فرار 216 قیدیوں میں سے 78 دوبارہ گرفتار: کراچی پولیس

کراچی پولیس اور صوبائی حکام کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب ملیر جیل سے 216 سے زائد قیدی ’زلزلے کے باعث کمزور ہونے والی‘ دیوار توڑ کر فرار ہوگئے، جن میں سے 78 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جبکہ دیگر کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

کراچی میں ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے 216 سے زائد قیدیوں کے فرار کے واقعے پر حکومت سندھ نے منگل کو انسپکٹر جنرل (آئی جی) جیل خانہ جات قاضی نذیر احمد کو عہدے سے ہٹا دیا۔

چیف سیکریٹری سندھ نے ایک نوٹیفکیشن میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل حسن سہتو، جیل سپرنٹنڈنٹ ارشد حسین سمیت دیگر افسران کو معطل کیا ہے۔

نوٹیفیکیشن کے مطابق ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل خانہ جات، سکھر ریجن اسلم ملک اب ڈی آئی جی جیل کراچی ہوں گے۔

کراچی پولیس اور صوبائی حکام کے مطابق پیر اور منگل کی درمیانی شب ملیر جیل سے 216 سے زائد قیدی ’زلزلے کے باعث کمزور ہونے والی‘ دیوار توڑ کر فرار ہو گئے تھے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عثمان غنی کے مطابق ان میں سے 78 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا جبکہ دیگر کی تلاش میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔

واقعے کے دوران جیل میں بھگدڑ اور ہنگامہ آرائی کے باعث تین ایف سی اہلکار شدید زخمی ہوئے، جنہیں فوری طور پر طبی امداد کے لیے نجی ہسپتال منتقل کیا گیا جبکہ دیگر سکیورٹی اہلکار معمولی زخمی ہوئے۔

اسی طرح حکام نے پانچ قیدیوں کے زخمی ہونے اور ایک قیدی کی موت کی تصدیق کی ہے۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) جیل خانہ جات حسن سہتو نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس وقت جیل میں تقریباً چھ ہزار قیدی موجود ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’زلزلے کے بعد قیدیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا اور انہوں نے نہ صرف دیوار توڑی بلکہ تالے بھی توڑنے کی کوشش کی۔‘

کراچی میں گذشتہ 48 گھنٹوں میں 11 بار زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس کے بعد قیدیوں کو حفاظتی طور پر بیرکوں سے باہر منتقل کیا گیا۔

اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قیدیوں نے دیوار کو دھکا دے کر توڑ دیا اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملیر جیل کی دیوار حالیہ زلزلوں کے جھٹکوں کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ جیل کے اندر اور باہر سکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے تاکہ مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔

وزیر داخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ زلزلے کے بعد جیل میں افراتفری کی صورت حال پیدا ہوئی، جس کے نتیجے میں ایک گیٹ ٹوٹ گیا اور قیدیوں کو موقع ملا کہ وہ باہر نکل آئیں۔

ان کے مطابق یہ واقعہ کسی غفلت کا نتیجہ نہیں بلکہ قدرتی آفت، یعنی زلزلے کے باعث پیش آیا۔

وزیر داخلہ نے تصدیق کی کہ قیدیوں کے مکمل کوائف موجود ہیں اور کوئی خطرناک یا دہشت گرد قیدی فرار نہیں ہوا۔

قیدیوں کی تلاش میں پولیس، رینجرز، ایس ایس یو اور دیگر سکیورٹی ادارے بھرپور انداز میں شریک ہیں۔

پولیس کے مطابق قیدیوں کو مختلف علاقوں جیسے قذافی ٹاؤن، شاہ لطیف اور بھینس کالونی سے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ مقامی افراد نے بھی پولیس سے تعاون کرتے ہوئے مشکوک افراد کی اطلاع دی، جس کے نتیجے میں کئی قیدی دوبارہ گرفتار کیے گئے۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو کے مطابق جیل حکام کی جانب سے گنتی جاری ہے کہ کتنے قیدی فرار ہوئے۔

فرار ہونے والے قیدیوں کے خلاف الگ سے مقدمہ ہو گا: پولیس

پولیس حکام کے مطابق جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں کے خلاف ایک علیحدہ مقدمہ درج کیا جائے گا، جس میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، جیل کا گیٹ توڑنے اور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے جیسی سنگین دفعات شامل کی جائیں گی۔

حکام کا مزید کہنا ہے کہ فرار ہونے والے قیدیوں اور دوبارہ گرفتار کیے جانے والوں کا ٹرائل جداگانہ طور پر کیا جائے گا، تاکہ انصاف کے تقاضے مؤثر انداز میں پورے کیے جا سکیں۔

انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام نبی میمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ فرار ہونے والے زیادہ تر قیدی منشیات کے مقدمات میں قید تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’یہ واقعہ پلاننگ سے نہیں ہوا۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اس واقعے کی ’سینیئر سطح پر انکوائری ہوگی اور اس کا تعین ہوگا کہ یہ واقعہ کیوں ہوا اور جو بھی ذمہ دار ہوگا، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘

ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے قیدیوں کے فرار کے بعد پولیس حکام نے کراچی میں ہائی الرٹ جاری کرتے ہوئے سکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں گشت بڑھا دیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان