جرمنی سے پاکستان کا 14 مہینوں میں پیدل سفر

ملیے 20 سالہ پاکستانی نژاد جرمن نوجوان میران حسین سے جو پاکستان پہنچنے کے لیے 14 مہیںوں میں 12 ملکوں سے گزرے۔

دبلا پتلا، درمیانہ قد، چہرے پر ہلکی داڑھی اور سر پر مینڈھیاں، یہ حلیہ ہے 20 سال کے پاکستانی نثراد جرمن نوجوان میران حسین کا۔

میران جرمنی سے پیدل چل کر پاکستان پہنچے ہیں اور انہوں نے 7450 کلو میٹر کا یہ طویل سفر 14 ماہ میں مکمل کیا۔ میران کے والد پاکستانی ہیں اور یہ ان کا پاکستان کا دوسرا دورہ ہے مگر وہ پہلی بار پاکستان کب آئے، انہیں یاد نہیں کیونکہ تب وہ بہت چھوٹے تھے۔

میران نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں اپنے سفر کی کہانی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے لیے جرمنی سے پیدل پاکستان آنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا۔ ان کے والدین پہلے تو اجازت نہیں دے رہے تھے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ ایران کی سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہونے میں کچھ خطرہ ہوسکتا ہے، مگر پھر انہوں نے بیٹے کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور اجازت دے دی۔

میران کہتے ہیں، ’میری ذہنی عمر میری جسمانی عمر سے زیادہ ہے، اسی لیے والدین نے بھی مجھ پر اعتماد کیا اور اجازت دے دی۔ پہلے میں نے سوچا سائیکل یا کوئی اور سواری لے لوں، مگر پھر دل و دماغ میں یہی تھا پیدل جانا ہے۔ میں ہر جگہ چل کر دیکھنا چاہتا تھا، ہر شہر اور ملک کی ثقافت کا مطالعہ کرنا چاہتا تھا‘۔

میران نے 14 مہینے میں 12 ملکوں کی سرحدیں عبور کیں۔ وہ جرمنی سے آسٹریا، اٹلی، سلوینیا، کروشیا، سربیا، بلغاریا،یونان،ترکی، جارجیا، آرمینیا، ایران اور پھر پاکستان پہنچے۔

ان تمام ملکوں میں ان کا گزر زیادہ تر پہاڑوں علاقوں سے ہوا۔ میران کہتے ہیں وہ پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتے تھے کیونکہ جرمنی میں وہ پاکستانی کھانے کھاتے تھے، یہاں سے آنے والے رشتے داروں کو بھی ملتے تھے ، وہ اپنے ایک حصے کو جاننا چاہتے تھے اور ان رشتہ داروں سے جن سے وہ کبھی نہیں ملے ان سے ملنا چاہتے تھے، مگر پڑھائی میں مصروفیت کے سبب وہ پہلے ایسا نہیں کر سکے۔

’میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ پاکستان جانا میرے لیے کتنا اہم ہے اور پھر میں نے فیصلہ کیا چاہے جتنا بھی عرصہ لگے، میں پاکستان پیدل ہی جاؤں گا۔‘

یہ سفر کتنا تکلیف دہ تھا؟

’میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ سفر آسان تھا کیونکہ اتنا پیدل چلنا بہت مشکل تھا۔ مزہ بھی آیا، زیادہ تر صبح کے وقت سفر کرتا تھا جب جسم میں توانائی بھری ہوتی تھی، مگر دن کے اختتام کے ساتھ ہمت بھی جواب دے جاتی تھی اور پھر چلنا مشکل ہوجاتا تھا۔ ہر ملک میں ہی مشکل پیش آئی کیونکہ مجھے بار بار اپنی خراب ہونے والی چیزیں تبدیل کرنا پڑتی تھیں اور اگر چیزیں ٹھیک بھی رہتیں تو میرے گھٹنے جواب دے جاتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’مسئلے سارے سفر میں ساتھ چلتے رہے۔ میرے ساتھ سامان بھی تھا جس کا وزن تقریباً 30 سے 50 کلو تھا، پھر موسم کا بھی بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ اگر گرمیوں میں آپ کسی غلط ملک پہنچ گئے یا سردیوں میں کہیں اور تو اس کی وجہ سے بھی سفر میں بہت مشکلات آتیں تھیں۔‘

میران کے مطابق اگر آپ سائیکل پر ہیں تو دن میں ایک سو کلو میٹر کا سفر کر لیتے ہیں مگر پیدل یہ سفر بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

ہمت نے کہاں جواب دے دیا؟

میران نے ایران کا قصہ سنایا کہ وہ ایران کے دشت کاویر سے گزر رہے تھے جہاں انہوں نے 164 کلو میٹر کا سفر بغیر کسی انسان اور کھانے پینے کے طے کیا۔ وہ ہر روز 50 کلو میٹر چلتے تھے۔

’میں نے خود کو اس سفر کے لیے تیار کیا تھا، پانی بھی ساتھ رکھا مگر پانی 50 سے 52 ڈگری درجہ حرارت پر تقریباً ابل چکا تھا اور پینے کے قابل نہیں تھا۔ یہاں میں نے سوچا کہ بس اب اور نہیں ہوسکے گا۔ تین روز تک صحرا میں چلنے کے بعد ایک پولیس ٹرک وہاں پہنچا اور انہوں نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مجھے مزید اکیلے چلنے سے روک دیا۔‘

اس سارے سفر میں کوئی ایسا وقت نہیں تھا جب مجھے درد نہ ہوا ہو،میرے پیروں پر چھالے بن چکے تھے، لیکن زیادہ مسئلہ گُھٹنوں کا ہوا۔استنبول میں، میں نے تین ماہ گزارے کیونکہ میرے گھٹنے جواب دے چکے تھے اور میں چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔‘

’کچھ ڈاکٹروں نے کہا میرے گھٹنے کا آپریشن ہوگا ورنہ میں ساری زندگی چلنے کے قابل نہیں رہوں گا مگر کچھ ڈاکٹروں نے مجھے فزیو تھراپی کا کہا، جس کے بعد تین ماہ تک میں یہ ایکسرسائزیں کرتا رہا اور پھر سے اپنا سفر شروع کر دیا۔‘

آپ اپنے ساتھ کتنا وزن لے کر چل رہے تھے؟

میران نے بتایا جب وہ جرمنی سے چلے تو ان کے پاس 30 کلو کا وزن تھا۔ ان کے بھائی ایلا کروشیا تک ان کے ساتھ تھے پھر وہ جہاز سے پاکستان پہنچ گئے اور اپنی چیزیں بھی انہیں کے پاس چھوڑ گئے۔

’سامان میں پانی بھی تھا، کچھ بھاری بوٹ خریدنے کے بعد وزن مزید بڑھ کر 40 سے 50 کلو تک پہنچ گیا۔‘

میران کو اتنے بھاری سامان کے ساتھ چلنے میں خاصی دشواری ہوئی مگر پھر یہاں کسی نے ان کی مدد کی اور ایک ٹرالی دے دی جس کے بعد سفر کچھ آسان ہو گیا۔

اس سفر کے لیے کسی ٹریولنگ ایجنسی نے تعاون کیا؟

چودہ مہینے طویل سفر کا خیال میران کا اپنا تھا اور انہیں کسی ٹریولنگ ایجنسی کا تعاون حاصل نہیں تھا۔ ’کچھ ٹریولنگ ایجنسیز نےمجھ سے رابطہ کیا مگر میں یہ سب خود کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ضرورت کا سامان اپنے پیسوں سے خریدا اور کچھ میرے والدین نے مجھے لے کر دیا۔‘

کیا مستقبل میں بھی آپ ایسے ایڈونچرز کرنا پسند کریں گے؟

میران کہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی وہ ضرور ایسے سفر کریں گے مگر یہ بات یقینی ہے کہ اب وہ کسی سواری کا استعمال کریں گے، جیسے موٹر سائیکل یا سائیکل۔

اس سارے سفر میں انہوں نے یہ بات سیکھی کہ اگر آپ دنیا پیدل چل کر گھومنا چاہتے ہیں تو اپنے ساتھ کم سے کم سامان لے کر چلیں، تبھی آپ سفر کا مزہ لے سکیں گے ورنہ یہ سفر تکلیف دہ ہوگا۔

جو لوگ آپ کی طرح دنیا کا سفر کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے کوئی مشورہ؟

میران کے مطابق اس سارے سفر کے لیے آپ کا ارادہ پختہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے آپ کیا کرنے جارہے ہیں۔

’میں نے اپنے سارے سفر میں ایک سپاہی کی طرح زندگی گزاری۔ ایک ٹائم پر سونا، اٹھنا، رکنا اور پھر چلنا اور روز 50 کلومیٹر طے کرنا وغیرہ۔ اگر آپ میں یہ جذبہ ہے اور آپ کے ارادے اتنا پختہ ہیں تو ضرور ایسا ایڈونچر کریں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی