مچھ شمالی بلوچستان کا وہ علاقہ ہے، جہاں دشوار گزار پہاڑوں کی وجہ سے اکثر سکیورٹی چیلنجز درپیش رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر اس علاقے کو بولان پاس، مچھ ریلوے سٹیشن اور مچھ جیل کی وجہ سے اہمیت حاصل رہی ہے۔
اس کے علاوہ قومی شاہراہ این 65، جو بلوچستان کو سندھ اور پنجاب سے ملاتی ہے، بھی یہاں سے گزرتی ہے۔
مچھ میں سکیورٹی چیلنجز اور ذمہ داریاں
گذشتہ چند مہینوں کے دوران بلوچستان میں کاالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی جانب سے پرتشدد حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جنوری میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کی ذمہ داری عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔
امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ کے مطابق بی ایل اے کو سکیورٹی فورسز اور سی پیک پر متواتر حملوں کے باعث 2019 میں عالمی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں بھی شامل کیا جا چکا ہے۔
ایف سی بلوچستان نارتھ میں تعینات کمانڈر بریگیڈیئر ذیشان رضوان نے مچھ میں سکیورٹی چیلنجز کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ برس جنوری کے مہینے میں بلوچستان کی تاریخ کا ایک بڑا دہشت گرد حملہ ہوا تھا جو منظم طریقے سے پورے مچھ کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش تھا۔ دہشت گردوں نے ایک ہی وقت میں مچھ کے مختلف مقامات پر حملے کیے۔ لیکن ایف سی بلوچستان نے بروقت اس بڑے حملے کو ناکام بنا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے قبول کی تھی۔ بی ایل اے کو اس حملے کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ بارہ خودکش حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا تھا اور ایف سی بلوچستان نے 24 سے 36 گھنٹے کے اندر آپریشن مکمل کر کے علاقے کو کلیئر کروا دیا تھا۔‘
مچھ جیل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ’مچھ جیل ہماری بریگیڈ کے ساتھ متصل ہے، جہاں 300۔400 قیدی ہیں اور اس کی بیرونی سکیورٹی ایف سی کے پاس، جبکہ جیل کے اندر کی سکیورٹی بلوچستان پولیس کی ذمہ داری ہے۔‘
مچھ ریلوے سٹیشن
مچھ میں ہر روز سیٹی کی تیز آواز سنائی دیتی ہے اور ایف سی کے جوانوں کا ایک دستہ مچھ ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم کا رخ کرتا ہے۔
سکیورٹی اہلکار آنے والی ریل گاڑی کے رکنے کے بعد اس کی ہر بوگی کی چیکنگ انجام دیتے ہیں اور ان کی طرف سے کیلئرنس کے بعد ہی ٹرین اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہو سکتی ہے۔
ایف سی بلوچستان نارتھ میں تعینات کمانڈر بریگیڈیئر ذیشان رضوان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے جوان ہر ٹرین کو رکنے کے بعد پوری طرح چیک کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم مسافروں کا سامان بھی چیک کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ٹرینوں کی چیکنگ کے علاوہ ایف سی اہلکاروں کے فرائض میں روزانہ 70 کلومیٹر ریلوے ٹریک کو چیک کرنا بھی شامل ہے۔‘
بریگیڈیئر ذیشان رضوان کے مطابق وہ بم ڈسپوزل آلات اور مشینوں سے ریل کی پٹڑی کو چیک کیا جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مچھ ریلوے سٹیشن کے انچارج (سٹیشن ماسٹر) عبد الواحد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’کوئٹہ سے پشاور کے لیے جعفر ایکسپریس جب یہاں پہنچتی ہے تو ایک گھنٹی بجائی جاتی ہے جس پر سکیورٹی فورسز چوکنا ہو جاتی ہیں۔
’گاڑی کے پہنچنے پر ایف سی والے اسے چیک کر کے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم نے تمام سکیورٹی چیک کر لی ہے۔ مسافروں اور ان کے سامان کو بھی چیک کیا جاتا ہے۔ اب گاڑی چلا دیں تو ہم اس گاڑی کے چلا دیتے ہیں۔‘
عبدالواحد کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد پھر بولان ایکسپریس ہے جو تقریباً دو دن کے بعد کوئٹہ سے کراچی کے لیے آتی ہے۔ اس کی سکیورٹی بھی ایسے چیک ہی کی جاتی ہے۔‘
مچھ میں ایف سی شمالی بلوچستان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بریگیڈیئر ذیشان نے بتایا کہ ’مچھ ریلوے سٹیشن کے علاوہ قومی شاہراہ این 65 کی سکیورٹی کی ذمہ داری بھی ان کے دستوں کی ہے۔
مچھ کی عوام کو درپیش مسائل اور سہولتیں
مچھ کے علاقے میں مقامی افراد کو بنیادی سہولیات کے لیے ضلعی انتظامیہ کیا کر رہی ہے؟
اس حوالے سے اسسٹنٹ کمشنر بیرسٹر ارسلان نے بتایا کہ ’یہاں سرکاری ہسپتال ہے لیکن ہم نے اس کے علاوہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ اور این جی اوز کے ساتھ اشتراک سے 50 بستروں پر مشتمل ہسپتال پر کام کیا ہے جو جلد ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے پاس چلا جائے گا تاکہ علاقے کی صحت کی ضرویات پوری کی جاسکیں۔‘
کوئلے کی کان سے روزگار
مچھ میں مقامی افراد کی زندگی کا دارومدار کوئلے کی کانوں پر ہے۔ مچھ میں واقع سینکڑوں کانوں میں ہزاروں مزدور روزانہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی مزدور گہرے اور خطرناک کانوں میں اتر کر کوئلہ نکالتے ہیں، جو بعد میں ملک کے مختلف حصوں میں فراہم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ کچھ لوگ سیب کے باغات میں بھی محنت کرتے ہیں۔
مقامی ٹھیکیدار نے بتایا کہ ’مچھ کے علاقے میں 100 سے زیادہ کائلے کی کانیں ہیں اور تقریباً 2500 مزدور ان کانوں میں کام کرتے ہیں، جس میں زیادہ تعداد مقامی افراد کی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا سے بھی مزدور آتے ہیں۔‘