، یونیورسٹی ٹاؤن، سمیت مختلف علاقوں میں کرائے کے مکانات میں افغان آباد ہے اور ایک گھر میں دو سے پانچ خاندان آباد ہوتے ہیں۔ تو ان کے جانے سے کرایوں میں کمی بھی آئے گی اور زیادہ تعداد میں گھر بھی خالی ہوں گے۔‘

افغان شہریوں کو گھر کرائے پر دینے کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ اس کے جواب میں سراج الحق نے بتایا کہ ’ہماری یونین کی جانب سے پہلے سے یہ ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جن افغان باشندوں کے پاس رہاشئی اسناد موجود نہیں ہیں ان کو کوئی بھی پراپرٹی ڈیلر گھر کرائے پر نہیں دے گا۔‘

’ہم ویزہ، پی اور آر کارڈ یا افغان سیٹیزن کارڈ چیک کرنے کے بعد ہی افغان باشندوں کو گھر کرائے پر دیتے ہیں لیکن ظاہری بات ہے کہ بعض غیر قانونی طریقے سے بھی آباد ہیں اور اب پراپرٹی ڈیلرز کو انہیں نکالنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔‘

ایک اور پراپرٹی ڈیلر فضل خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تک تو افغان پناہ گزینوں کے جانے سے مکانات کے کرایوں میں کوئی خاطر خواہ اثر دیکھنے کو نہیں ملا، تاہم دیہی علاقوں میں شاید ایسا ہوا ہو۔‘

فضل خان کا کہنا ہے کہ ’ابھی بھی مقامی افراد کرئے پر گھر لینے آتے ہیں مگر حیات آباد میں کرائے کے مکانات کی کمی ہے، لیکن مستقبل میں دیکھا جائے گا کہ زیادہ تعداد میں افغان پناہ گزینوں کے جانے سے کیا اثر پڑتا ہے۔‘

سراج الحق کے مطابق اب تک زیادہ تر افغان پناہ گزین جو جا رہے ہیں، وہ پنجاب اور سندھ کے صوبوں سے جا رہے ہیں جبکہ اگلے ہفتے سے پشاور سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا منصوبہ ہے اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ پشاور سے افغان پاشندوں نے جانا شروع کر دیا ہے۔

پشاور میں گھر کتنے کرائے پر ملتا ہے؟

پشاور کے مختلف علاقوں میں کرائے بھی الگ الگ ہیں۔ پوش علاقے حیات آباد کی بات کی جائے تو وہاں پر پانچ مرلے کا گھر آج کل 30 سے 40 ہزار پر ملتا ہے جبکہ دس مرلے کے گھر کا کرایہ 50 سے ہزار ماہانہ سے 80 ہزار روپے تک ہے۔

اسی طرح یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقے میں بعض جگہوں پر پانچ مرلے کا گھر پراپرٹی ڈیلرز کے مطابق 30 ہزار سے 50 ہزار تک ہے۔

عثمان علی یونیورسٹی ٹاؤن میں تین کمروں کے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، اور انہوں نے اپارٹمنٹ 55 ہزار روپے ماہانہ کرائے پر لیا ہے۔

جس بلڈنگ میں عثمان علی رہتے ہیں اس میں ایک کمرے کے اپارٹمنٹ سے لے کر تین کمروں تک اپارٹمنٹ موجود ہیں اور کرایہ 25 ہزار سے لے کر 60 ہزار تک ہے لیکن عثمان کے مطابق یہ عمارت پر منحصر ہے کہ عمارت کتنی پرانی اور کتنی نئی ہے اور اسی حساب سے کرائے بھی کم زیادہ ہوتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت