چین کے طاقتور ترین رہنما کی اقتدار پر گرفت مزید مضبوط

شی جن پنگ چاہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی میں ہر کوئی ان سے اتفاق کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ وہ ایسے ماحول میں رہنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جہاں ان کے ارد گرد ’جی حضوری کرنے والے لوگ‘ موجود ہوں۔

چین کے صدر شی جن پنگ 13 مارچ 2023 کو بیجنگ کے ہال آف دی پیپلز میں نیشنل پیپلز کانگریس کے اختتامی اجلاس کے بعد تالیاں بجا رہے ہیں (اے ایف پی)

چین کی ربڑ سٹیمپ پارلیمنٹ نے شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ ملک کا صدر منتخب کر لیا ہے۔ اس طرح کے انتخاب کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس انتخاب پر تھوڑا سا تعجب ہو سکتا ہے لیکن اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ان کا اقتدار پر کنٹرول کس قدر مضبوط ہوا ہے۔

چین میں صدر کا عہدہ آئینی طور پر رسمی ہے لیکن شی جن پنگ کی اصل طاقت اس حقیقت میں ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما (انہیں پہلے ہی تاریخی طور پر پارٹی کا تیسری مرتبہ سربراہ چنا گیا) اور فوج کے کمانڈر انچیف ہیں۔ درحقیقت نیشنل پیپلز کانگریس کے ارکان، جنہوں نے شی کو ووٹ دیا، حکمران جماعت کی طرف سے مقرر کیے جاتے ہیں۔

شی جن پنگ کو پہلے ہی اکتوبر میں کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے طور پر تیسری مرتبہ پانچ سال کے لیے منتخب کر لیا گیا گیا۔ اس طرح اس روایت کو توڑا گیا جس کے تحت چینی رہنماؤں کو دہائی میں صرف ایک بار اقتدار سونپا جاتا تھا۔ اس سے بھی پہلے چینی آئین میں ایک ہی شخص کے دو بار سے زیادہ صدر نہ بننے کی پابندی ختم کر دی گئی اور تجویز دی گئی تھی کہ شی تاحیات اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔

شی جن پنگ کا اقتدار کی طرف سفر اس وقت شروع ہوا جب ان کے پیشرو ہوجن تاؤ نے انہیں کمیونسٹ پارٹی کی باگ ڈور سونپی۔ تازہ ترین اقدام خود کو پارٹی کے مرکز میں رکھنے کے لیے مسلسل اور بعض اوقات بے رحمانہ سفر کی انتہا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف چلائی جانے والی مہمات کی بدولت شی جن پنگ کو اپنے لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو باہر نکالنے کا بھی موقع ملا۔

شی جن پنگ نے بنیادی طور پر اس دھڑے بندی کو بھی ختم کر دیا ہے جو کئی دہائیوں تک چین کی سیاست میں موجود رہی۔ اب ان کے ارد گرد وفادار لوگ موجود ہیں۔ پارلیمنٹ نے 66 سالہ ژاؤ لیجی کو پارلیمنٹ کا سربراہ اور 68 سالہ ہان ژینگ کو نائب صدر منتخب کیا۔ دونوں افراد شی کے اہم اتحادی ہیں۔ ان کی حکمرانی کو چیلنج  کرنے والا کوئی نہیں ہے اور انہوں نے اپنا جانشین پیدا کرنے کی امید بھی ختم کر دی ہے۔

صدر شی کے ایک اور اتحادی، لی چیانک کی ہفتے کو بطور وزیراعظم توثیق کر دی جائے گی، جو چین کا دوسرا اعلیٰ ترین عہدہ ہے۔ یہ ایک ایسا کردار ہے جس کے تحت شنگھائی میں پارٹی کے سابق سربراہ اور شی کے اتحادی کو معیشت کی ذمہ داری مل جائے گی۔ شی جن پنگ کے منظور کردہ دیگر لوگوں کو اس ہفتے کے آخر تک سرکاری عہدوں پر منتخب یا تعینات کیا جانا ہے۔ ان حکام میں نائب وزیراعظم، مرکزی بینک کے گورنر اور متعدد دیگر وزرا شامل ہیں۔ سالانہ پارلیمانی اجلاس پیر کو شی جن پنگ کی تقریر کے ساتھ ختم ہوگا۔

سابق وزیر اعظم لی کی چیانگ کو سابق رہنما ہو کے ساتھ وابستہ ہونے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ انہیں شی کے حکم پر گذشتہ سال پارٹی کانگریس میں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا ایسا ان کی خرابی صحت کی وجہ سے کیا گیا یا وہ مسئلہ پیدا کر رہے تھے، لیکن اس سے یقینی طور پر شی جن پنگ کے مضبوط ہونے کا واضح اشارہ ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اپنے کئی سالوں پر محیط اقتدار کے دوران شی جن پنگ نے چین میں سول سوسائٹی پر اپنی پارٹی کی گرفت مضبوط کی، آزادی اظہار کے خلاف اقدامات اٹھائے اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کی تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔ چین نے سنکیانگ کو جبری طور پر باقی معاشرے جیسا بنانے کی مہم بھی چلائی۔

2021 میں برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ نے ایوان نمائندگان میں ایک تحریک منظور کی جو کسی کو قانونی طور پر پابند نہیں کرتی۔ اس تحریک میں سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ’انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا شکار‘ قرار دیا گیا۔ چین نے ان الزامات کی تردید کی۔

چین کے صدر کو بانی رہنما ماؤ زے تنگ کے بعد اب بڑے پیمانے پر ملک کی سب سے طاقتور شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ شی جن پنگ نے ماؤ کے لیے پسندیدگی کو راز میں نہیں رکھا۔ انہوں نے شخصیت پرستی کا اپنا ایک انداز وضع کیا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جسے حالیہ برسوں میں فروغ ملا۔

گذشتہ سال کے اختتام کے قریب شی نے شمال مغربی صوبے شانشی میں یانان کا دورہ کیا جو کمیونسٹ پارٹی میں انقلاب کے گہوارے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 2018 میں چین کے اعلیٰ ادارے نے شی جن پنگ کے سیاسی نظریے ’شی جن پنگ کی سوچ‘ کو ملکی آئین میں شامل کر دیا۔ ماؤ کے علاوہ کسی چینی رہنما نے اپنے نظریے کو ’سوچ‘ کے طور پر بیان نہیں کیا اور صرف ماؤ اور ڈینگ ژیاؤپنگ کا نام ان کے نظریے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ 2021 میں اعلان کیا گیا کہ ’شی جن پنگ‘ کی سوچ کو قومی نصاب میں متعارف کروایا جائے گا۔

شی جن پنگ کے سامنے بہت سے چیلنجز ہیں، جن میں سست رو معیشت اور امریکہ کے ساتھ مشکل کے شکار سفارتی تعلقات شامل ہیں۔ اس کے بعد یوکرین پر ماسکو کے حملے کے پس منظر میں روس کے ساتھ بیجنگ کے بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات ہیں۔ کیئف کو مغربی اتحادیوں کی طرف سے بھرپور حمایت حاصل ہے۔ روس کے صدر ولادی میر پوتن نے اپنے ’پیارے دوست‘ کو ان کی نئی صدارتی مدت پر مبارکباد دی ہے۔

شی چاہتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی میں ہر کوئی ان سے اتفاق کرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ وہ ایسے ماحول میں رہنے کا خطرہ مول لے رہے ہیں، جہاں ان کے ارد گرد ’جی حضوری کرنے والے لوگ‘ موجود ہوں۔ شی مستقبل میں ہونے والی کسی بھی ناکامی کے مکمل طور پر ذمہ دار ہوں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ