سوموار کی شب راولپنڈی میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور کراچی کنگز کے درمیان میچ کے اختتام کے ساتھ پی پاکستان سپر لیگ 10 کا گروپ سٹیج مرحلہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
پلے آف کے مرحلہ میں پہنچنے والی چارٹیموں کا فیصلہ اگرچہ اتوار کو پشاور زلمی کی شکست کے ساتھ ہی ہو گیا تھا تاہم دوسری اور تیسری پوزیشن کے لیے یونائیٹڈ اور کنگز کے درمیان مقابلہ تھا جو یونائیٹڈ نے یکطرفہ طور پر کنگز کو شکست دے کر جیت لیا اور پہلے پلے آف میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے خلاف جگہ بنا لی۔
پہلے پلے آف میں پہنچنے کا مطلب ہے کہ دونوں ٹیموں کو ہارنے کی صورت میں ایک اور موقع میسر ہو گا کہ وہ فائنل میں پہنچ سکیں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم اس لحاظ سے خوش قسمت رہی کہ وہ اپنے آخری چار میچ ہارنے کے بعد جس تنزلی کا شکار تھی وہ اب اس جیت کے بعد زائل ہوچکی ہے۔
کراچی کنگز جس نے اپنے گذشتہ میچ میں پشاور زلمی کو ایک بڑا سکور کرنے کے بعد شکست دی تھی وہ اس ہی صورت حال کا اپنے آخری میچ میں شکار ہو گئی۔ اسلام آباد نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ایک بہت سکور کر کے کراچی کنگز کی بیٹنگ کو پریشان کر دیا۔
اگرچہ کنگز ہارنے کے باوجود پلے آف میں پہنچ گئی ہے لیکن اب اس کے لیے ایک ہی موقع ہو گا کہ سیمی فائنل میں جا سکے۔ پلے آف میں اس کا مقابلہ روایتی حریف لاہور قلندرز سے ہو گا، جس نے اپنے آخری اور فیصلہ کن میچ میں پشاور زلمی کو شکست دے کر پلے آف میں جگہ بنائی ہے۔
تخفیف شدہ اوورز کے میچ میں لاہور نے زبردست بیٹنگ کرکے پشاور کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ فخر زمان نے جم کر بیٹنگ کی اور میلہ لوٹ لیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور زلمی پہلی دفعہ پلے آف سے باہر
پی ایس ایل کی تاریخ میں پشاور زلمی نے ہر ایڈیشن میں پلے آف میں جگہ بنائی ہے، لیکن رواں ایڈیشن نے اس روایت کو توڑ دیا اور وہ پہلی دفعہ پلے آف سے پہلے ہی سرنگوں ہو گئے۔
اگرچہ پشاور کی ٹیم بہت اچھی تھی لیکن متوازن نہیں تھی۔ اوپنرز کسی بھی میچ میں اچھا آغاز نہ دے سکے۔ صائم ایوب نے سارے سیزن میں مایوس کیا اور وہ کسی بھی میچ میں توقعات کے مطابق بیٹنگ نہیں کر سکے۔ ایک دو میچوں میں انہوں نے رنز ضرور کیے لیکن ٹیم کے کام نہیں آئے۔
محمد حارث نے بھی ایک دو اننگزاچھی کھیلی لیکن زلمی کو شکست سے نہیں بچا سکے۔ وہ بوقت ضرورت کبھی بھی بیٹنگ نہیں کر سکے۔ بابر اعظم نے آخری چند میچوں میں اچھی بیٹنگ کی لیکن وہ بھی ٹیم کو جیت تک نہ لے جا سکے۔ ان کی کپتانی پر بھی سوال اٹھتے رہے اور نازک مواقع پر وہ بےبس نظر آئے۔
بولنگ کی تبدیلی میں تاخیر اور فیلڈنگ کی بےترتیبی نے زلمی کو ناکامیوں کا منہ دکھایا۔ فیلڈنگ بھی بہت خراب رہی اور آخری میچ میں پانچ آسان کیچ چھوڑ کر زلمی نے اپنے تابوت میں پانچ کیلیں خود ہی ٹھونک دیں۔
زلمی کا تھنک ٹینک بھی مایوس اور ناامید نظر آیا۔ انضمام الحق محمد اکرم اور مشتاق احمد پر مشتمل کوچنگ سٹاف نہ درست ٹیم منتخب کر سکا اور نہ پچ کو سمجھ سکا۔ آخری دو میچوں میں زبردست بیٹنگ پچ پر بابر اعظم کا پہلے بولنگ کا فیصلہ دیوانے کی ضد نظر آیا۔ جس جگہ پہلے بیٹنگ کرکے حریف ٹیم کو دباؤ میں لیا جا سکتا تھا، وہاں خود دباؤ میں آ گئے۔ مجموعی طور پر زلمی اس سال ایک منتشر اور پست حوصلہ نظر آئی۔
ملتان سلطانز کی بدترین کارکردگی
ملتان جس کی بیٹنگ اور بولنگ بظاہر بہت مضبوط نظر آتی ہے، اس سال اپنی روایتی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔ محمد رضوان اور یاسر خان نے کچھ اچھی اننگز کھیلیں لیکن بولرز حریف ٹیم کو ہدف تک پہنچنے سے نہیں روک سکے۔
ٹیم اور مینجمنٹ میں ہم آہنگی بھی نظر نہیں آئی۔ علی ترین کی پی ایس ایل پر تنقید نے بھی سلطانز کو عنوان بحث بنائے رکھا۔ ٹیم مینجمنٹ نے کچھ انوکھا دکھانے کے چکر میں خواتین بولنگ سٹاف رکھا جس کا کوئی فائدہ ہوا اور نہ بولروں کو مدد ملی۔ مجموعی طور پر ملتان ایک مایوس اور بکھری ہوئی ٹیم نظر آئی۔
پی ایس ایل 10 کی دریافت
رواں سال اگر یہ کہا جائے کہ کوئی ایسا مقامی ٹیلنٹ سامنے نہیں آ سکا جو حیران کر سکے تو درست ہو گا۔ لاہور کے محمد نعیم، ملتان کے یاسر خان اسلام آباد کے شہزاد اور پشاور کے علی رضا نے کسی حد تک متاثر کیا، اور مستقبل میں ان کی پاکستان ٹیم میں جگہ بن سکتی ہے تاہم ان چاروں کھلاڑیوں کی فیلڈنگ اور فٹنس میں بہت بہتری کی ضرورت ہے۔
کراچی کنگز اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے کسی نئے کھلاڑی کو متعارف نہیں کرایا اور ایمرجنگ کیٹیگری میں ابھی پرانے کھلاڑی کھیلتے رہے۔ تاہم اسلام آباد نے آخری گروپ میچ میں کراچی کے نوجوان وکٹ کیپر غازی غوری کو جگہ دی جو قابل تعریف بات ہے۔ اعظم خان جن کی جارکردگی روز بروز خراب ہو رہی ہے، ان کو ڈراپ کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا۔
تماشائیوں کی عدم دلچسپی
پی ایس ایل 10 میں تماشائیوں کی عدم دلچسپی نے پی سی بی کو متفکر کر دیا ہے۔ کراچی کے تمام میچز میں چند سو لوگ ہی میچ دیکھنے آئے جبکہ لاہور اور ملتان میں بھی سٹیڈیم مکمل بھر نہ سکے۔ البتہ راولپنڈی میں تماشائی بڑی تعداد میں آئے اور میچز کا لطف لیا۔ کراچی نے جس طرح پی ایس ایل کا بائیکاٹ کیا اس سے مستقبل میں کراچی میں میچز ختم کیے جا سکتے ہیں۔
پی ایس ایل کے دوران کسی بھی شہر میں مقامی انتظامیہ کو سرگرم نہیں دیکھا گیا، جبکہ پی سی بھی وقت گزارنے میں ہی مصروف رہی۔ پی ایس ایل میں جنگی ماحول کے سبب جو خلل پڑا اس نے دوسرے حصے میں کچھ جوش و خروش بڑھایا لیکن مجموعی طور پر پی ایس ایل 10 اکتاہٹ کا شکار لیگ رہی۔ میڈیا نے بھی اس سیزن میں زیادہ توجہ نہیں دی کیونکہ عوامی دلچسپی ہی کم تھی۔