’سکول بیگ میں پتھر لے جانے کی خوشی ہو گی‘

کشمیر کے احمر کا کہنا ہے ’اب ہمیں پڑھ کر کیا کرنا ہے، جس علاقے میں بات کرنے پر پابندی ہو وہاں پتھروں سے ہی کام چلانا پڑے گا‘۔

احمر جیسے بچے جموں و کشمیر کی آبادی کا 40 فیصد حصہ ہیں جنہیں حکومت نے اپنے والدین سمیت گھروں کے اندر قید رکھنے کی سزا دی ہے اور جو سزا تو بھگت رہے ہیں مگر بغیر جرم کیے اس سزا کے خلاف اندر ہی اندر غصے کی آگ میں بھڑک رہے ہیں  (اے ایف پی)

11 سالہ احمر کشمیر کے ڈاون ٹاؤن میں رہتا ہے لیکن سکول سول لائنز میں دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کرکٹ کا شیدائی، آفریدی اور تندولکر کا دیوانہ مگر فلمیں صرف نیٹ فلکس والی دیکھتا ہے۔

پانچ اگست سے وہ گھر میں قید ہے۔ دروازے سے باہر قدم ابھی رکھا نہیں کہ ماں دوڑ کر دروازے پر رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ماں کو فکر ہے وہ سکول کے بحث مباحثوں میں کافی بولتا رہتا ہے کہیں باہر جا کر فوجیوں سے بحث شروع کی تو اس کو یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ کس پولیس سٹیشن میں رکھا گیا ہے یا کس جیل کے چکروں میں بقیہ زندگی گزارنی پڑے گی۔

احمر کا گھر چار کمروں پر مشتمل ہے۔ پانچ اگست سے ایک کمرہ کرکٹ کے میدان میں تبدیل ہو چکا ہے، دوسرے میں لکڑی کے ڈنڈے رکھے گئے ہیں جو کبھی بندوق کی شکل اختیار کر کے بھائی کو ڈرانے کے کام آتے ہیں یا فوجیوں کو اندر آنے سے روکنے کا کام کرتے ہیں۔

اس محلے میں تقریباً سب نے اپنے تحفظ کے لیے گھروں میں لکڑی کے ڈنڈے رکھے ہیں۔ محلے کے بزرگوں نے ان ڈنڈوں کو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرنے کی صلاح دی تھی مگر احمر ان کا استعمال زیادہ تر اپنے بھائی پر ہی کرتا ہے۔

پانچ اگست کو جب حکومتِ بھارت نے کشمیریوں سے ان کی شناخت چھین کر انہیں گھر کے اندر بند کر رکھا ہے کشمیر میں تمام سکول اب تقریباً ڈیڑھ ماہ سے بند ہیں، راشن پانی ختم ہونے کو ہے۔

احمر کے والد کی دکان بھی بند ہو چکی ہے، ماں دن بھر دروازے پر پہرہ دیتی رہتی ہے کہ بچے باہر نہ جائیں یا فوجی اندر نہ آئیں۔ فون مسلسل بند ہیں اور بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ احمر بھائی کے ساتھ زیادہ چڑچڑا ہو گیا ہے۔ والدین نہ صرف عدم تحفظ کا شکار ہیں بلکہ بچوں میں بڑھتی بےچینی سے انتہائی پریشان ہیں اور اس صورت حال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔

کشمیر میں موت جیسی خاموشی ہے۔ ہر کوئی باہر جانے سے لرز رہا ہے۔ ہونٹوں پر تالے ہیں اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ گو سرکار نے سکول کھولنے کی ایک آدھ کوشش کی تھی مگر کوئی اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کے لیے تیار نہیں اور نہ کوئی دکان کھولنے پر راضی ہو رہا ہے۔

عدالتوں میں کام ٹھپ پڑا ہے۔ کاروباری ادارے تقریباً مقفل ہیں۔ لوگ کیسے زندہ ہے اللہ ہی جانتا ہے یا شاید اس نے بھی دنیا کی طرح آنکھیں بند کی ہیں۔

احمر کی ماں ہر صبح بچوں کو یونیفارم بھی پہناتی ہیں لیکن چند منٹ بعد وردی واپس اتارتی ہیں اور کمرے میں بند کر کے پہرہ دینے لگتی ہیں۔ احمر کہتا ہے کہ ماں کا رویہ عجیب و غریب ہوگیا ہے وہ خود سے باتیں کرتی رہتی ہیں اور بابا سے راشن پانی ختم ہونے کا ہر وقت رونا روتی رہتی ہیں۔ شاید خوف میں مبتلا ہیں کہ بچے بھوک سے نہ مریں یا بندوق نہ اٹھائیں یا فوج کی گولی سے نہ مریں۔

احمر جیسے بچے جموں و کشمیر کی آبادی کا 40 فیصد حصہ ہیں جنہیں حکومت نے اپنے والدین سمیت گھروں کے اندر قید رکھنے کی سزا دی ہے اور جو سزا تو بھگت رہے ہیں مگر بغیر جرم کیے اس سزا کے خلاف اندر ہی اندر غصے کی آگ میں بھڑک رہے ہیں۔ جو شاید بھارت کو معلوم ہے اور ہو سکتا ہے وہ کشمیر کو جان بوجھ کر اندھیرے کی جانب دھکیل رہا ہے یا غزہ بنا رہا ہے تاکہ وہ اسرائیل کی طرح فوجی کارروائی کر کے علاقوں پر قبضہ کرتا جائے یا لوگ تنگ ہو کر نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

احمر کی لینڈ لائن چند روز سے چلنے لگی ہے لیکن کس کو فون کرے جب سب کا فون بند پڑا ہے۔ میں نے احمر سے کئی بار فون پر بات کرنے کی کوشش کی مگر فون نہیں لگا پھر کسی نے سکائپ  کے ذریعے ملانے کی صلاح دی اور میں فون ملانے میں کامیاب ہو گئی۔ میں نے احمر سے پوچھا کہ وقت کیسے گزرتا ہے؟

’پہلے چند روز تک نصاب کی کتابیں ختم کیں، چند مضامین لکھے، پرانے اخبار پڑھے اور چند ناول کسی کونے میں پڑے تھے وہ دوسری بار پڑھے۔ کمرے میں کرکٹ کھیلنے کا مزا نہیں آتا لیکن ممی باہر نہیں جانے دیتیں.... باقی وقت ٹی وی کی ایک چینل دیکھتے ہیں کیونکہ ٹی وی کی سبسکرپشن ختم ہوچکی ہے‘ احمر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔

سکول کھلنے کا کوئی امکان ہے؟ میں نے پوچھا۔

احمر نے لمبی آہ بھر کر کہا، ’ایک دن شاید کھلیں گے مگر اس دن تک میرے کلاس کے سارے لڑکے برہان وانی بن گئے ہوں گے جو بھارت کی منشا بھی ہے۔ سرکار سمجھتی ہے کشمیر میں حالات خراب کر کے ہندو ووٹ حاصل ہو گا لیکن میرا خیال ہے اس سےبھارت کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔‘

میں دل میں سوچ رہی تھی کہ ماں کو واقعی احمر کی فکر ہونی چاہیے۔ جس طرح یہ بات کر رہا ہے اس سے محسوس ہو رہا ہے اس کی سوچ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ میں خاموش ہو گئی مگر فون پر چند لمحوں کی خاموشی صدیاں لگتی ہیں۔ میں نے خاموشی توڑ کر احمر سے سوال کیا ’اگر سکول کل پرسوں کھل گئے تو آپ کو کتنی خوشی ہوگی؟‘

وہ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا، ’سکول جانے کی اب کوئی خوشی نہیں ہوگی لیکن پتھروں سے بیگ بھر کر لےجانے کی ضرور خوشی ہوگی۔ اب ہمیں پڑھ کر کیا کرنا ہے، جنگ ہوگی لڑیں گے، مر جائیں گے یا ماریں گے۔ جس علاقے میں بات کرنے پر پابندی ہو وہاں پتھروں سے ہی کام چلانا پڑے گا۔‘

میں نے احمر سے کہنا چاہا اس طرح کی سوچ سے پرہیز کرنا چاہیے اور بحث و مباحثے کے ذریعے بات پہنچائی جاسکتی ہے مگر میں ابھی کچھ کہنے والی تھی کہ احمر بول اٹھا ’نیلسن مینڈیلا کی بات اس وقت تک کس نے سنی جب اس نے پُرامن تحریک شروع کی تھی۔ بابا کہتے ہیں ہم نے پرامن تحریک چلانے کا تجربہ پہلے ہی کیا ہے جس کو ہماری کمزوری سے تعبیر کیا گیا۔ جس طرح ہمیں ذہنی اور جسمانی دباؤ سے مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیا اس سے اچھا ایک ہی بار مرنا نہیں ہے؟‘

احمر خاموش ہوگیا۔ میں کہنے ہی والی تھی پُرامن تحریک سے زندگی بچائی جاسکتی ہے جو کشمیر میں ویسے بھی سستی ہوگئی ہیں لیکن میری بات کہنے سے پہلے ہی فون منقطع ہوگیا۔ میں بھی خوف میں مبتلا ہوں کہیں ہمارا فون بھی ریکارڈ تو نہیں ہوا ہوگا جیسا بیشتر لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے اور چند منٹ کے بعد پولیس دروازوں پر کھڑی ہو جاتی ہے۔

ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ حکومت نے اب جبکہ کشمیریوں کا سب کچھ چھین لیا ہے پھر 80 لاکھ آبادی کو محصور کر کے وہ اب کس حکمت عملی پر گامزن ہے؟ کاش حکومت کا ترجمان میڈیا ہی کچھ بتانے کی کوشش کرتا۔

-----

نوٹ: سکیورٹی خدشات کی بنا پر اس تحریر کے لیے احمر فرضی نام رکھا گیا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ