پاکستان نے تنازعات کے حل کے لیے چین کی زیر صدارت ثالثی گروپ میں جمعے کو شمولیت کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے ہانگ کانگ میں قائم ہونے والی بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی (آئی او ایمیڈ) کے قیام کے لیے دستخط کیے۔
اس موقعے پر خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے تنظیم کے قیام اور مشترکہ مستقبل کے ساتھ عالمی برادری کو فروغ دینے کے لیے چینی قیادت کے اقدام کو سراہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بانی اراکین میں سے ایک کے طور پر، پاکستان اس عظیم مشن میں ایک فعال آواز بن کر رہے گا۔
’آئی او ایم ایڈ زیادہ جامع، زیادہ منصفانہ دنیا کی تعمیر کے لیے نئے مواقع اور تازہ امیدیں پیش کرتا ہے۔‘
انہوں نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون کے مکمل نفاذ کے ذریعے کثیرالجہتی کو آگے بڑھانے اور اس کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا۔
وزیر خارجہ نے نے پاکستان کے خلاف جارحیت اور سندھ طاس معاہدے کی غیر قانونی طور پر انڈیا کی جانب سے معطلی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ نے جموں و کشمیر کے دیرینہ تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے پر زور دیا۔
دفتر خارجہ کے مطابق بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی (IOMed) کے قیام کا خیال اپریل 2019 میں بیجنگ میں منعقدہ دوسرے بیلٹ اینڈ روڈ فورم کے اہم نتائج میں سے ایک تھا۔
’چین نے 2021 میں آئی او ایم ایڈ کے قیام کے لیے بات چیت کا آغاز کیا تھا اور پاکستان کو اپنے بانی اراکین میں سے ایک کے طور پر مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔
’تنظیم تمام ممالک کے لیے ہے۔ ہر ملک کی خودمختاری، بنیادی مفادات اور جائز خدشات کے احترام پر مبنی ہے۔‘
یہ تنظیم ہے کیا؟
درجنوں ممالک نے بین الاقوامی ثالثی پر مبنی تنازعات کے حل کے گروپ کے قیام میں چین کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس نئی قائم ہونے والی تنظیم میں 30 سے زیادہ ملکوں کے نمائندے شامل ہیں۔
چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے بعد پاکستان اور انڈونیشیا سے لے کر بیلاروس اور کیوبا تک، ممالک کے نمائندوں نے ہانگ کانگ میں بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط کیے، تاکہ اس عالمی تنظیم کے بانی ارکان بن سکیں۔
ترقی پذیر ممالک کی حمایت نے اس بات کا اشارہ دیا کہ جغرافیائی اور سیاسی کشیدگی کے پیش نظر، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجارتی پابندیوں کے باعث، عالمی جنوب میں بیجنگ کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔
تقریب کے دوران، وانگ یی نے کہا کہ چین طویل عرصے سے باہمی افہام و تفہیم اور اتفاق رائے کی بنیاد پر مکالمے کے ذریعے اختلافات طے کرنے کا حامی رہا ہے، اور اس کا مقصد اقوام کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ’چینی حکمت‘ فراہم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا: ’بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی کا قیام اس سوچ سے آگے نکلنے میں مدد دیتا ہے جس میں صرف یہ مانا جاتا ہے کہ ’تم ہارو گے تو میں جیتوں گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ، جس کا صدر دفتر ہانگ کانگ میں واقع ہے، بین الاقوامی تنازعات کے دوستانہ حل کو فروغ دینے اور دنیا بھر میں زیادہ ہم آہنگ تعلقات قائم کرنے میں مدد دینے کا ہدف رکھتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیجنگ نے اس تنظیم کو دنیا کی پہلی بین الحکومتی قانونی تنظیم قرار دیا جو ثالثی کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے، اور کہا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے تحفظ میں ایک اہم نظام ثابت ہو گی۔ چین نے اس کے ساتھ ہانگ کانگ کو ایشیا میں ایک بین الاقوامی قانونی اور تنازعات کے حل کی خدمات فراہم کرنے والے مرکز کے طور پر بھی پیش کیا۔
وانگ یی نے کہا کہ ہانگ کانگ میں قانون کی حکمرانی انتہائی ترقی یافتہ ہے، جہاں کامن لا اور ملکی سرزمین کے چینی قانونی نظام دونوں کے فوائد موجود ہیں، اور دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی ثالثی کے لیے یہاں منفرد اور سازگار حالات میسر ہیں۔
ہانگ کانگ کے رہنما جان لی نے کہا کہ یہ تنظیم اپنا کام رواں سال کے آخر تک شروع کر سکتی ہے۔
تقریب میں تقریباً 50 دیگر ممالک اور 20 کے قریب تنظیموں، جن میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے، کے نمائندوں نے شرکت کی۔
یوئمنگ یان، جو چینی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں قانون کی پروفیسر ہیں، نے کہا کہ یہ نئی تنظیم موجودہ اداروں مثال کے طور پر ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف اور مستقل ثالثی عدالت کے لیے ایک تکمیلی نظام کا کردار ادا کرے گی۔
انہوں نے کہا: ’جب کہ بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) اور مستقل ثالثی عدالت (پی سی اے) عدالتی فیصلے اور ثالثی پر توجہ دیتی ہیں، آئی او ایم ای ڈی ایک منظم اور ادارہ جاتی متبادل تنازع حل نظام، یعنی ثالثی کو عالمی سطح پر متعارف کرا رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ اس نئے ادارے کے بہت سے پہلو ابھی واضح نہیں ہوئے، لیکن اس سے رسمی قانونی چارہ جوئی یا ثالثی اور مصالحت جیسے لچکدار طریقوں کے درمیان بہتر رابطے کا دروازہ کھل سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف ہانگ کانگ کی قانون کی پروفیسر شاہلہ علی نے کہا کہ بین الاقوامی تنظیم برائے ثالثی میں ریاستوں کے درمیان، کسی ریاست اور دوسری ریاست کے شہری کے درمیان، یا بین الاقوامی تجارتی تنازعات میں ثالثی کی صلاحیت موجود ہو گی۔
انہوں نے کہا: ’کنونشنز نئے طریقوں کے تجربات کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔‘ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ دنیا بھر میں سرمایہ کار اور ریاست کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے ثالثی میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔