مزدوروں کے حقوق پر بنی پاکستان کی فلمیں

مزدوروں سے متعلق پاکستان کی پہلی اردو فلم ’جاگو ہوا سویرا‘ کو کہا جا سکتا ہے، جسے اے جے کاردار نے ڈائریکٹ کیا اور کہانی و ڈائیلاگ فیض احمد فیض نے لکھے تھے۔

1964 میں بننے والی فلم ہیرا اور پتھر اس کے ہیرو اور معروف اداکار مرحوم وحید مراد کی ذاتی پروڈکشن تھی، جس میں انہوں نے مزدور کا کردار ادا کیا (وکی کامنز)

یکم مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یومِ مزدور منایا جاتا ہے۔ مزدوروں کا عالمی دن 1886 میں امریکا کے شہر شکاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کی یاد دلاتا ہے۔ 

شکاگو کے مزدوروں نے آٹھ گھنٹے کام کے اصول کے لیے جو تحریک چلائی، وہ صرف ایک مطالبہ نہ تھا بلکہ ایک انقلاب کی چنگاری تھی، جس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو بیدار کیا۔ اس انقلاب کو اکثر و بیشتر فلموں میں بھی استعمال کیا گیا۔ 

چاہے ہالی وڈ ہو یا بالی وڈ، ہر جگہ مزدوروں کے حقوق اور اس سے ملتے جلتے موضوعات پر فلمیں بنائی گئی ہیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری بھی اس میں کبھی پیچھے نہیں رہی، اور یہاں بھی مزدور طبقے کی نمائندگی مختلف ادوار میں کی گئی ہے — کبھی انقلابی انداز میں، کبھی رومانوی پس منظر میں اور کبھی نصیحت آموز انداز میں۔

پچاس کی دہائی میں پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں تھی۔ ابتدائی برسوں میں انڈیا کی دیکھا دیکھی ایسی فلمیں بنتیں جن میں مزدور کا ثانوی کردار ہوتا، جیسے حسرت، آس پاس، آدمی۔ مزدور کے کردار کو انڈیا سے ہی آئے ہوئے اداکار علاؤالدین نبھاتے، جبکہ سنتوش کمار، اسلم پرویز اور حبیب فلم کے ہیرو ہوتے۔ 

مزدوروں کی زندگی اور جدوجہد پر بنائی گئی پہلی اردو فلم جاگو ہوا سویرا کو کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اکیڈمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہونے والی غیر ملکی فلموں کی کیٹیگری میں شامل اس فلم کو اے جے کاردار نے ڈائریکٹ کیا اور اس کی کہانی و ڈائیلاگ فیض احمد فیض نے لکھے۔

فلم ایک غریب خاندان کی جدوجہد کو موضوع بناتی ہے جو ایک مچھیروں کی بستی میں آباد ہے۔ ہدایتکار اے جے کاردار نے فلم کا انداز سادہ، سنجیدہ اور حقیقت پسندانہ رکھا ہے، جہاں خاندان کے افراد کو ایک کشتی خریدنے کے لیے رقم جمع کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ڈھاکا میں فلمائی گئی اس فلم میں ہیرو کا کردار زورین نامی نوجوان نے ادا کیا تھا، جبکہ ہیروئن کے لیے کلکتہ کی ترپتی مصرہ کو بلایا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں شوٹ ہونے والی یہ فلم بننا تو جمہوریت کے دور میں شروع ہوئی تھی مگر اس کی ریلیز ایوب دور میں ہوئی، جب ملک امریکا کے کیمپ میں جا رہا تھا اور یہاں ’کمیونسٹ‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔

مغربی پاکستان میں سرمایہ دار اور مزدور کے فرق کو واضح طور پر ہدایتکار حسن طارق کی پہلی فلم نیند میں دکھایا گیا ہے۔ 1959 میں بننے والی یہ فلم، جس میں مرکزی کردار نور جہاں نے ادا کیا، مالک کے ہاتھوں نوکر کے استحصال کی کہانی ہے۔ مشہور ڈائیلاگ رائٹر ریاض شاہد کے کیریئر کی یہ ابتدائی فلموں میں سے ہے۔ ریاض شاہد، فیض احمد فیض کے خیالات سے متاثر تھے اور ان کے زیرِ سایہ پروگریسیو پیپرز کے لیل و نہار میں کام کیا کرتے تھے۔ نیند اس وقت کے مشہور ہیرو اسلم پرویز کی ولن کے روپ میں پہلی فلم تھی، جس میں وہ ایک مل کے مالک تھے اور نورجہاں سانوری، ایک عام کوئلہ چننے والی دوشیزہ۔ سانوری اپنی نیند کے ہاتھوں مجبور تھی اور اسی کمزوری کی وجہ سے امیرزادے کے جال میں پھنس جاتی ہے۔

اس کے بعد 1964 میں وحید مراد کی ذاتی پروڈکشن ہیرا اور پتھر کا نام آتا ہے، جس میں ہیرو گدھا گاڑی چلا کر گھر بھی چلاتا ہے اور بھائی کی تعلیم کا خرچ بھی اٹھاتا ہے، جو شہر جا کر انہیں بھول چکا ہوتا ہے۔ شہری بھائی حمید کا کردار ابراہیم نفیس، جبکہ جانو کا کردار، اپنی اولین فلم میں بطور ہیرو جلوہ گر ہونے والے، وحید مراد ادا کر رہے تھے۔ شہری اور دیہی زندگی کو پرویزی ملک کی ڈائریکشن میں بننے والی اس فلم میں عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ 

فلم کی کہانی اقبال رضوی نے لکھی تھی، جو درپن، کمال اور وحید مراد کے لیے کئی سپرہٹ فلمیں لکھ چکے ہیں۔ حمید شہر میں ایک کروڑ پتی سیٹھ کی بیٹی سلمیٰ (اداکارہ کمو) سے شادی کر لیتا ہے اور باپ، بھائی اور بہن کو نہیں پہچانتا۔ سلمیٰ کے بھائی ساجد کو حمید کھلتا ہے، اور جب وہ نوکرانی سمجھ کر حمید کی بہن سے زبردستی کرتا ہے، تو حمید کے اندر کا بھائی جاگتا ہے۔ 

اس فلم سے ملتی جلتی کہانی بالی وڈ کے آنجہانی پروڈیوسر ڈائریکٹر منوج کمار کی فلم اپکار کی تھی، جو اس فلم کے تین سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔ منوج کمار نے وحید مراد کی طرح درد بھرے انداز میں بولنا یہیں سے شروع کیا تھا، جبکہ پریم چوپڑا وہی کردار ادا کر رہے تھے جیسا ابراہیم نفیس نے ادا کیا تھا، البتہ اس میں پریم چوپڑا کا روایتی ٹچ شامل تھا۔

فلمسٹار ندیم نے 1970 میں اپنی ذاتی فلم مٹی کے پتلے بنانے کا فیصلہ کیا تھا اور فیض احمد فیض کو فلم کے مہورت پر مدعو بھی کیا تھا۔ اپنی مصروفیات کی وجہ سے وہ اس فلم کو وقت نہ دے سکے اور اس پر کام تب شروع ہوا جب نئے منتخب ہونے والے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بعض صنعتوں کو قومیانے کے بعد فروری 1972 میں نئی مزدور پالیسی کا اعلان کیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف انہوں نے مزدوروں کے لیے نئے فوائد اور مراعات کا اعلان کیا، مگر دوسری جانب خبردار بھی کیا کہ اگر انہوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا تو سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔ کچھ عرصے بعد جب مزدوروں کے مطالبات حکومت نے پورے نہ کیے، تو انہیں لگا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ 

یکم مئی 1972 کو ملک میں پہلا لیبر ڈے منانے کے چند دنوں بعد ہی کراچی کے علاقے سائٹ میں موجود فیروز ٹیکسٹائل ملز کے باہر مزدوروں نے دھرنا دے دیا۔ پولیس کی گولی چلنے کے نتیجے میں ایک لیڈر کی ہلاکت ہوئی۔ فلم کے ہدایتکار ندیم کے سسر احتشام تھے، جو اس سے قبل چکوری میں ندیم کو متعارف کرا چکے تھے۔ احتشام خود کمیونسٹ خیالات رکھتے تھے اور انہیں اس لڑائی دنگے میں ایک کہانی نظر آئی۔ مٹی کے پتلے ابھی بننا ہی شروع ہوئی تھی کہ ڈائریکٹر صاحب کو دل کا دورہ پڑ گیا۔ جب فلم تاخیر کے بعد فروری 1974 میں ریلیز ہوئی، تو معاملہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس فلم میں ہیرو ندیم اور ہیروئن نشو کو ’ایلیٹ‘ کلاس سے دکھایا گیا تھا، جبکہ روایتی طور پر ولن آنے والے شاہنواز اور منور سعید کو حیران کن طور پر ہمدرد مزدور لیڈر بنایا گیا تھا۔ فلم تو ناکام ہوئی مگر اسے تاشقند کے فلمی میلے میں لیبر ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

اسی دور میں اداکار طارق عزیز نے ایک فلم بنانے کا ارادہ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی محبت میں انہوں نے بطور فلمساز فلم جئے بھٹو کا اعلان کیا، جو پہلے کالا سورج کہلائی اور بالآخر ساجن رنگ رنگیلا کے نام سے 1975 میں ریلیز ہوئی۔ 1973 میں مکمل ہونے والی فلم جئے بھٹو پر اعتراضات ہٹانے میں دو سال لگ گئے اور فلم دیر سے ریلیز ہو کر ناکام ہوئی۔ اس فلم میں طارق عزیز خود ہیرو تھے اور لیبر لیڈر کے طور پر نظر آئے۔ ان کے مدمقابل اداکارہ دیبا نے ہیروئن کا کردار کیا تھا، جبکہ فلم کا مرکزی کردار رنگیلا اور ممتاز نے ادا کیے۔ طارق عزیز اس فلم کی ناکامی کے بعد ہی کراچی کام کے غرض سے آئے اور نیلام گھر کے ہو گئے۔

ضیاء دور کے بعد اردو فلمیں کم اور پنجابی فلمیں زیادہ بننا شروع ہوئیں اور وہاں، سرمایہ دار نوکر سے زیادہ جاگیردار اور کسان کا موضوع ہٹ ہوتا۔ کمیونسٹ نظام کی شکست کے بعد سے اس موضوع کو کسی فلمساز نے موزوں نہ سمجھا اور ایک بہترین ٹاپک، پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لیے قصۂ پارینہ ہو چلا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ