چین یوکرین حملے میں ثالثی کی کوشش کیوں کر رہا ہے؟

جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک مزید ایک سال کے تنازعے پر کمر کس رہے تھے اور ہتھیاروں کی فراہمی میں برتری کے لیے مقابلہ کر رہے تھے تو چین ایک امن منصوبہ لے کر آ گیا۔

04 فروری 2022 کو لی گئی تصویر میں روسی صدر ولادی میر پوتن اور چینی صدر شی جن پنگ بیجنگ میں اپنی ملاقات کے دوران (اے ایف پی)

روسی حملے کے ایک سال بعد مغربی دنیا نے یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔

حمایت کا یہ اعادہ اس انداز میں تھا کہ مغربی دنیا بمشکل دیکھ پائی کہ کرہ ارض کے دوسری جانب ایک بہت بڑی طاقت (چین) اس موقعے کو مختلف انداز میں منا رہی ہے۔

حتیٰ کہ جب امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک مزید ایک سال کے تنازعے پر کمر کس رہے تھے اور ہتھیاروں کی فراہمی میں برتری کے لیے مقابلہ کر رہے تھے تو چین ایک امن منصوبہ لے کر آ گیا۔

اس امن منصوبے نے اس حد تک مغربی توجہ حاصل کی کہ اسے مسترد کر دیا گیا۔

عام تاثر یہ تھا کہ ’اب بات کرنے کا وقت نہیں ہے، اور ویسے بھی یہ چین کا کام نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ایک ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کرے ۔۔۔ اور نہ ہی چین کی اس معاملے میں کوئی ساکھ ہے۔‘

تاہم چند ہفتوں کے بعد چین کا 12 نکاتی ’پوزیشن پیپر‘ مسترد نہ ہونے کی خبر ہے، بلکہ ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ کم از کم پیرس اور برلن اور شاید واشنگٹن ڈی سی میں بھی اس پر غور کیا جا رہا ہے۔

 زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یوکرین نے اسے مسترد نہیں کیا، انہوں نے اس پوزیشن پیپر کا ’محتاط استقبال‘ کیا۔

 اس چھوٹے سے سگنل کی روشنی میں شاید چین نے خاموشی سے دباؤ ڈالا ہے۔

پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ تیسری بار چین کے صدر بننے والے شی جن پنگ، اگلے ہفتے ماسکو کا دورہ کریں گے۔

اس دوران وہ یوکرین کے صدر وولودی میرزیلنسکی کے ساتھ ’ریموٹ‘ ملاقات بھی کریں گے، جو کہ دورے سے تھوڑی دیر پہلے یا بعد میں طے ہے۔

یہ ملاقات کافی بڑی تبدیلی کی نشانی ہو گی۔

تقریباً ایک سال قبل استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سے یوکرین اور روس کے درمیان کوئی باضابطہ رابطہ نہیں ہوا، یا ثالثوں کے ذریعے بھی کوئی معلوم رابطہ نہیں ہوا ہے۔

باضابطہ طور پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ مذاکرات اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی مداخلت کی وجہ سے ختم ہو گئے تھے، اور یہ سب کرنے کی ہدایت امریکہ نے دی تھی۔

چین کا پیش کردہ 12 نکاتی امن منصوبہ کیا تھا؟

یہ 12 نکاتی پلان ہے کیا؟ چین ثالثی میں زیادہ دلچسپی کیوں دیکھا رہا ہے؟ اور کیوں ماسکو اور کیئف – اور شاید ، کیئف کے کچھ مغربی اتحادی – عارضی بات چیت کے اس سے کم مخالف ہیں جتنا کہ ان کے عوامی بیانات سے ظاہر ہوتا ہے؟

چین کو یوکرین اور اس کے حامیوں کی جانب سے اقوام متحدہ کے ووٹوں میں مسلسل غیر حاضر رہنے اور روس کی مغربی مذمت میں شامل نہ ہونے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم جنگ کے ایک سال بعد، چین کو اس دوہرا فائدہ ہوا۔

اس پلان کا پہلا نکتہ قومی خودمختاری، اقوام متحدہ کے اصولوں اور بین الاقوامی قانون کے احترام کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ روس کے حملے کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔

 لیکن پلان کا دوسرا مطالبہ ہے کہ ’سرد جنگ کی ذہنیت‘ ختم کی جائے اور ’کسی خطے کی سلامتی فوجی اتحادوں کی مضبوطی یا وسعت سے مشروط نہ ہو۔‘ تو یہ نیٹو کی جانب بھی ایک اشارہ ہے۔

 یہ پلان ’متوازن، مؤثر اور پائیدار یورپی سلامتی کے ڈھانچے‘ کی بھی وکالت کرتا ہے - جس کے لیے ماسکو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے دلیل دیتا رہا ہے۔

دیگرنکات میں بالخصوص یوکرین سے متعلق، چین اقوام متحدہ کی سرپرستی میں تنازعات والے علاقوں میں انسانی امداد کے اضافے، جنگی قیدیوں کے لیے بین الاقوامی حفاظتی اقدامات پر سختی سے عمل درآمد، جوہری ہتھیاروں کے بارے میں ڈھیلی ڈھالی بات چیت کے خاتمے، جوہری بجلی گھروں کے تحفظ (اگرچہ یوکرین نے غیر فوجی علاقوں کا مطالبہ نہیں کیا )  اور اس معاہدے کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے جس کے تحت اناج کے جہاز یوکرین کی بندرگاہوں سے نکلتے ہیں۔

چین بہت سے معاملات میں، کشیدگی میں کمی، عالمی تجارت اور رسد کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کے خاتمے اور یکطرفہ (یعنی اقوام متحدہ کی نامنظور شدہ) پابندیوں کو مسترد کرنے کے مطالبے میں، یوکرین جنگ سے آگے دیکھ رہا ہے اور اپنے مفادات اور ترجیحات کی نمائندگی کر رہا ہے۔

 بہرحال، یہی اصول تائیوان اور سمندری راستوں تک رسائی کے بارے میں امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کنٹرول کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

لیکن یہ خود کو بہت سے ممالک کے وکیل کے طور پر بھی کھڑا کر رہا ہے جنہوں نے چین اور بھارت کے ساتھ ساتھ یوکرین کا ساتھ دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

عملی طور پر چین ’جتنی جلدی ممکن ہو‘ براہ راست مذاکرات کی بحالی کا مطالبہ کرتا ہے تاکہ ’بالآخر‘ ’جامع جنگ بندی‘ تک پہنچا جا سکے۔

اس اقدام میں تنازعے کے فریقین اور دیگر ممالک سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ ایسا کرنے کے لیے ضروری حالات پیدا کرنے میں مدد کریں۔

کیا یہ معاہدہ روس اور یوکرین، دونوں کے حق میں ہے؟

مناسب ہوگا کہ چین کے اس اقدام کو، کم از کم مغرب کے عوامی فورمز پر حاصل ہونے والی پذیرائی سے زیادہ اہمیت دی جائے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ ایک سال پرانی اور بظاہر ختم ہونے کے قریب نہیں ہے۔ اس کے باوجود بہت سے مفادات اس پلان سے حاصل ہو سکتے ہیں۔

روس کے لیے یہ جنگ اچھی نہیں جا رہی، لیکن یہ اتنی بری بھی نہیں جا رہی کہ پسپائی کے لیے اپنے ملک کے اندر سے دباؤ کو ہوا دے۔

آپ چاہے ولادی میرپوتن اور شی جن پنگ کو اپنا دوست سمجھیں یا نہیں (اور میں تو نہیں سمجھتی)، ماسکو کے پاس بیجنگ کا شکریہ ادا کرنے کی وجہ ہے۔

چین روسی توانائی کے لیے ایک متبادل مارکیٹ فراہم کر رہا ہے جس کو یورپی ملکوں نے مسترد کر دیا ہے اور اس نے اقوام متحدہ میں روس پر تنقید کو روکا۔

اس سے اسے ماسکو میں غیر معمولی فائدہ ملتا ہے۔ اور اس فائدے کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

یہ بھی دلیل دی جا سکتی ہے کہ روس نے کم از کم اپنے کچھ بڑے جنگی مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔

ان میں، کریمیا کے زمینی راستے کو محفوظ بنانا، اس جزیرہ نما کے ساتھ تازہ پانی کی فراہمی کو دوبارہ جوڑنا اور بحیرہ ازوف تک خصوصی رسائی قائم کرنا شامل ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ روس نے مغرب میں دونبیس سے زیادہ علاقے پر قبضہ کرنے کے کسی بھی عزم کو ترک کر دیا ہے۔ کیا وہ یہاں رکنے اور اپنے نقصانات ختم  کرنے کے لیے تیار ہوسکتا ہے؟

اگلے سال روس میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے پیش نظر، ولادی میر پوتن کو اپنے یا کسی جانشین کے لیے انتخابی مہم میں شامل ہونے کی بجائے فتح کا دعویٰ کرنے اور دشمنی ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکتا ہے۔ مہنگی الیکشن مہم ابھی جاری ہے۔

پوتن نے حال ہی میں کہا ہے کہ انتخابات ہوں گے، لیکن انہوں نے خود کھڑے ہونے کا عہد نہیں کیا (جس کو مغربی اتفاق رائے ہونے کے باوجود فرض نہیں کیا جانا چاہیے۔)

یوکرین نے اپنے اہداف بڑھا لیے ہیں جن میں دونبیس اور کریمیا کی بازیابی بھی شامل ہے۔

یوکرین نے ولادی میرپوتن سے بات کرنے سے انکار کو قانون میں شامل کیا اور اصرار کیا ہے کہ وہ آخر تک لڑے گا۔ یہ سب اچھی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔

لیکن اگر مشرق میں بخموت کے قریب تعطل نے روس کی کمزوری کو بے نقاب کیا ہے تو اس نے یوکرین کی کمزوری کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔

یوکرین کے نقصانات بڑھ رہے ہیں، فوجی بھرتیوں میں مشکلات کی اطلاعات ہیں، اور اسے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تازہ فراہمی کے حصول میں تاخیر کا سامنا ہے۔ یوکرین کے حوصلے کے بارے میں بھی متضاد جائزے موجود ہیں۔ اس بات کا یہاں سے سے پتا چل سکتا ہے کہ یوکرین نے چین کے اس اقدام کو مسترد نہیں کیا۔

جہاں تک اس کے اتحادیوں کا تعلق ہے، وہ اب بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ’جہاں تک درکار ہوگا‘  وہ یوکرین کا دفاع کریں گے۔

لیکن انفرادی ممالک کے مالی اور فوجی وسائل کے ضیاع کے بارے میں امریکی سیاسی حلقوں میں بے صبری کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ تعمیر نو کی لاگت ۔۔۔ جس کا یورپی ممالک کو ڈر ہے کہ بڑی حد تک ان پر چھوڑ دی جائے گی ۔۔۔ دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

 اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ جنگ کے خاتمے کا وقت اور شرائط کیئف پر منحصر ہوں گی۔ لیکن کیئف کی طرح ، وہ خود بھی یقینی طور پر جانتے ہیں کہ یہ سچ نہیں ہے۔

جب مغرب اس کی قیمت اور شاید وسیع پیمانے پر تباہی کے خطرات سے پریشان ہو جائے گا، تو کیئف کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ بہترین شرائط پر کوئی حل تلاش کرے۔

نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نقطہ نظر سے ذہنوں پر مزید توجہ مرکوز ہوگی۔

12 نکاتی پلان پر عمل درآمد کی صورت میں چین کے لیے امکانات

اور پھر چین ہے۔ یوکرین کی جنگ نے بیجنگ کو ایسے مواقع فراہم کیے ہیں جو اس نے کبھی سوچے تک نہ ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس نے اپنی توانائی کے تحفظ کو فروغ دیا ہے۔ اس نے چین کو ایک ایسے وقت میں دوستانہ ماحول فراہم کیا ہے جب اسے لگتا ہے کہ اس کی سمندری سلامتی کو امریکہ سے خطرہ ہے۔ اس نے شی جن پنگ کو ایک غیر مغربی بلاک کے محافظ ان چیف کی حیثیت سے آگے بڑھنے کا موقع دیا ہے، جسے ’گلوبل ساؤتھ‘ بھی کہا جاتا ہے۔

یوکرین کے لیے چین کے 12 نکاتی منصوبے کے بعد شی جن پنگ پہلی بار ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی طرف سے ثالثی کی ذمہ داری سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ترک صدر اب زلزلے کے بعد تباہی اور انتخابات کی تیاری میں مصروف ہیں۔

تاہم اگر پیش رفت ہوتی ہے تو چین کے اس اقدام کو نہ صرف پس منظر میں بلکہ ایک نئے بین الاقوامی نظام کے پیش خیمہ کے طور پر بھی دیکھنا ہوگا۔

اسی لیے، ایک سنکی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس پلان کی ناکامی کو یقینی بنانے کے لیے اپنی پوری کوشش کریں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر