پی ایس ایل 10: خیبر پختونخوا کے پسماندہ علاقوں سے نئے کرکٹر زیادہ ملے

پی ایس ایل ٹیموں کی پلیئنگ الیون میں شائقین کرکٹ اور کرکٹ بورڈ حکام کی توجہ حاصل کرنے والے نئے کھلاڑی اس سال زیادہ تر چھوٹے شہروں سے یہاں تک پہنچے۔ 

لاہور قلندرز میں ایمرجنگ کیٹگری سے پلیئنگ الیون میں شامل ہونے والے نوجوان کھلاڑی محمد نعیم صدر پاکستان سے اپنا ایوارڈ وصول کر رہے ہیں (پی ایس ایل 10 ایکس)

پاکستان سپر لیگ 10 میں حصہ لینے والی چھ مختلف ٹیموں کے ریکارڈ کے مطابق حالیہ سیزن میں پلیئنگ الیون میں شامل ایمرجنگ کیٹگری میں کل 15 کھلاڑی میدان میں اتارے گئے جن میں سے بیشتر کا تعلق خیبر پختونخواہ کے پسماندہ شہروں سے ہے۔

پی ایس ایل 10 کامیابی سے اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی حسب معمول ملکی و غیر ملکی، تجربہ کار اور نئے کھلاڑیوں نے مختلف ٹیموں میں شامل ہو کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

اس بار ٹورنامنٹ کی فاتح لاہور قلندر کے پہلی بار پی ایس کھیلنے والے نئے کھلاڑی محمد نعیم نے اپنی ٹیم کی طرف سے مختلف میچوں میں بیٹنگ کر کے کل 316 رنز بنائے اور پلیئر آف ٹورنامنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔

پی ایس ایل کی چھ ٹیموں لاہور قلندرز، پشاور زلمی، اسلام آباد یونائیٹڈ، کراچی کنگز، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور ملتان سلطانز نے مختلف کیٹگری کے 20 ,20 کھلاڑی سلیکٹ کیے تھے۔

ان ٹیموں کی جانب سے کھلاڑیوں میں کارکردگی کی بنیاد پر ردوبدل ہوتی ہے۔

ہر ٹیم بہتر کمبینیشن کے لیے قومی، بین الاقوامی اور مقامی کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹ میں مقابلے لیے تیار کرتی ہے۔

ان ٹیموں نے نئے کھلاڑی تیار کرنے کے لیے بھی بندو بست کیے ہوئے ہیں۔ جیسے لاہور قلندر نے نئے کھلاڑی تیار کرنے کے لیے پلیئرز ڈویلپمنٹ پروگرام، کراچی کنگز کا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہے۔

اسی طرح باقی ٹیموں نے بھی نئے کھلاڑی تیار کرنے کا بندو بست کر رکھا ہے۔ 

پلیئر آف ٹورنامنٹ بننے والے محمد نعیم بھی لاہور قلندرز کے اسی پروگرام کے تحت تیار ہوکر میدان میں آئے اور چھا گئے۔

پی ایس ایل ٹیموں میں سلیکشن کا طریقہ

پی ایس ایل ٹیموں کے ضابطوں کے مطابق پاکستان سپر لیگ میں شامل ٹیموں کی جانب سے کھلاڑی سلیکٹ کرنے کے لیے چھ کیٹگریز (درجہ بندی) بنائی گئی ہیں۔ 

پہلی کیٹگری کو پلاٹینم کا نام دیا گیا ہے اس میں ملکی و غیر ملکی سٹار کھلاڑی شامل ہوتے ہیں جن کے ساتھ ٹیم (فرنچائز)کھیلنے کا معاہدے ان کی شرائط کے مطابق کرتی ہے۔ 

دوسری کیٹگری کو ڈائمنڈ کا نام دیا جاتا ہے جس میں ملکی و غیر ملکی نمایاں اور بہتر کارکردگی کے حامل کھلاڑیوں کو شامل کیا جاتا ہے۔

تیسری درجہ بندی گولڈ اور چوتھی سلور کہلاتی ہے۔ ان کیٹگریز میں لیگز یا کلب سطح پر کھیلنے والے ابھرتے ہوئے ملکی و غیر ملکی کھلاڑیوں کو ٹیم کا حصہ بنایا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ پانچویں کیٹگری کو ایمرجنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس میں نئے اور پہلی بار پی ایس ایل کی سطح پر کھیلنے والے کھلاڑی شامل ہوتے ہیں۔ 

آخری چھٹی کیٹگری کو سپلیمنٹری قرار دیا جاتا ہے جس میں کسی بھی کھلاڑی کو بوقت ضرورت پلیئنگ الیون میں شامل کرنے کے لیے ریزرو میں ہی رکھا جاتا ہے۔ 

پی ایس ایل کی تمام چھ ٹیموں میں ویسے تو 11 کھلاڑی پورے کرنے کے بعد ریزرو میں نو سے پانچ تک کھلاڑی رکھے جاتے ہیں۔ لیکن جو پلیئنگ الیون11 ہوتی ہے اس میں ہر کھلاڑی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔

سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی ملک میں بہترین کھلاڑیوں کا انتخاب کرنے کے لیے لیگز اور پی ایس ایل جیسے مقابلے بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

’تمام بڑے کھلاڑی ایسے ہی مقابلوں سے قومی ٹیم تک پہنچتے ہیں۔ کیونکہ کسی بولر یا بیٹسمین کی کارکردگی جانچنے کے لیے یہ مقابلے سلیکٹرز کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں۔‘

کون سا نیا کھلاڑی کس شہر سے آیا؟

پی ایس ایل ٹیموں کی پلیئنگ الیون میں شائقین کرکٹ اور کرکٹ بورڈ حکام کی توجہ حاصل کرنے والے نئے کھلاڑی اس سال زیادہ تر چھوٹے شہروں سے یہاں تک پہنچے۔ 

ان کی تعداد 15 ہے جن میں لاہور قلندرز نے محمد نعیم بلے باز اور فاست بولر سلمان مرزا کو پلیئنگ الیون کی ایمرجنگ کیٹگری میں چانس دیا۔

محمد نعیم کا تعلق کے پی کے علاقے پارہ چنار ہے۔ سلمان مرزا لاہور سے ہیں۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ایمرجنگ کیٹگری میں شامل حسن نواز کا تعلق پنجاب کے ضلع لیہ سے ہے یہ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیل چکے ہیں۔

دوسرے کھلاڑی عثمان طارق کا تعلق پشاور سے ہے جو اپنے نمایاں بولنگ ایکشن سے بہتر کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہے۔

پشاور زلمی نے اس کیٹگری میں فاسٹ بولر 17 سالہ علی رضا کو شامل کیا جن کا تعلق پنجاب کے ضلع ننکانہ سے ہے دوسرے نئے کھلاڑی 20 سالہ آل راونڈر معاذ صداقت کا تعلق پشاور سے ہے۔

سپن بولر 25 سالہ سفیان مقیم کا تعلق کشمیر سے ہے۔ سپن بولر 22 سالہ مہران ممتاز کا تعلق راولپنڈی سے ہے۔

اسی طرح ملتان سلطانز نے بھی ایمرجنگ کیٹگری میں نئے تین کھلاڑی شامل کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

23 سالہ بیٹس مین بنوں سے تعلق رکھنے والے یاسر خان، دوسرے کھلاڑی آل راونڈر 22 سالہ شاہد عزیز کا تعلق کرم ایجنسی سے ہے۔

تیسرے لوئر دیر سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ کھلاڑی عبید شاہ کو شامل کیا گیا جو پاکستانی فاسٹ بولر نسیم شاہ کے بھائی ہیں۔

اسلام آباد یونائیٹڈ اور کراچی کنگز نے ایمرجنگ کیٹگری میں دو دو نئے کھلاڑیوں کو پلیئنگ الیون کا حصہ بنا کر میدان میں اتارا۔

اسلام آباد یونائیٹڈ کی جانب سے ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے آل راونڈر 21 سالہ محمد شہزاد اور کراچی کے رہائشی 22 سالہ محمد غازی غوری کو شامل کیا گیا۔

کراچی کنگز نے اپنے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام کے ذریعے تیار کیے گئے پشاور کے نوجوان کھلاڑی فواد علی اور کراچی سے تعلق رکھنے والے سعد بیگ کو مقابلہ کرنے والی ٹیم میں جگہ دی۔ 

پی ایس ایل ٹیموں کی جانب سے طے کردہ کیٹا گریز میں شامل کھلاڑیوں کی کارکردگی کے لحاظ سے ان کی پوزیشن مین ردوبدل بھی ممکن ہے۔

چھوٹے شہروں میں کھیلوں کی سہولیات کا فقدان

سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود کے بقول، ’کسی بھی ٹیم میں شامل کھلاڑیوں کا تعلق کسی بھی شہر سے ہوسکتا ہے۔

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ کب کتنے کھلاڑیوں کا تعلق چھوٹے یا پسماندہ شہروں سے ہے یا بڑے ترقی یافتہ شہروں سے ہے۔ دنیا بھر کی مختلف ٹیموں میں کھلاڑیوں کا تعلق چھوٹے بڑے شہروں سے ہی ہوتا ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم میں بہت بڑے بڑے کھلاڑیوں کا تعلق چھوٹے شہروں سے بھی رہا اور بڑے شہروں سے بھی۔

’اہم بات یہ ہے کہ ہمیں چھوٹے یا بڑے شہروں میں امتیاز کیے بغیر کھیلوں کی سہولیات ہر شہر، قصبے اور گاوں میں دینی چاہییں۔‘

بقول خالد محمود: ’انسان میں ٹیلٹ قدرتی ہوتا ہے اور شوق وہ خود پالتا ہے۔ ان دونوں خصوصیات کی بنیاد پرکسی کو اچھا کھلاڑی یا سٹار بنانے کے لیے سہولیات کی فراہمی حکومت وقت یا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

بد قسمتی سے ہمارے ہان چھوٹے علاقوں سے تعلق رکھنے والے وہی کھلاڑی سامنے آسکتے ہیں جو بڑے کلبوں یا شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

’جب بھی کوئی کھلاڑی پسماندہ علاقے سے گلی محلوں میں گیم سیکھ کر بڑے شہروں میں آتا ہے تو اس پر کافی محنت کرنا پڑتی ہے تاکہ وہ عالمی یا قومی سطح کے مقابلوں میں گیم رولز کے مطابق بہتر کارکردگی دکھا سکے۔

’بدقسمتی سے بہت سے کھلاڑی گھر چھوڑنا یا دور جاکر کھیل کی تربیت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ لہذا وہ ٹیلنٹ ہونے کے باوجود اپنا نام نہیں بنا سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سا ٹیلنٹ ضائع ہورہا ہے۔‘

سابق چیئرمین پی سی بی کے مطابق ’اگر کھیلوں کی سہولیات سکول کالجز، چھوٹے علاقوں میں فراہم کی جائیں تو بہت سے ہنرمند کھلاڑی ہمیں مذید مل سکتے ہیں۔

’لیکن اب صورت حال بہتر ہو رہی ہے کیونکہ کرکٹ گلی محلوں سے نکل کر بڑے میدانوں تک پہنچنے لگی ہے۔

’البتہ ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کھیلوں کے زریعے صحت مند سرگرمیاں پروان چڑھیں نہ صرف سٹارز بلکہ صحت مند معاشرے کو فروغ مل سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ