اسلام آباد و کابل میں سفیروں کی تعیناتی کتنی اہم؟

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور کابل کی جانب سے سفیروں کی تعیناتی ایک اہم اقدام ہے اور اس میں چین کا کردار اہم ہے۔ 

19 اپریل، 2025 کی کابل کی اس تصویر میں پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار (بائیں) جبکہ ان کے ساتھ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی گفتگو کرتے ہوئے (اے ایف پی/ افغان وزارت خارجہ)

پاکستان کی جانب سے جمعے کو کابل میں تعینات ناظم الامور کو سفیر کے درجے پر ترقی دینے کے اعلان کے بعد کابل نے کہا ہے کہ وہ بھی اسلام آباد میں موجود اپنے نمائندے کو سفیر کے درجے پر ترقی دیں گے۔

افغان وزارت خارجہ نے ایکس پر کہا ’افغانستان اور پاکستان کے درمیان سفارتی نمائندگی میں یہ ترقی دو طرفہ تعاون کو کئی شعبوں میں بڑھانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔‘

افغان وزارت کے ترجمان ضیا احمد توکل نے اے ایف پی کو بتایا کہ وزیر خارجہ امیر خان متقی آئندہ دنوں میں پاکستان کا دورہ کریں گے۔

متقی نے رواں مہینے بیجنگ میں پاکستانی نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ان کے چینی ہم منصب وانگ ای کے ساتھ سہ فریقی ملاقات کے دوران ملاقات کی تھی۔

اس کے بعد وانگ نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان سفیروں کے تبادلے کے ارادے کا اعلان کیا اور ’افغانستان - پاکستان تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد جاری رکھنے‘ کی بیجنگ کی خواہش کا اظہار کیا۔

یہ اقدام ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کا اشارہ ہے کیونکہ طالبان حکام اور پاکستان کے درمیان تعلقات جو پہلے ہی کشیدہ ہیں حالیہ مہینوں میں سرد مہری کا شکار ہیں، جس کی وجہ سکیورٹی خدشات اور اسلام آباد کی جانب سے ہزاروں افغانوں کو ملک بدر کرنے کی مہم ہے۔

’مثبت سمت‘

اسحاق ڈار نے جمعے کو پاکستان-افغانستان تعلقات کی ’مثبت سمت‘ کی تعریف کی اور کہا کہ نمائندوں کو اپ گریڈ کرنے سے ’ان دو برادر ممالک کے درمیان مزید تبادلوں کو فروغ ملے گا۔‘

2021  میں اقتدار میں واپسی کے بعد طالبان حکومت کے سفیروں کی میزبانی کے لیے صرف چند ممالک — جن میں چین شامل ہے — نے رضامندی ظاہر کی ہے، جبکہ ابھی تک کسی بھی ملک نے اس انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔

روس نے گذشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ طالبان حکومت کے ایک سفیر کو بھی تسلیم کرے گا، اس بیان سے چند روز قبل ماسکو نے اس گروپ کو ’دہشت گرد‘ کی فہرست سے نکال دیا تھا۔

اس سے پہلے چین دنیا  کا واحد ملک تھا جس نے افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد کابل میں عبوری سفیر تعینات کیا تھا۔

اس کے بعد قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی کابل میں سفیر تعینات کیے تھے اور دو طرفہ تعلقات کو بڑھانے پر اتفاق کیا تھا لیکن ابھی تک دنیا میں کسی بھی ملک نے افغان طالبان کی حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ 

مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور کابل کی جانب سے سفیروں کی تعیناتی ایک اہم اقدام ہے اور اس میں چین کا کردار اہم ہے۔ 

مشتاق یوسفزئی پشاور میں مقیم صحافی اور افغان امور کے ماہر ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان کی طرف سے افغان طالبان کو بارہا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جارہا تھا جبکہ افغان طالبان کی جانب سے پاکستان پر کالعدم داعش کی سرپرستی کا الزام لگایا جا رہا تھا۔

اسی طرح مشتاق یوسفزئی کے مطابق سرحد پار سے مختلف کارروائیاں بھی دیکھی گئیں اور اسی وجہ سے طورخم سرحد میں کئی رور تک بند تھی جس سے تجارت بھی متاثر ہوئی۔

انہوں نے بتایا، ’چین کی چونکہ پاکستان افغانستان میں سرمایہ کاری موجود ہے اور ان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ جہاں امن نہ ہوں تو وہاں سرمایہ کاری کا فائدہ نہیں، تو چین نے دونوں ممالک کو ایک میز پر بیٹھا دیا ہے۔‘

انڈیا اور پاکستان کشیدگی کے بعد بیجنگ میں سہ فریقی اجلاس میں مشتاق یوسفزئی کے مطابق ’مختلف سکیورٹی سمیت دیگر معاملات زیر بحث آئے اور اس کے بعد ہم نے کچھ تبدیلیاں بھی دیکھیں۔ 

’افغانستان نے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے افغان باشندوں کو ویزوں میں آسانی اور خرلاچی سرحد کو تجارت کے لیے کھول دیا گیا۔‘

مشتاق یوسفزئی نے بتایا، ’یہ بیجنگ میں سہ فریقی ملاقات سے پہلے ایک ٹیسٹ فیز تھا اور پھر بیجنگ میں مزید وعدے اور تعلقات کو بہتر بنانے کے وعدے کیے گئے جس میں سفیروں کی تعیناتی بھی شامل تھی۔‘

زردشت شمس سابق افغان سفارت کار ہیں اور 2017 سے 2019 تک پاکستان میں افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن تھے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دونوں ممالک کی جانب سے سفیروں کی تعیناتی ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں۔

زردشت نے بتایا، ’اس سے دونوں ممالک کی ایک دوسرے پر بے اعتمادی ثابت ہوتی ہے کہ چار سال بعد ان پڑوسی ممالک نے سفیروں کی تعینات نہیں کی تھی اور یہ ایک ایسے حال میں کہ کچھ دیگر ممالک پہلے سے سفیر تعینات کر چکے ہیں۔‘

پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات کے حوالے سے زردشت شمس سمجھتے ہیں کہ یہ تعلقات ’نازک‘ ہیں کیونکہ دونوں ممالک ایک دوسرے پر کسی بھی حادثے کے بعد الزامات لگاتے ہیں۔ 

پاکستان کی جانب سے حالیہ دنوں میں بلوچستان سمیت ٹی ٹی پی کی مبینہ کارروائیوں کا الزام انڈیا پر عائد کیا ہے کہ انڈیا ان عناصر کو سپورٹ کرتا ہے۔

زردشت کے مطابق: ’انڈیا پر بھی الزام لگانا دراصل افغانستان پر الزام تراشی ہے کیونکہ پاکستان پہلے سے سمجھتا ہے کہ انڈیا کی جانب سے افغانستان کی زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔‘

’خطے میں چین کا جیو سٹریٹجک ماڈل‘

ڈاکٹر سید عرفان اشرف پشاور یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروفیسر اور دفاعی امور کے ماہر ہیں اور جنوبی ایشیا میں شدت پسند تنظیموں کے حوالے سے تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’چین کی کوشش ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک تک رسائی کے لیے افغانستان بہت اہم ہے اور اب اس خطے میں چین کا جیو سٹریٹجک ماڈل چل رہا ہے اور یہ خطہ چین کے لیے سکیورٹی نہیں معاشی طور پر اہم ہے۔‘

عرفان اشرف نے بتایا، ’پاکستان اور افغانستان کے مابین اہم کردار چین نے ادا کیا ہے لیکن اس سارے کردار میں چین انڈیا کے ساتھ دشمنی تو کرتا ہے لیکن معاشی طور پر انڈیا کے ساتھ اب بھی تجارت کرتا ہے اور یہی پالیسی پاکستان کو بھی اپنانی چاہیے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’چین جنگوں کو پسند نہیں کرتا اور نہ اس خطے میں جنگ چاہتا ہے کیونکہ اس سے چین کی معیشت کو فائدہ ہے اور اسی وجہ سے چین اس سارے معاملے میں بہت اہم ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس میں یہ بھی اہم ہے کہ انڈیا اور امریکہ کا کیا کردار ہو گا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا